کورونا میں مبتلا مریض کا علاج کرایا


میرا بھتیجے کی، جو چھ فٹ کا لحیم شحیم اور صحت مند 48 برس کا مرد ہے، ہڈیاں نکل آئی ہیں۔ چہرہ پچک گیا ہے اور آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے بن گئے ہیں۔ دس قدم چلنے سے سانس پھول جاتی ہے۔ کبھی پریشانی اور مایوسی میں مبتلا ہو جاتا ہے مگر ہم پھر بھی خوش ہیں کہ صحت یابی کی جانب گامزن ہے۔

معاملہ صرف کھانسی اور تھوڑا تھوڑا بدن ٹوٹنے سے شروع ہوا تھا۔ اس سے پہلے وہ کورونا وائرس اور اس سے ہونے والی مرض کے بارے میں آشنا تو تھا مگر احتیاط کم ہی برتتا تھا۔ تلقین کرنے پر کہتا، کچھ نہیں ہوتا۔ گھر پہ ڈاکٹر آ کے علاج کرنے لگا مگر ضیق النفسی بڑھنے لگی۔ نشتر ہسپتال ملتان بھیجا تاکہ کورونا کا ٹیسٹ ہو مگر انہوں نے یہ کہہ کے کہ کووڈ لگتا نہیں ہے اور ہمارے پاس ٹیسٹ کٹس بھی نہیں، کچھ نہیں کیا۔ ملتان سے ہی چغتائی لیب سے ٹیسٹ کروایا۔ دو روز بعد موبائل پہ رپورٹ ملی ”ڈیٹیکٹڈ“ ۔

رات کو ہی مریض کو کار پہ بہاولپور لے جایا گیا۔ کورونا وارڈ بالکل خالی تھا۔ مریض کو بغیر کسی توجہ کے بغیر تکیے کے بستر پہ ڈال کر پرانے استعمال شدہ آکسیجن بیگ کے ساتھ آکسیجن لگا دی گئی۔ اس وقت کہا بھی جاتا تو کوئی بیگ تبدیل نہ کرتا۔ حد تو یہ کہ ساتھ جانے والے کو بھی بنا ماسک کے مریض کے ساتھ وارڈ میں جانے دیا گیا۔

اگلے روز شناسا مددگار ڈاکٹر آئیں تو انہوں نے مریض کو کمرے میں منتقل کیا جو مناسب اور مجہز تھا۔ ساتھ ہی ڈاکٹر صاحبہ نے مریض کی بہن سے کہا کہ بہتر ہے آپ ماسک لگا کر مریض کے ساتھ رہیں، انشاءاللہ کچھ نہیں ہوگا۔ اب مریض اور تیماردار کمرے میں اور ایک اور مددگار بھائی دن بھر کھانا لانے اور باہر کی لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کروانے کی خاطر کمرے سے باہر ہمہ وقت موجود۔

عملے کا عالم یہ کہ شناسا سینیر ڈاکٹر کو فون کرو تو وہ کسی ڈاکٹر کو بھیج دیں وگرنہ کوئی نرس تک نہ آئے۔ بہانہ یہ کہ ہمیں کورونا سے محفوظ رکھنے والا لباس چڑھانا اتارنا پڑتا ہے۔

آکسیجن کم زیادہ کرنے کو پتلے ماسک پہنے وارڈ بوائز یا بغیر ماسک کے سویپر۔ ٹیکہ لگوانا ہو، ڈرپ لگوانی ہو تو ٹیکہ لگا کے وارڈ بوائے کہتا، باجی اگلا ٹیکا آپ خود لگا لیں۔ باجی نہ ڈاکٹر نہ نرس۔ باجی کا کہنا ہے کہ مریضوں کا برا حال تھا۔ لگتا تھا ہسپتال کا سارا نظام سویپرز کے سپرد کیا جا چکا ہے۔

پھر نازک صورت حال پیدا ہو گئی۔ پہلے اور اب تک مسلسل دیے جانے والے ڈیکسامیتھازون انجکشنوں کی وجہ سے خون میں شکر کی مقدار تو مسلسل بڑھ چکی تھی جس کو قابو میں رکھنے کی خاطر انسولین کے ٹیکے اور خون میں شکر کی مقدار کم کرنے کی دو طرح کی گولیاں بھی دی جا رہی تھیں کہ یک لخت تیز بخار ہو گیا۔

میں چونکہ مسلسل رابطے میں تھا۔ یہ سن کر میں خود بہت پریشان ہو گیا تھا۔ ایک روز تو بخار مہلک حد 105 ڈکری فارن ہائیٹ تک چلا گیا تھا جو ٹیکے دے کے اور ٹھنڈے پانی کی پٹیاں لگا کے کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اگلے روز بھی مریض پھنک رہا تھا۔

شناسا مددگار ڈاکٹر نے بتایا کہ Actimer انجیکشن حکومت کی طرف سے دیے جانے کی خاطر ایک بورڈ کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے جو اکثر دیر سے ہوتا ہے۔ تب تک مریض وینٹی لیٹر پہ چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد میرے تجربہ کے مطابق کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ آپ جتنی جلد ہو سکتا ہے انجیکشن منگوا لیں۔

کراچی میں مریض کا چچا اور لیڈی ڈاکٹر کزن تلاش کرتے رہے، کہاں ملتا اگر بقول ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید کے انہیں پانچ لاکھ روپے تک میں نہ مل پایا تھا۔ کمپنی روش کو فون کیا جہاں سے پابندی بتائی گئی۔ چھوٹے بھتیجے کے ایک دوست نے شکر ہے کراچی سے ہی ڈھونڈ لیے۔ 4 ملی لیٹر کے انجکشن کی سرکاری قیمت 60000 کے قریب تھی مگر شکر ہے 800000 میں ایک کے حساب سے دو مل گئے۔ کورئیر کے ذریعے کیا منگواتے۔ خریدنے والے سے کہا کہ بھائی رینٹ اے کار لے کر آ جاؤ۔ 23000 کار والے کو دیے۔ یوں انجکشن بروقت لگ گئے اور مریض کی حالت سنبھل گئی۔

وارڈ بوائز انجکشن کی خالی شیشی ڈھونڈنے کو تیماردار سے الجھے۔ کورونا کے مریض کے آلودہ ڈسٹ بن میں ڈھونڈتے رہے۔ مگر تیماردار ہوشیار، اس نے یہ سوچ کر کہ نہ جانے ان میں پانی بھر کر مہنگے داموں بیچیں یا پہلے سے چرا کر بیچے گئے کی کمی پوری کرنے کو دکھائیں، خالی شیشی دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میرا بھائی جو ایک نجی چینل کا رپورٹر ہے، وہ انجکشن لایا تھا۔ فون ملاتی ہوں اس سے بات کر لو۔ بھائی واقعی چینل کا رپورٹر ہے، یہ سن کر وارڈ بوائز شانت ہوئے۔

کچھ روز کے بعد مریض کی پلیٹ لیٹس بہت گر گئیں۔ میں نے سنا تو مجھے تشویش ہوئی مگر معالج ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ کوئی بات نہیں۔ اگر کوئی شکایت نہیں ہوئی، خونریزی نہیں ہوئی تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ مریض ہسپتال کے ماحول سے نکلے گا۔ غذا لینا بہتر کرے گا تو پلیٹ لیٹس خود بخود بڑھ جائیں گے۔

میں فون پہ یہی کہتا کہ اگر آکسیجن کی ضرورت ہے اور پلیٹ لیٹس ہزاروں میں ہیں تو کوشش کرو کہ مریض کو کچھ روز اور ہسپتال میں رکھ لیں۔ جس روز فارغ کیا جانا تھا، اس روز ایک واقعہ ہوا۔ کمرے کے باہر ایک خاتون ڈاکٹر نے آ کے زور سے آواز دے کے پوچھا، ”کیا شہزاد نام کا مریض یہاں ہے“ ۔ تیماردار بہن نے باہر آ کے کہا، جی۔ اس ڈاکٹر نے کہا میرے ساتھ آئیں۔ وہ تیماردار کو ڈاکٹرز روم میں جہاں جانے کی اجازت نہیں تھی، لے گئی۔

کہا کہ آپ پوچھ کیوں نہیں رہیں مریض کے بارے میں۔ مریض کی پلیٹ لیٹس بہت کم ہیں۔ ہسٹری پیپرز سے رزلٹ دیکھ کے بتایا 16000 ہیں ( نارمل ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے تین لاکھ تک ) ۔ مریض کا بلڈ گروپ کیا ہے۔ تیماردار بولی کہ مجھے معلوم نہیں تو اس نے کہا باہر سے کروا لو۔ مریض کو چار بیگز لگانے ہوں گے ۔ جب تیماردار نے کہا کہ میں کہاں سے انتظام کروں گی تو اچانک پہنچنے والی ڈاکٹر بولی کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، انڈس والوں کے پاس ہیں، آپ یہاں کے ڈاکٹروں سے ریکویسٹ بھجوا دینا۔ تیماردار نے کہا کہ آپ متعلقہ ڈاکٹر سے بات کر لیں۔ تیماردار نے اپنے فون سے شناسا مددگار ڈاکٹر کو فون ملا کے اس ڈاکٹر کو پکڑا دیا۔ اس نے انہوں سے بھی وہی بات کی جو تیماردار سے کی تھی۔

شناسا مددگار ڈاکٹر نے تیماردار سے کہا کہ گھبرائیں نہیں۔ ان ڈاکٹر کو سمجھ نہیں آئی۔ اس سب کے بعد تیماردار نے غور کیا کہ کوئی ڈاکٹر محفوظ لباس کے بغیر نہیں آتی۔ اس نے صرف اوورآل پہنا ہوا تھا، ماسک تک نہیں تھا۔ کوئی ڈاکٹر مریض یا تیماردار کا فون ہاتھ میں نہیں لیتا مگر اس نے پکڑ لیا تھا۔ پھر اس ڈاکٹر کے چہرے پر اس قدر پریشانی تھی۔ بہرحال تیماردار نے بلڈ گروپ بھی باہر سے کروا لیا اور مددگار بھائی کو بھیج کر انڈس سے ریکویسٹ فارم بھی منگوا لیے۔

اگلے روز کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ ڈاکٹر کون تھی۔ نہ شناسا مددگار ڈاکٹر کو۔ نہ نرسز کو۔ نہ وارڈ بوائز کو۔ کسی نے نہ اسے آتے دیکھا نہ جاتے۔ سبھی ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے تھے اور موجود نہ ہونے کے بہانے گھڑ رہے تھے۔ تیمار دار نے ریکویسٹ بھجوانے کو کہا جو بھجوائی گئی اور انڈس والوں کی گاڑی دو گھنٹوں بعد پلیٹ لیٹس کے چار بیگز لے کر پہنچ گئی۔ پلیٹ لیٹس لگا دیے گئے۔ 78000 ہو گئے۔ مگر دو روز بعد پھر گر گئے۔ ہیمیٹولوجسٹ نے بتایا کہ مقدار درست ہے مگر پلیٹلیٹس آپس میں جڑ گئے ہیں۔ پھر ایک گولی جو ساڑھے تین ہزار روپے فی گولی ہے پانچ روز تک ہڈیوں کے گودے کے اندر پلیٹ لیٹس بنانے میں ممد ہارمون کو انگیخت کرنے کے لیے دی گئیں۔

اب مریض گھر پہ ہے۔ بہت سی ادویہ کے علاوہ دن میں تین بار انسولین بھی لگانی پڑتی ہے کیونکہ ڈیکسامیتھازون کی پانچ پانچ گولیاں صبح دوپہر شام دی جارہی ہیں جو ہفتہ وار چار، تین، دو، ایک کرکے کم کی جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments