آیا سوفیا اور عبداللہ دیوانہ‎


ابھی اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا غلغلہ تھم نہیں پایا تھا کہ پاکستانی مجاہدین کے ہونے والے خلیفہ نے آیا سوفیا میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے کا عندیہ دے کر لال قلعہ پر پاکستانی پرچم لہرانے اور بھارت کو ایٹم بم سے راکھ کا ڈھیر بنا دینے کا عزم رکھنے والے صوم وصلاة، پابند شریعت، پکے اور سچے مسلمانوں کو نعرہ تکبیر لگانے اور بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بننے کا ایک اور موقع فراہم کر دیا، اور کل سے یہ کنفرم جنتی مسلمان خوب بھنگڑے ڈال رہے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اگر کسی اور ”کافر“ ملک نے کسی مسجد کو مندر یا چرچ میں تبدیل کر دیا تو پھر کیا ہوگا؟ پھر یہ مجاہدین جلوس نکالیں گے، گلے پھاڑ پھاڑکے اور نسیں پھلا پھلا کے اس ملک کے خلاف نعرے لگائیں گے اور آنسو بہاتے ہوئے توپوں میں کیڑے پڑنے اور یا اللہ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے جیسی چند بددعائیں دیتے ہوئے اپنے ہی ملک میں توڑ پھوڑ کرکے گھر جاکر میٹھی نیند سو جائیں گے۔

‎آیا سوفیا کی عمارت اسلام کی آمد سے کئی دہائیاں قبل آرتھوڈوکس عیسائیوں کا مرکز ہے، یہ عمارت اسلام کی آمد سے تقریباً تہتر سال قبل مکمل ہوگئی تھی اور اس کو آرتھوڈوکس عیسائیوں کے ہاں وہی مقام حاصل ہے جو کہ کیتھولک عیسائیوں کے ہاں ویٹی کن کو حاصل ہے، اگر ویٹی کن کیتھولک عیسائیوں کا مکہ ہے تو یہ عمارت آرتھوڈوکس عیسائیوں کے لیے انتہائی مقدس ہے، اور آج بھی آرتھوڈوکس عیسائیوں کا پوپ اپنے نام کے ساتھ سربراہ کلیسا قسطنطنیہ لکھتا ہے۔

پندرہویں صدی کے وسط میں سلطان محمد شاہ نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تو کچھ دستاویزات کے مطابق اس نے عیسائیوں سے رقم کے عوض خرید کر اس عمارت کو مسجد میں تبدیل کر دیا، اس ضمن میں ایک اور بھی تاویل پیش کی جاتی ہے کہ حالیہ زمانے میں بھی یورپ میں چرچ بیچے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ مان لینا کہ مفتوحین اپنی اتنی اہمیت اور مذہبی عقیدت کی حامل عبادت گاہ اور آرتھوڈوکس عیسائیوں کا قبلہ ایک فاتح کو بخوشی دینے پر تیار ہوگئے تھے انصاف سے اغماض برتنے کے مترادف ہے کیونکہ غالب اور مغلوب میں کیسی سودے بازی، فاتح اور مفتوح میں کیسی مرضی۔

‎دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ بیت اللہ کو بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں تبدیل کیا تھا تو پہلی بات یہ کہ ایک تو یہ نری کج بحثی اور غلط تقابل ہے، دوسرے یہ کہ بیت اللہ جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک بت خانے میں تبدیل ہو گیا تھا اس کی ابتدائی حیثیت بطور خانہ خدا کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحال کر دیا تھا، ہمیں آپ کی حیات طیبہ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ آپ نے کسی مندر کسی کلیسا یا کسی سیناگوگ کو مسجد میں تبدیل کر دیا ہو۔ یہ عمل اسلامی تعلیمات کی روح کے بھی خلاف ہے، کیا اسلامی تعلیمات کے مطابق غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو مسجد میں تبدیل کر دینا ایک قابل تحسین عمل ہے؟

‎ہمارے مجاہدین اور اچھے، سچے، اور پکے مسلمانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ طیب اردوان کا ایک خالص سیاسی فیصلہ ہے، اسلام سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں ہے، کیونکہ استنبول میں جون 2019 میں ہونے والے میئر کے الیکشن میں پچیس سال بعد وہ اپنی مخالف سیکولر ریبلکن پیپلز پارٹی کے اکرم امام اولو سے ہار گئے اور ترکی میں کہا جاتا ہے کہ جو استنبول جیت گیا وہ ترکی بھی جیت جائے گا۔ طیب اردوان کا یہ سارا سیاسی اسٹنٹ اپنے ووٹ بینک کو مستحکم کرنے اور اپنے لوگوں کو متحرک کرنے کے لئے ہے۔ اس لیے پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ نہ بنیں، ہمارا تو وہ حال ہے کہ ہم بیگانی شادی میں ناچ ناچ کر دیوانے ہو جاتے ہیں اور جس کی شادی میں ناچ رہے ہوتے ہیں وہ پوچھتا ہے کہ بھئی یہ نچنیا کون ہے اور یہ ناچ ناچ کر کیوں اتنا پھاوا ہوا جا رہا ہے۔

‎گزارش ہے کہ پہلے ہی پاکستان میں دو فرقے، فرقہ ایرانیہ اور فرقہ سعودیہ سے تعلق رکھنے والے اپنے ملک سے زیادہ ان ممالک کی محبت کا دم بھرتے ہیں اس لئے اسلام کے خود ساختہ محافظوں، اسلامی کالم نویسوں اور اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے نام نہاد اسکالرز سے دست بدستہ گزارش ہے کہ فرقہ ترکیہ پیدا کرنے سے گریز کریں کیونکہ اول الذکر فرقوں کی وجہ سے پہلے ہی پاکستان کافی نقصان بھگت چکا ہے اور بھگت رہا ہے، اب کسی اور فرقے اور اس کے پیدا کردہ نتائج کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس ملک پر رحم فرمائیں کیونکہ مسلم امہ کا کوئی تصور کم از کم آج کی دنیا میں نہیں پایا جاتا ہر ملک کے اپنے مفادات ہیں اور ہر ملک اپنے مفادات کو دیکھ کر ہی کوئی قدم اٹھاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments