کتنے بچے پیدا کریں؟


ضروری نہیں ہے کہ ہر شادی شدہ جوڑا بچے پیدا کرے۔ بچے صرف اور صرف ان لوگوں کو پیدا کرنے چاہئیں جو ذہنی اور جسمانی طور پر صحتمند ہوں۔ بہت سے لوگ جو ذہنی یا جسمانی طور پر بیمار ہوتے ہیں وہ بچے پیدا صرف اس لیے کرتے ہیں کہ ان کی نسل بڑھ سکے۔ یار ایک بات بتاؤ آپ نسل کیوں بڑھانا چاہتے ہیں؟ اس لیے کہ آپ کا نام زندہ رہے؟ اپنے دادا کے ابا کا نام تو بتائیں۔ اکثریت کو نہیں آتا ہوگا۔ تو کیا آپ کے آنے سے ان کا نام زندہ رہا؟

نہیں نام ایسے زندہ نہیں رکھے جاتے۔ نام زندہ رکھنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے آپ کا کام آپ کی سوچ کا بیج جو آپ نے بویا ہوتا ہے وہ آپ کو زندہ رکھتا ہے۔ غالب کو آپ جانتے ہیں؟ اس کے تو سارے بچے مر گئے تھے پر نام اس کا زندہ ہے۔ سقراط ارسطو کیا ان کا نام ان کی اولاد نے زندہ رکھا؟ نہیں ان کی سوچ نے رکھا۔ ایم اے نفسیات، تاریخ، فلسفہ اور پولیٹیکل سائنس تب تک مکمل نہیں ہوتے جب تک ان کا ذکر نہ کیا جائے۔ انسان مر جاتا ہے پر اس کی سوچ زندہ رہتی ہے۔

وہ لوگ جنہیں بچوں سے بہت انسیت ہے وہ سویٹ ہوم شیلٹر ہوم جیسے اداروں کا چکر لگائیں، دوسروں کا سہارا بنیں اور انہیں اپنا سہارا بنائیں۔ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اپنا خون اپنا ہی ہوتا ہے۔ تو وہ جو باپ اپنے بیٹے کو مار دیتا ہے، وہ جو بیٹا اپنی ماں کو مار دیتا ہے اور وہ جو بھائی اپنی بہن کو مار دیتا ہے۔ کیا ان کے درمیان خون کا رشتہ نہیں ہوتا؟ میرے نزدیک تعلق صرف احساس کی بنا پر قائم ہوتا ہے۔ خون شون کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔

جو لوگ بغیر کسی فیوچر پلاننگ کے بچوں کی لائن لگا رہے ہیں کل کو ان کے اپنے بچے ان کا گریبان پکڑ کر پوچھیں کہ ہمیں کیوں پیدا کیا؟ اس کے بعد جو چیز سب سے معیوب سمجھی جاتی ہے وہ لڑکی کا شادی سے پہلے جنسیات پہ بات کرنا۔ یعنی اس موضوع پر بات کرنے کہ لیے لڑکی کا شادی شدہ ہونا لازم ہے۔ اگر وہ شادی سے پہلے اس موضوع پہ بات کرے تو وہ بے حیا اور بے شرم گردانی جاتی ہے۔ میں پوچھتا ہوں جب بارہ سے پندرہ سال کی لڑکی کی زبردستی شادی کر دی جاتی ہے اور جاتے ہی اسے بچے پیدا کرنے پہ لگا دیا جاتا ہے کیا یہ بے شرمی اور بے حیائی نہیں ہے؟ ایک ناسمجھ بچی جس کے ابھی اپنے کھیلنے کہ دن ہوتے اس کی گود میں بچہ ڈال دیا جاتا ہے۔

سیکس ایجوکیشن اور پاپولیشن ایجوکیشن بہت ضروری ہے۔ میٹرک سے بی اے تک ان موضوعات کو نصاب میں شامل کرنا چاہیے کیونکہ انہیں سالوں میں زیادہ تر لڑکیوں کی شادی ہوجاتی ہے۔ انہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ کوئی بھی ان کی مرضی اور خوشی کے بغیر زبردستی ان سے اپنی خواہش پوری نہیں کر سکتا چاہے وہ اس کا شوہر ہی کیوں نا ہو یہ جبری زنا کے زمرے میں ہی آتا ہے۔

انہیں شعور ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرسکیں۔ وہ خود یہ فیصلہ کرسکیں کہ انہیں بچے چاہئیں بھی یا نہیں اور بچوں کی تعداد کا بھی وہ خود فیصلہ کریں۔ بے شمار لوگ صرف ایک لیے بھی بچوں کی لائن لگا دیتے ہیں کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا نہیں ہو رہا انہیں نسل بڑھانے کا خاصہ شوق ہوتا ہے۔ اور وہ نسل کیوں بڑھانا چاہتے ہیں اس بات کا انہیں خود بھی علم نہیں ہوتا۔ کیونکہ شادی ہو گئی ہے تو اب بس بچے پیدا کرنا فرض ہو گیا ہے۔ بس ایک رواج بنا ہوا ہے اسے اندھے گونگے بہروں کی طرح فالو کرتے جانا ہے نہ سوچنا ہے نہ سمجھنا ہے۔

بہت سے لوگ زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترویج کر رہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر بچہ اپنا رزق ساتھ کر آتا ہے اس لیے جتنے مرضی بچے پیدا کریں۔ یار بچہ اپنا رزق ساتھ لاتا ہوگا پر وہ محفوظ ماحول، صاف پانی، سکول کی فیس، دوا اور ہر موسم کے کپڑے ساتھ نہیں لاتا۔

اگر آپ معاشی طور پر مستحکم بھی ہیں تو پھر بھی بچوں کی لائن مت لگائیں۔ آپ تمام بچوں کو برابر پیار، وقت اور توجہ نہیں دے سکتے۔ اس لیے بچے اتنے ہی پیدا کریں جتنوں کی آپ اچھے سے تربیت کر پائیں، معیاری تعلیم دلوا سکیں، صحت و صفائی کا خیال رکھ سکیں۔

فرقان علی فریاد
Latest posts by فرقان علی فریاد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments