آیا صوفیہ: میں ایسا کیوں ہوں؟



دیکھو، ویسے تو میں سب لوگوں جیسا ہی ہوں لیکن بس مزاج تھوڑا الگ سا ہے۔
کیا الگ ہے؟

اب کیسے بتاؤ کیا الگ ہے۔۔۔ چلو مثال دے کر سمجھاتا ہوں۔ جیسے کہ جب تک آپ میرے موقف کی تائید کرتے رہیں گے تب تک آپ ایماندار بھی ہیں اور حق گو بھی۔ جیسے ہی آپ وہ موقف اختیار کریں گے جو مجھے ناپسند ہے، تو مجھے یہ حق حاصل ہوگا کہ میں آپ کو جیسے چاہے القابات سے نواز دوں۔ میرے مذہبی مقام کے بارے میں میرا عقیدہ ہے کہ وہ قیامت تک مسجد ہی رہتا ہے اس لئے اگر سپریم کورٹ بھی میرے عقیدے کے خلاف فیصلہ دے گا تو میں اسے نا انصافی اور ظلم ماننے کے لئے حق بجانب ہوں گا۔ دوسروں کی عبادت گاہوں کے بارے میں میرا مسلک ہے کہ انہیں جب چاہے مسجد میں بدلا جا سکتا ہے۔

صدیوں تک کلیسا رہی عمارت کو بیک جنبش لب مسجد قرار دینا ایک دم درست ہے لیکن اگر کوئی اور حاکم اس مسجد کو میوزیم قرار دے دے تو یہ بڑی انصافی قرار پائے گی۔ تاریخ میں ہوئی غلطیوں کی اصلاح میرے نزدیک بڑا مستحسن عمل ہے بشرطیکہ اس کا مقصد میری عبادت گاہ کا احیا ہو۔ اگر ماضی کی غلطی کی اصلاح کے طور پر کسی نے مسجد کو میوزیم میں بدلا تھا تو وہ یقیناً زندیق تھا۔

میوزیم کی تاریخ بتاتے ہوئے میری دلیل ماضی میں وہاں تک جاکر رک جائے گی جہاں وہ میری عبادت گاہ ہوا کرتا تھا۔ اس دلیل کی بنیاد پر میں اپنی عبادت گاہ کی بحالی کو جائز مانوں گا۔ اگر آپ میری طرح دلیل دیتے ہوئے ذرا اور پیچھے جاکر عمارت کی اصل حیثیت یعنی اس کا کلیسا ہونا یاد دلائیں گے تو آپ یقیناً لادین اور میرے مذہب سے نفرت کرنے والوں میں سے ہیں۔

جہاں میرے ہم خیال اکثریت میں ہوں گے وہاں سیکولر نشانیوں کو ختم کر دینا میری ترجیح ہوگا۔ جہاں دوسرے اکثریت میں ہیں وہاں سیکولر ازم سے زیادہ محبوب شے میرے لئے کوئی نہیں۔ کوئی دوسرا مذہبی گروہ اپنے اکثریتی ملک میں اپنی مذہبی شناخت کی بالادستی چاہے گا تو مجھے اس میں فاشزم کی بو آئے گی لیکن اگر میرا مذہبی گروہ اپنے اکثریتی ملک میں اپنی مذہبی شناخت کی بالادستی قائم کرنے میں لگا ہوگا تو اس میں مجھے خلیفہ کی مہک آنے لگے گی۔

جب اپنے موقف کی تاویل پر آؤں گا تو میں کہ دوں گا کہ وہ عبادت گاہ تو فلاں نے اس مذہب کے ماننے والوں سے خرید لی تھی۔ میں یہ دلیل دیتے ہوئے اس کی پرواہ نہیں کروں گا کہ کیا تقریباً دو ماہ کے محاصرے، ہزاروں اموات اور درجنوں حملوں کے بعد فتحیاب ہوکر شہر میں ہزاروں سپاہیوں کے ساتھ داخل ہوئے سلطان کو اپنی عبادت گاہ سونپنے کے علاوہ مفتوح لوگوں کے پاس کوئی اور چارہ ہو سکتا تھا؟

اگر کوئی اور کسی عبادت گاہ کی بازیابی کے نام پر چناؤ لڑے گا تو میرے خیال میں وہ فرقہ پرست ہے۔ اگر میرے گروہ والا اپنے یہاں عبادت گاہ کی بازیابی کو انتخابی وعدہ بنائے تو وہ مجدد عصر کہلائے گا۔

جہاں میرے گروہ والے زیادہ ہیں وہاں ملک کا سیکولر ازم سے پیچھا چھڑا لینے میں ہی ملک و رعیت کی نجات پوشیدہ ہے۔ جہاں میرا گروہ اقلیت میں ہے وہاں سیکولر شناخت سے پیچھا چھڑانے کا مطلب ملک کو تباہی کی طرف دھکیلنا ہے۔

میرے موقف کی تائید کرنے کے دوران گالیاں، لاٹھیاں اور طعنے جھیلنے والے اعتدال پسند میرے نزدیک حقوق انسانی کے علمبردار اور انسانیت کے رکھوالے ہیں۔ اگر یہی اعتدال پسند میرے گروہ کے موقف کے خلاف زبان کھولیں تو میں سمجھوں گا کہ یہ ملحد ہیں اور انہیں مذہب نہیں بلکہ صرف میرے دین سے چڑ ہے۔

اگر ہندو غلبہ والی سوچ کے خلاف ہندو بولے تو وہ حق گو، یہودی غلبہ والی سوچ کے خلاف یہودی بولے تو وہ حق گو، عیسائی غلبہ والی سوچ کے خلاف عیسائی بولے تو وہ حق گو، اسرائیلی پالیسی پر تنقید کرنے والا اسرائیلی اور امریکی پالیسیوں پر گرفت کرنے والا امریکی حق پسند اور سچائی کا محافظ ہے۔ اگر میرے گروہ میں سے کوئی ہمارے اکثریتی موقف کے خلاف بولے تو وہ یقیناً دشمن کے ہاتھوں بک چکا ہے۔

بس یہی ایک دو باتیں ہیں۔ باقی میں بالکل نارمل سا ہوں۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments