کشمیر میں یوم شہدا: انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کو ’مُردوں‘ سے کیا اختلاف ہے؟


کشمیری شہدا کا قبرستان (فائل فوٹو)

کشمیری شہدا کا قبرستان (فائل فوٹو)

گذشتہ سال کے موسم گرما تک کشمیر کی جدید سیاست کے دو دھارے تھے: ہندنواز رہنما انڈیا کی سالمیت پر یقین رکھتے ہوئے جموں کشمیر کی اندرونی خودمختاری کی قسمیں کھاتے تھے جبکہ ہندمخالف حلقےخودمختاری کو سیاسی نعرہ قرار دیتے ہوئے کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کرتے تھے۔

لیکن 13جولائی سنہ 1931 کے روز سرینگر کے سینٹرل جیل کے احاطے میں اُس وقت کے مطلق العنان مہاراجہ ہری سنگھ کی فوج کے ہاتھوں درجنوں کشمیریوں کی ہلاکت ایسا واحد واقعہ ہے جس پر ہندمخالف اور ہندنواز دونوں حلقے متفق ہیں۔

دونوں اس کارروائی میں ہلاک ہونے والوں کو شہید کہتے ہیں اور سالہاسال سے اس روز ہندنواز حکمراں ہر سال 13 جولائی کی صبح سرینگر کے خواجہ بازار میں واقع مزارِ شہدا پر گل باری کرتے اور سرکاری اعزاز کے ساتھ پولیس کے گارڈ آف آنر کا اہتمام کرکے شہدا کو یاد کرتے تھے۔

لیکن گذشتہ تیس سال سے اس روز علیحدگی پسندوں کو گھروں یا جیلوں میں نظربند کیا جاتا تھا اور مزارِ شہدا کی طرف جانے والے راستوں کو بند کیا جاتا تھا کیونکہ ہندنواز حکمرانوں کو لگتا تھا کہ علیحدگی پسندوں کی کال پر لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوجائے گی جو ہندنوازوں کے لیے سیاسی چیلنج ہوسکتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر: ایک تصویر، بچہ اور دادا کی لاش

برہان وانی کی برسی: انڈیا، پاکستان میں ان کا نام سوشل میڈیا پر ٹرینڈ

’اس دیار فانی سے رحلت تک بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا‘

یہ سارا قضیہ گذشتہ برس پانچ اگست کو اختتام پذیر ہوا، کیونکہ کشمیر کی نیم خودمختاری کو ختم کرکے جموں کشمیر کو انڈین وفاق میں باقاعدہ طور پر ضم کرلیا گیا۔ درجنوں دیگر قوانین کے ساتھ ساتھ مقامی قانون کے مطابق 13 جولائی کی تعطیل کو ختم کردیا گیا اور اس کے ساتھ ہی یوم شہدا منانے کی 70 سالہ سرکاری روایت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔

مورخ، مصنف اور قلمکار پی جی رسول کہتے ہیں: ‘اس دن کی مناسبت کسی ہندمخالف نظریہ کے ساتھ نہیں تھی۔ یہ ڈوگرہ شاہی کے خلاف مزاحمت کا حصہ ہے۔ حکومت نے غیرضروری طور پر کشمیریوں پر ایک ثفافتی اور فرقہ وارانہ جنگ مسلط کر دی ہے۔’ پی جی رسول مزید کہتے ہیں کہ تاریخی ہیرو لوگوں کے اجتماعی ضمیر کا حصہ ہوتے ہیں، اُن کے مزار کو بند بھی کیا جائے تو اُنھیں کوئی فراموش نہیں کرتا۔

‘سبھاش چندر بوس کی کوئی سمادھی (مزار) نہیں، کیا اس کا مطلب ہے کہ بھارتی عوام اُنہیں بھول جائے گی؟ حضرت موسیٰ کی کوئی قبر نہیں، کیا اس کا مطلب ہے کہ یہودی اُن کو بھول گئے؟ ویسے بھی کشمیر میں یہ ایک رسم رہ گئی تھی، حریت بھی اس دن ہڑتال کی کال دیتی تھی۔ لیکن اس فیصلے سے جموں کشمیر میں ایک فرقہ ورانہ مسابقت آرائی کو ہوا دی گئی ہے۔ اور پھر اس پابندی سے جو نہیں جانتا تھا کہ 13 جولائی کو کیا ہوا تھا وہ ابھی جاننے کی کوشش کرے گا۔’

کشمیر میں یوم شہدا کے بارے میں جو بھی اجتماعی سوچ ہو، جموں میں حکومت ہند کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے جس کی رُو سے 13 جولائی کی تعطیل کو منسوخ کر کے اس دن ہونے والی سرکاری تقریبات کی روایت کو ختم کر دیا گیا ہے۔

جموں کے سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار ترون اُپادھیائے کہتے ہیں کشمیر کے سیاستدانوں اور علیحدگی پسندوں نے طویل عرصے سے یکطرفہ بیانیے کے ذریعہ جموں کے لوگوں کو نفسیاتی تکلیف پہنچائی ہے۔ ‘ظاہر ہے 13 جولائی کو جو ہوا وہ ناخوشگوار واقعہ تھا، لیکن جو کچھ اس دن ہوتا تھا اُس سے جموں والوں کو لگتا تھا کہ کشمیر کے ہندمخالف اور ہندنواز مل کر جموں کو گالی دیتے ہیں۔’

ترون اُپادھیائے کہتے ہیں کہ ہلاکتوں کا باقاعدہ دن منا کر اس روز سرکاری تقریب اور اُس تقریب میں پولیس کی پریڈ اور مقبرے پر شہیدوں کو سلامی وغیرہ کشمیر کے سابق حکمراں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف نفرت کا اظہار ہے۔ ‘مہاراجہ کوئی غیر تو نہیں تھا، جموں کا باسی تھا۔ جب ایک ہی ریاست میں ریاست کے باشندہ اور بادشاہ کی علامتی شکست کا دن سرکاری طور پر منایا جائے تو یہ بڑی ناانصافی ہے، جس کو بی جے پی حکومت نے دُور کیا ہے۔’

میر واعظ عمر فاروق

میر واعظ عمر فاروق

جموں کے ہندو اکثریتی خطے اور کشمیر کے مسلم اکثریتی خطے کے درمیان کشمیر کی تاریخ کے بارے میں دیرینہ اختلافات موجود ہیں اور یہی اختلافات یہاں کی سیاست کے خدوخال کی تشکیل کرتے رہے ہیں۔ لیکن عام لوگ حکومت کے ایسے فیصلوں سے ناراض ہیں جن میں حکومت تاریخی یادگاروں کو وطن دشمن قرار دیتی ہے۔

کشمیر یونیورسٹی کی ریسرچ سکالر آفرین قیوم کہتی ہیں: ‘لوگوں کی اجتماعی خواہشات کے ساتھ حکومت متفق ہو یا نہ ہو وہ الگ بات ہے، لیکن ستم یہ ہے کہ کشمیر میں حکومت کو مُردوں سے بھی اختلاف ہے۔ تہاڑ جیل میں دفن کیے گئے کشمیری علیحدگی پسندوں مقبول بٹ اور افضل گورو کی لاشیں لواحقین کے سپرد کرنے میں بھی حکومت کو خطرہ محسوس ہوتا ہے اور اب نواسی سال قبل شخصی راج کے خلاف جدوجہد میں مارے گئے کشمیریوں کا مقبرہ بھی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔اس پر انسان کیا تبصرہ کرے؟’

یہ بات قابل ذکر ہے کہ شخصی راج کے خلاف سنہ 1930 کے اوائل میں کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کے دوران مارے جانے والے لوگوں کو کشمیر کے سابقہ آئین میں شہیدوں کا درجہ دیا گیا تھا۔ گذشتہ برس پانچ اگست کو جب کشمیر کی رہی سہی خودمختاری ختم کردی گئی تو یہ روایت بھی ختم ہوگئی۔ گذشتہ سات دہائیوں میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ کشمیر میں 13 جولائی کو سرکاری تعطیل نہیں ہے اور کوئی بھی سرکاری کارندہ سرینگر کے پُرانے مزارِ شہدا پر حاضری دینے نہیں گیا۔ تاہم فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی اور دیگر کشمیری سیاسی لیڈروں نے الگ الگ بیانات میں شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

30 سالہ مسلح شورش کے دوران علیحدگی پسند ہر سال 13 جولائی کو ہڑتال کی کال دیتے تھے۔ اس بار یہ ہوا کہ حکومت نے سرینگر ضلع میں کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک بار پھر سخت لاک ڈاون نافذ کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp