اجیت ڈوبھال: کشمیر اور دلی فسادات سے لے کر چین تک مودی سرکار کو اپنے ہر مسئلے کا حل اجیت ڈوبھال کی شکل میں ہی کیوں ملتا ہے؟


اجیت ڈوبھال

انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کو ناپسند کرنے والے لوگ انھیں اُن کی غیرموجودگی میں ’داروغہ‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وزارتِ خارجہ میں ان کے ناقد انھیں قومی سلامتی کے مشیر (پاکستان) کہہ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ایسا کرنے کی شاید یہ وجہ ہو کہ اِن لوگوں کی نظروں میں ڈوبھال کو سفارت کاری اور خارجہ پالیسی کے بارے میں اتنی سمجھ بوجھ نہیں ہے جتنی اس عہدے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ گذشتہ دنوں اجیت ڈوبھال کی چین کے وزیر دفاع وانگ یی کے ساتھ دو گھنٹے کی ویڈیو کانفرنس کے بعد جب چینی افواج نے اس علاقے سے پیچھے ہٹنا شروع کیا، جس پر وہ اپنا دعوی پیش کرتے رہے تھے، تو بہت سے لوگوں کی تیوریاں چڑھ گئیں۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا جب ڈوبھال نے چین کو اپنے موقف میں تبدیلی لانے کے لیے راضی کیا تھا۔

یہاں تک کہ سنہ 2017 میں جب ڈوکلام میں انڈیا اور چین کے فوجی آمنے سامنے کھڑے تھے اس وقت ڈوبھال نے برکس کے اجلاس کے دوران اپنے ہم منصب یانگ جی چی سے بات کی تھی اور معاملے کو سنبھالا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

گلوان: انڈین، چینی افواج کے ’پیچھے ہٹنے‘ سے کیا مراد ہے؟

نریندر مودی کو شی جن پنگ کی ’محبت’ سے کیا حاصل ہوا؟

انڈیا کے ساتھ کشیدگی، چین نے امریکہ کی ثالثی کی پیشکش کو ٹھکرا دیا

اُن کی گفتگو نہ صرف فون پر جاری رہی بلکہ جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں دونوں نے ملاقات کی اور دونوں اطراف کے فوجیوں کے پیچھے ہٹنے کا ایک خاکہ بھی تیار کیا گیا تھا۔ اس سفارتی گفتگو کے درمیان ڈوبھال چینیوں کو یہ پیغام بھیجنے میں بھی کامیاب رہے کہ اگر اس کا حل نہ نکالا گیا تو نریندر مودی کی برکس کانفرنس میں شرکت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

اس عہدے پر پہنچنے والے انٹیلیجنس کے دوسرے افسر

اجیت ڈوبھال

انڈیا کی تاریخ میں ڈوبھال پانچویں قومی سلامتی کے مشیر ہیں۔ سنہ 1998 میں امریکہ کی طرز پر اٹل بہاری واجپائی کے دور میں یہ عہدہ قائم کیا گیا تھا۔ اس پر پہلی تقرری سابق سفارتکار برجیش مشرا کی ہوئی تھی جو سنہ 2004 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

اگرچہ قومی سلامتی کے مشیر کے کردار میں دفاع، انٹیلیجنس اور سفارت کاری تینوں چیزیں شامل ہوتی ہیں لیکن اب تک قومی سلامتی کے پانچ مشیروں میں سے تین یعنی برجیش مشرا، جے این دیکشیت اور شیوشنکر مینن سفارت کاری کے میدان سے آئے ہیں۔

ڈوبھال سے قبل ایم کے نارائنن واحد انٹیلیجنس افسر تھے جو قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے تک پہنچے تھے۔

دہلی کے فسادات پر قابو پانے میں ڈوبھال کا کردار

عام طور پر قومی سلامتی کے مشیر پردے کے پیچھے سے کام کرتے تھے اور مشورے دیتے تھے۔ ان کا کام دہلی میں بیٹھ کر ہر جگہ سے معلومات اکٹھا کرنا اور حکومت کو مشورے دینا تھا۔ لیکن نریندر مودی نے اجیت ڈوبھال کا استعمال غیر روایتی معاملات کے لیے کیا۔

جب دہلی میں فسادات ہوئے تو مودی نے علاقے میں فسادات پر قابو پانے اور امن وامان بحال کرنے ک لیے ڈوبھال کو بھیجا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی قومی سلامتی کے مشیر نے نہ صرف اس علاقے کا دورہ کیا اور صورتحال کا جائزہ لیا بلکہ متاثرہ افراد سے بھی بات کی۔

عام طور پر قومی سلامتی کے مشیر سے یہ توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ اس طرح کی چیزوں کو ’مائکرو مینیج‘ کرے اور عوام کے سامنے ’حکومت کا چہرہ‘ یا نمائندہ بنے۔ اس اقدام کو اس لیے بھی غیر معمولی سمجھا گیا کیوں کہ امت شاہ انڈیا کے وزیر داخلہ تھے اور دہلی پولیس انھیں رپورٹ کر رہی تھی۔

اجیت ڈوبھال اور امت شاہ

وزیر اعظم نے ڈوبھال کو بھیجنے کا غیرمعمولی فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ کہ گجرات کے شہر احمد آباد میں امریکی صدر ٹرمپ کی آمد اور ہزاروں افراد کے ذریعے ان کا خیر مقدم کیے جانے کے فورا بعد ملک کے دارالحکومت دہلی میں اس طرح کے فسادات کی طرف ٹرمپ کے دورے کی کوریج کرنے آئے دنیا بھر کے میڈیا کی نگاہیں تھیں۔

ایک سابق پولیس افسر کا خیال ہے کہ ڈوبھال کو ہندو مسلم فسادات پر قابو پانے کے لیے اسی لیے بھیجا گیا کیوں کہ امت شاہ خود فسادات سے متاثرہ علاقوں میں گھوم کر مسلمانوں سے بات چیت نہیں کر سکتے تھے۔

ڈوبھال فساد زدہ علاقے میں ایک بار نہیں بلکہ دو بار گئے اور نہ صرف پولیس افسران کو ہدایات دیں بلکہ دونوں برادریوں کے رہنماؤں سے بھی بات کی اور تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کی۔

آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے ڈوبھال پندرہ دنوں تک کشمیر میں رہے

اس کے پس منظر میں ہندو مسلم فسادات کو روکنے میں ڈوبھال کا پرانا ٹریک ریکارڈ بھی تھا۔

سنہ 1968 بیج کے کیرالہ کیڈر کے اجیت ڈوبھال نے سنہ 1972 میں تھلاسری میں ہونے والے فسادات پر بھی قابو پانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور ایک ہفتہ کے اندر ہی صورتحال کو معمول پر لانے میں مدد کی تھی۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا جب ڈوبھال کو اپنے روایتی کردار سے کچھ اضافی کام کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اگست میں جب کشمیر میں آرٹیکل 370 کو ختم کیا گیا تو لاک ڈاؤن کے آغاز کے دوران ڈوبھال پورے پندرہ روز تک کشمیر میں ڈیرہ ڈالے رہے۔ اسی دوران ان کی ایک ویڈیو وائرل ہو گئی جہاں وہ کشمیر کے ایک انتہائی تناؤ والے علاقے شوپیاں میں مقامی لوگوں کے ساتھ بریانی کھاتے نظر آئے۔

ایک دوسری ویڈیو میں انھیں جموں و کشمیر پولیس اور نیم فوجی دستوں کے اہلکاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ ان دونوں ویڈیوز سے کشمیر کے باہر رہنے والے لوگوں کو یہ پیغام پہنچا کہ کشمیر میں امن ہے اور وہاں صورتحال قابو میں ہے۔

ابھی حال ہی میں کورونا کی وبا کے پھیلنے کے بعد جب دہلی کے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے مرکز کو کورونا کا ہاٹ سپاٹ بتایا گیا تو اجیت ڈوبھال رات کے دو بجے وہاں جا کر جماعت کی قیادت کو جگہ خالی کرنے پر راضی کیا۔ یہ ڈوبھال کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا لیکن پھر بھی مودی نے اس حساس کام کے لیے ڈوبھال کا انتخاب کیا۔

لالڈینگا کو سمجھوتے کے لیے تیار کرنے میں ڈوبھال کا کردار

اس سے پہلے بھی ڈوبھال اپنے انٹیلی جنس بیورو کے دور میں کامیابی کے ساتھ بہت سارے آپریشن کر چکے ہیں۔ سکیورٹی کے امور پر لکھنے والے صحافی نکھیل گوکھلے کا کہنا ہے کہ سنہ 1986 میں میزورم معاہدے کا سہرا ڈوبھال کے سر جانا چاہیے۔

آئی بی کے ایک درمیانی سطح کے افسر کی حیثیت سے ڈوبھال نے زیرزمین میزو نیشنل فرنٹ میں جانے کا اپنا راستہ بنایا اور اس کے درجن بھر اعلی کمانڈروں کو اپنی طرف راغب کر لیا۔

اس کا نتیجے یہ ہوا کہ ایم این ایف کے رہنما لالڈینگا کو انڈیا کے ساتھ امن مذاکرات کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ڈوبھال لالڈینگا کی شراب نوشی کے ساتھی بن گئے اور ان کا اعتماد جیتنے میں پوری طرح کامیاب رہے۔

پروین ڈوتھیں نے اگست سنہ 2017 میں کاروان میگزین میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ’انڈر کور- اجیت ڈوبھال ان تھیوری اینڈ پریکٹس‘ میں لکھا کہ ’پاکستان میں اپنے کام کے دوران ڈوبھال کہوٹہ میں پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کے قریب حجام کی دکان سے پاکستانی سائنسدانوں کے بالوں کے نمونے لے آئے جس کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا آسان ہو گیا کہ کہوٹہ میں یورینیم کی کس قسم کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے۔‘

مودی اور بی جے پی سے قربت

کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی اور امت شاہ کے بعد اجیت ڈوبھال اس وقت انڈیا میں تیسرے طاقت ور شخص ہیں۔

انڈین انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ کے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈوبھال’انڈین خفیہ ایجنسیوں کے کمانڈ ڈھانچے کو نظرانداز کرتے ہوئے فیلڈ ایجنٹوں سے براہ راست رابطے میں رہتے ہیں۔‘

مودی سے ان کی قربت وزیر اعظم بننے سے بہت پہلے اس وقت شروع ہو چکی تھی جب ڈوبھال ویویکانند فاؤنڈیشن کے سربراہ تھے۔

سنہ 2014 میں جب بی جے پی برسر اقتدار آئی تو سابق سیکریٹری خارجہ کنول سبل، موجودہ وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر، سابق سفارتکار ہردیپ پوری اور اجیت ڈوبھال کے ناموں پر قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے کے لیے غور کیا گیا لیکن نریندر مودی نے ڈوبھال کے نام پر مہر لگائی۔

ان کی تقرری پر ششیر گپتا نے ہندوستان ٹائمز میں لکھا کہ ’سنگھ پریوار کو ڈوبھال پر اعتماد ہے۔ انٹیلیجنس بیورو سے سبکدوشی کے بعد انھوں نے پردے کے پیچھے رہ کر بی جے پی اور نریندر مودی کی بہت مدد کی ہے۔‘

اس وقت بی جے پی کے قریب رہنے والے سوامی ناتھن گرومورتی نے بھی ٹویٹ کیا تھا کہ ’ڈوبھال چھترپتی شیواجی اور بھگت سنگھ کا ہم عصر ورژن ہیں۔‘

لیکن سنہ 2014 میں جب ڈوبھال سے بی جے پی سے قربت کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا ’میں نہ تو کسی سیاسی جماعت کا ممبر ہوں اور نہ ہی کبھی رہا ہوں۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں کسی بھی حکومت میں کوئی عہدہ سنبھالوں گا۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی مخالف کانگریس کے دور میں اجیت ڈوبھال کو انٹیلیجنس بیورو کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی سے قریبی وابستگی کے باوجود قومی سلامتی کے نئے مشیر جے این دیکشیت کے ساتھ بھی ان کے تعلقات اچھے تھے۔

جے این دیکشیت کے بعد قومی سلامتی کے مشیر بننے والے ایم کے نارائنن کھلے عام کہتے تھے کہ ’جب بھی مجھے کسی معاملے میں نرم موقف اختیار کرنا پڑتا ہے تو میں امرجیت سنگھ دولت کو استعمال کرتا ہوں اور جب کبھی مجھے ڈنڈے سے کام کرنا پڑتا ہے تو میں ڈوبھال کو فون ملواتا ہوں۔‘

وائٹ ہاؤس میں مودی کی مدد

نریندر مودی اور اجیت ڈوبھال کے مابین قربت کی بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔ مثال کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد جب نریندر مودی پہلی بار امریکہ گئے تھے اور جب مودی وائٹ ہاؤس کے لان میں میڈیا کے سامنے اپنا بیان پڑھنے ہی والے تھے کہ تیز ہوا نے مودی کی تقریر کے کچھ صفحات اڑا دیے۔

72 سالہ ڈوبھال پہلی صف میں انڈیا کے سیکریٹری خارجہ اور امریکہ میں انڈین سفیر کے ساتھ بیٹھے تھے۔ وہ بھاگے اور اڑے ہوئے کاغذات جمع کیے، انھیں قرینے سے لگایا اور اپنے باس کے حوالے کر دیا۔ وہاں سے ہٹنے سے قبل انھوں نے مودی کے گلاس سے اڑنے والے ڈھکن کو بھی اس کے درست مقام پر رکھا۔

مودی نے وہ تقریر بغیر کسی رکاوٹ کے کر دی۔ وزیر اعظم کے ساتھ جانے والے زیادہ تر صحافیوں نے اس طرف توجہ نہیں دی لیکن ایک اخبار نے یہ سرخی ضوور لگائی کہ ’ہاؤ ڈوبھال ریسکیوڈ پی ایم مودی ان وائٹ ہاؤس‘ یعنی ڈوبھال نے مودی کو وائٹ ہاؤس میں کیسے بـچایا۔

ڈوبھال چین پر مودی کے خاص آدمی

عام خیال یہ ہے کہ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد انھیں اپنی تقریب حلف برداری میں جنوبی ایشیائی رہنماؤں کو مدعو کرنے کا مشورہ وزارت خارجہ کے کسی عہدیدار نے دیا ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مودی نے اجیت ڈوبھال کے مشورے پر ایسا کیا تھا۔

پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اس دعوت کو قبول کیا اور مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی اور اسے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی سمت ایک بڑا اقدام سمجھا گیا۔ چونکہ جے شنکر چین میں انڈیا کے سفیر رہے تھے اور ڈوبھال نے اپنے کیریئر کا بیشتر حصہ پاکستان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے مین گزارا تھا لہذا توقع کی جا رہی ہے کہ مودی چین کے متعلق جے شنکر کے مشورے کو پاکستان کے بارے میں ڈوبھال کے مشوروں کو ترجیح دیں گے۔ لیکن اس کے برعکس ہوا۔

مودی نے چین کے ساتھ سرحدی تنازعے پر ڈوبھال کو اپنا چیف مذاکرات کار مقرر کیا اور سفارتی حلقوں میں اس پر کہا گیا کہ ڈوبھال نے مودی سے خود یہ کردار مانگا ہے اور اگر خارجہ پالیسی کے مبصرین کی بات کو لیا جائے تو اس معاملے ڈوبھال نے وزیر اعظم کو مایوس نہیں کیا ہے۔

ڈوبھال کو ہمیشہ سے ایک ’آپریشن مین‘ سمجھا جاتا ہے۔ وہ چیزوں کو طویل مدتی نقطہ نظر سے دیکھنے کے عادی نہیں ہیں۔

ان کی حالیہ ذمہ داریوں کے لیے جس قسم کی سفارتی اور سیاسی فہم کی ضرورت ہے اس کی انھیں تربیت نہیں ہے اور نہ ہی اس شعبے میں ان کا کوئی سابقہ تجربہ ہے، لیکن اس کے باوجود انھوں نے اسے اپنی کمزوری نہیں بننے دیا اور چین کے ساتھ ان کی بات چیت کے نتائج اس کے گواہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp