ویسٹ انڈیز کی انگلینڈ پر فتح، سمیع چوہدری کا تجزیہ: بین سٹوکس کی احتیاط، خوف اور مایوسی


بین سٹوکس

بین سٹوکس کے چہرے پر پژمردگی چھائی تھی۔ ہوم سیزن کا پہلا ٹیسٹ ہارنا کوئی اچھا شگون نہیں ہوتا۔ آغاز اچھا نہ ہو تو انجام کے بارے بھی سیکڑوں وسوسے دل میں اٹھتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔

میچ کے بعد سٹوکس نے کہا کہ انھیں سٹوئرٹ براڈ کو ٹیم میں شامل نہ کرنے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہوا۔

عین ممکن ہے وہ درست کہہ رہے ہوں اور واقعی ان کی نظر میں ساؤتھمپٹن کی وکٹ پر براڈ کی جگہ بنتی نظر نہ آتی ہو۔

جب ہی انھوں نے مکمل پیس کے ہتھیاروں سے لبریز ہو کر میدان میں اترنے کو مناسب جانا۔ جوفرا آرچر کا ساتھ دینے کے لیے مارک ووڈ کی برق رفتاری کو درست گردانا اور پھر اینڈرسن تو تھے ہی جو ریورس سوئنگ کے کمال مشاق ہیں۔

سمیع چوہدری کے دیگر کالم

سلیم ملک کے آٹھ لاکھ اور پی سی بی کی ’کالی بھیڑیں‘

کیا ایسے ختم ہو گی عمر اکمل کی کہانی؟

کپتان جی! فکسر مافیا کو بھی لٹکائیں

کیا وسیم اکرم تاحیات پابندی کے ہی مستحق تھے؟

مگر سٹوکس کی کنفیوژن کا عالم یہ تھا کہ ٹاس جیت کر انھوں نے پہلے بیٹنگ کو ترجیح دے ڈالی۔ یا تو وہ اپنی بیٹنگ لائن پہ بھروسہ نہیں کر رہے تھے کہ کہیں روٹ کی عدم موجودگی میں چوتھی اننگز کا تعاقب گلے نہ پڑ جائے یا پھر وہ ویسٹ انڈین بیٹنگ سے ڈرے ہوئے تھے کہ پہلی اننگز میں ہی کوئی ایسا ٹوٹل نہ تشکیل دے ڈالے کہ میچ کا کوئی سرا ہی ان کے ہاتھ نہ لگ پائے۔

مگر سوچنے کی بات یہ تھی کہ اول تو یہ کوئی دبئی یا ابوظہبی کی وکٹ نہیں تھی جہاں چوتھی اننگز میں ڈیڑھ سو کا ہدف بھی پہاڑ بن جائے گا۔

دوم یہ کہ جہاں موسم کی پیشگوئی میں پہلے دو دن کا بیشتر کھیل بارش کے وقفوں سے متاثر ہونا تھا، وہاں ٹاس جیت کر پہلے آرچر کی برق رفتاری اور اینڈرسن کی کہنہ مشق سیمنگ صلاحیتوں کا فائدہ اٹھانے کا کیوں نہ سوچا؟

بین سٹوکس

ٹیسٹ کرکٹ کی تو ریت رہی ہے کہ جہاں موسم ذرا سا ابر آلود ہوا، کپتان کی پہلی خواہش یہی ہوتی ہے کہ ٹاس جیت کر مخالف بلے بازوں کو میدان میں اتارا جائے اور وکٹ میں نمی کا پورا پورا فائدہ اپنے بولرز کو دیا جائے

ٹیسٹ کرکٹ کی تو ریت رہی ہے کہ جہاں موسم ذرا سا ابر آلود ہوا، کپتان کی پہلی خواہش یہی ہوتی ہے کہ ٹاس جیت کر مخالف بلے بازوں کو میدان میں اتارا جائے اور وکٹ میں نمی کا پورا پورا فائدہ اپنے بولرز کو دیا جائے۔

سٹوکس اس میچ میں قائم مقام کپتان تھے لیکن اگر روٹ فٹ ہوتے اور ٹاس جیتتے تو کیا وہ بھی ان کنڈیشنز میں پہلے بیٹنگ کا فیصلہ ہی کرتے؟

ویسٹ انڈیز کسی طور سے بھی اس میچ کے لیے فیورٹ نہیں تھے۔ میچ سے بہت پہلے ہی ویسٹ انڈین ڈریسنگ روم بجائے خود بیٹنگ لائن کی بے اعتباری پر سوچ بچار کر رہا تھا اور اگر پہلی اننگز کی بیٹنگ ویسٹ انڈیز کو کرنے دی جاتی تو کیا خبر دو سو رنز بھی نہ بن پاتے اور ساری بساط ہی الٹ جاتی۔

لیکن ہولڈر کے بولنگ اٹیک نے خوب جان لگائی۔ گیبریئل، روچ اور جوزف نے انگلش بلے بازوں کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ ہولڈر بذاتِ خود اپنے کیریئر کی بہترین فارم میں دکھائی دیے اور پہلی اننگز میں ہی اب تک کی سب سے بڑی پرفارمنس بھی دے ڈالی۔

کوئی بھی ٹیم جب انگلش کنڈیشنز میں جاتی ہے تو سب سے بڑا امتحان بیٹنگ ہوتا ہے۔

ویسٹ انڈین بیٹنگ کی ناپائیداری گو میچ سے پہلے ہی عیاں تھی مگر بریتھویٹ نے کچھ ویسا کیا جو چار سال پہلے اوول میں یونس خان نے کیا تھا۔ وہ ہر گیند کو لیٹ کھیلے اور یوں انگلش سیمرز کی چالوں سے نمٹتے ہوئے آسانی سے بڑا سکور کر گئے۔

ہر ٹیسٹ میچ میں کوئی دو دن ایسے ہوتے ہیں جو بیٹنگ کے لیے نہایت سازگار ہوتے ہیں۔ یہاں ان دونوں ٹیموں کو ان میں سے ایک ایک دن میسر آیا۔ تیسرے روز ویسٹ انڈین بیٹنگ نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پہلی اننگز کی واضح برتری حاصل کی۔

جیسن ہولڈر

ویسٹ انڈیز کی یہ فتح ایک نہیں، کئی اعتبار سے تاریخی ہے۔ ایک تو کورونا کے بعد منعقد ہوئے پہلے ٹیسٹ میچ میں فتح ہی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے

چوتھے دن یہی موقع انگلش بلے بازوں کے ہاتھ آیا اور انھوں نے بھی اس کا خوب فائدہ اٹھایا۔

پہلی اننگز کی برتری بھی مٹا ڈالی اور سکوربورڈ بھی مثبت سمت میں گامزن تھا مگر شام کے سیشن میں اچانک کوئی بدحواسی اوسان پر طاری ہوئی اور وکٹوں کی ایسی جھڑی لگی کہ ایک بار پھر سارا میچ ویسٹ انڈیز کی جھولی میں آ گرا۔

انگلینڈ کو ڈوم بیس سے بہت توقعات تھیں اور اگر پہلے دو روز کی بارشوں کے بعد بھی موسم یوں متواتر ابر آلود نہ رہتا تو شاید وکٹ میں کچھ ایسی ٹوٹ پھوٹ ہو جاتی جو بیس کا جادو جگا دیتی مگر ایسا ہو نہ پایا اور جرمین بلیک ووڈ کو اپنے ناقدین کے لیے بہترین سا جواب دینے کا موقع مل گیا۔

بلیک ووڈ بھلے سینچری نہ کر سکے مگر ان کی اننگز نے ٹیم کے لیے وہ کر دیا جو کسی بھی انفرادی سنگِ میل سے کہیں بڑا ہے۔

ویسٹ انڈیز کی یہ فتح ایک نہیں، کئی اعتبار سے تاریخی ہے۔ ایک تو کورونا کے بعد منعقد ہوئے پہلے ٹیسٹ میچ میں فتح ہی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔

پھر یہ کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے لیے یہی بہت بڑی بات ہے کہ انگلینڈ کو اس کے گھر میں ایسی مہارت سے ہرا ڈالا۔ اور پھر سب سے بڑی بات کہ یہ میچ ’بلیک لائیوز میٹر‘ (سیاہ فام زندگیاں بھی اہم ہیں) کے خیال کے تحت منعقد ہوا۔

ویسٹ انڈیز کی فتح گویا اس میچ کے نتیجے کے گرد سنہرے حاشیے کا کام دے رہی ہے جہاں بات تشہیری اور زبانی مہم سے بڑھ کر گویا عملی طور پر میدان میں ثابت کی جا چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32539 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp