سول ایوی ایشن اتھارٹی کا سپریم کورٹ میں جواب: ’مشکوک لائسنس والے پائلٹس نے امتحانات کے کمپیوٹرائزڈ نظام تک غیر مستند طریقے سے رسائی حاصل کی‘


پی آئی اے

پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ’مشکوک‘ لائسنسز کے حامل درجنوں پائلٹس نے مبینہ طور پر سول ایوی ایشن اتھارٹی کے امتحانات کے کمپیوٹرائزڈ نظام تک ’بلا اجازت‘ اور ’غیر مستند‘ طریقے سے رسائی حاصل کی تھی۔

پاکستان میں پائلٹس کے مشکوک لائسنسز کے معاملے میں سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا جس کے جواب میں سی اے اے نے یہ جواب سپریم کورٹ میں جمع کروایا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کروائے گئے ایک تحریری جواب میں سول ایوی ایشن اتھارٹی نے یہ واضح کیا ہے کہ معاملہ دراصل سول ایوی ایشن کے امتحانات کے نظام میں مبینہ طور پر دخل اندازی کا بھی ہے۔

اس تحریری جواب میں، جو بی بی سی کے پاس دستیاب ہے، کہا گیا ہے کہ ’مشکوک‘ لائسنس کے حامل پائلٹس نے مبینہ طور پر سی اے اے کے امتحانی نظام تک ایک مختلف آئی پی ایڈریس کے ذریعے رسائی حاصل کی اور مبینہ طور پر امتحانات کے سسٹم تک پہنچنے کے لیے کیسے مختلف ’یوزر نیم‘ اور ’پاس ورڈ‘ بنا کر استعمال کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں پائلٹس کے ’جعلی لائسنس‘: حکومتی دعوے کی حقیقت کیا ہے؟

یورپی یونین ائیر سیفٹی ایجنسی کے پی آئی اے پر کیا اعتراضات ہیں؟

پی آئی اے: امریکہ تک براہ راست پروازیں چلانے کی خصوصی اجازت بھی منسوخ

تحریری جواب میں لکھا ہے کہ 262 مشکوک لائسنس کے حامل پائلٹس پر پانچ بنیادی الزامات ہیں:

  • پائلٹس نے اُس دن پرچے نہیں دیے جس دن یہ پرچے ہونے تھے
  • پائلٹس نے اس وقت پرچے نہیں دیے جو وقت ان پرچوں کو دینے کے لیے متعین تھا
  • سول ایوی ایشن کے سرور تک ایک مختلف آئی پی ایڈریس سے رسائی حاصل کی گئی
  • سول ایوی ایشن کے نظام تک مختلف ’یوزر نیم‘ اور ’پاس ورڈ‘ کے ذریعے رسائی حاصل کی گئی جس کے وہ مجاز نہیں تھے
  • پائلٹس کی لاگ بکس ظاہر کرتی ہیں کہ جس دن انھوں نے پرچہ دیا اس روز وہ پروازیں بھی چلا رہے تھے
پی آئی اے

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کے ایک سینیئر اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے تحریری جواب میں ’درحقیقت سول ایوی ایشن کی جانب سے یہ اقرار کیا گیا ہے کہ ان کا امتحانات کا کمپیوٹرائزڈ نظام اس قدر کمزور تھا کہ کوئی بھی اس میں باآسانی مداخلت کر سکتا تھا۔‘

سی اے اے کا کہنا ہے کہ اب وہ نادرا کے ذریعے خودکار بائیومیٹرک شناخت کے نظام سے منسلک ایک نظام بنانا چاہتے ہیں جس کی مدد سے مستقبل میں امتحانات کے کمپیوٹرائزاڈ نظام میں مداخلت کے امکانات کو کم کیا جا سکے گا۔

سپریم کورٹ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے سنہ 2018 اور 2019 میں ایسے اقدامات کیے ہیں جن کی مدد سے اس کے نظام کے تحفظ کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔

ان اقدامات میں آئی پی نیٹ ورک سیگریگیشن بھی شامل ہے جس کے تحت پرسنل لائسنسنگ کے نظام کو سول ایوی ایشن کے کیمپس ایریا نیٹ ورک سے الگ کر دیا گیا ہے تاکہ امتحانات اور لائسنسنگ کے نظام میں بغیر اجازت کسی قسم کی بھی مداخلت کی روک تھام ہو سکے اور اب صرف ایسے چند کمپیوٹرز کو سول ایوی ایشن کے امتحانی مرکز کے ہال میں واقع امتحانات کے ایپلیکشن سرور تک رسائی حاصل ہے۔

سی اے اے کے مطابق ’آپریٹنگ سسٹم آف سرور‘ پر سکیورٹی فائر وال لگائی گئی ہے جس کے تحت اب صرف وہ افراد امتحانات کے سرور تک رسائی حاصل کر سکیں گے جن کے پاس مطلوبہ اجازت ہو گی اور باقی تمام رابطوں کو بلاک کیا جائے گا یا ان کی تصدیق کی جائے گی۔

تحریر جواب میں کہا گیا ہے کہ نئے اقدامات کے تحت دفاتر کے سرکاری اوقات کار کے بعد تمام اپلیکشن سرور بند رہیں گے اور ان تک رسائی ممکن نہیں ہو گی اور امتحانات صرف دفتری اوقات میں ہو رہے ہیں۔

اسے کے علاوہ چند دیگر اقدامات کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔

پی آئی اے

پائلٹس کا فلائٹ کے دن پرچے دینے پر مؤقف

پاکستان ایئرلائن پائلٹس ایسوسی ایشن کے ایک نمائندے کا دعویٰ ہے کہ ’اس پورے معاملے میں پاکستان سٹینڈرڈ ٹائم اور گرینچ مین ٹائم (جی ایم ٹی) جیسی بنیادی اکائی کی لاعلمی واضح ہے۔

’یہ فہرستیں بنانے والوں نے پاکستان کے معیاری وقت اور ہوابازی کی دنیا میں رائج معیاری وقت کو یعنی یونیورسل سٹینڈرڈ ٹائم جسے یو ٹی سی بھی کہتے ہیں، خلط ملط کر دیا ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’امتحانات پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق ہوتے ہیں اور بعض پائلٹس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ وہ ایک ٹائم زون کے وقت کے مطابق پرچہ دے کر پرواز پر دوسرے ٹائم زون کے مطابق کیسے جا سکتے ہیں۔‘

دوسری جانب ایک پائلٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’میرے تین پرچوں پر اعتراض ہے اور اگر اعتراض کرنے سے پہلے پی آئی اے ہی کے فلائٹ آپریشن سے بات کر لی جاتی تو معاملہ سمجھ میں آ جاتا مگر چونکہ فہرستیں بنانے والوں کی نیت ٹھیک نہیں تھی اس لیے انھوں نے اتنی بڑی بڑی حماقتیں کی ہیں جو ان کے ہی نظام کو مشکوک بنا دیتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہوابازی کے شعبے میں دیے جانے والے پیپرز کو آپ نے اپنے وقت اور سہولت کے مطابق کرنا ہوتا ہے کیونکہ ان کے مطابق عموماً ایئرلائنز آپ کو پیپر دینے کے لیے وقت یا مواقع فراہم نہیں کرتیں۔

’ایسا بہت مرتبہ ہوا ہے کہ پائلٹس نے صبح پرچے دیے اور شام کی پرواز چلائی۔ کئی پائلٹس تو تیار ہو کر ہوٹل سے چیک آؤٹ کر کے ایئرپورٹ پہنچتے تھے، پرچہ دیتے اور اس کے بعد فلائٹ لے کر چلے جاتے۔ پرچے والے دن فلائٹ آپریٹ کرنے کا الزام اور اس کی بنیاد پر مشکوک قرار دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ایک مہینے کی 14 تاریخ کو کراچی میں انھوں نے ایک پیپر دیا، پرچہ دو گھنٹے میں مکمل کر کے وہ فارغ ہوئے اور اس کے چار گھنٹے بعد وہ پرواز لے کر کراچی سے اسلام آباد پہنچے۔ وہاں سے انھوں نے لاہور کی پرواز لی اور لاہور سے رات کی کراچی کی پرواز لے کر کراچی واپس پہنچے۔

ان کے مطابق 15 تاریخ کو کراچی پہنچنے کے سات گھنٹے بعد انھوں نے اپنا دوسرا پرچہ دیا اور گھر چلے گئے۔

اس کے بعد اگلے دن یعنی 16 تاریخ کو انھوں نے دو گھنٹے 42 منٹ میں اپنا تیسرا پرچہ مکمل کیا اور اس کے چار گھنٹے کے بعد پرواز لے کر کراچی سے اسلام آباد روانہ ہوئے اور اسلام آباد سے اگلی پرواز لے کر شام کو واپس کراچی پہنچے۔

پی آئی اے

انھوں نے کہا کہ ’میں نے پرچوں کی تیاری کی تھی اور اپنی فلائٹس کا شیڈول اس حساب سے درخواست دے کر بنوایا تھا کہ میں پرچے دے سکوں اور پھر فلائٹس پر جا سکوں۔‘

انھوں نے سوال کیا کہ ’اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ میں نے پرچے نہیں دیے؟ کیا کسی نے سی سی ٹی وی نہیں چیک کیا؟‘

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کرتے ہوئے چند پائلٹس کا کہنا تھا کہ انھیں شوکاز نوٹس دینے سے پہلے اور ان کا موقف سنے بغیر مجرم بنا دیا گیا ہے اور اس بات کا تذکرہ سی اے اے کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب سے بھی ظاہر ہے۔

دوسری جانب سول ایوی ایشن حکام نے اعتراف کیا ہے کہ ایوی ایشن ڈویژن کے بنائے گئے بورڈ آف انویسٹیگیشن نے فرانزک آڈٹ کے دوران ان 262 پائلٹس کو اس بارے میں ان ثبوتوں کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا۔ لیکن معطلی کے احکامات میں ہی ان پائلٹس کو اب اپیل کرنے کا حق دیا جا رہا ہے۔

لائسنسنگ کے معیار

تحریری جواب میں سپریم کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ کمرشل پائلٹ لائسنس کے لیے عمر کی شرط 18 برس ہے، تعلیم ہائر سیکنڈری سکول، ایف اے، ایف ایس سی یا اس کے برابر ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ سٹوڈنٹ پائلٹ لائسنس، پرائیویٹ پائلٹ لائسنس PPL ہونا لازمی ہے۔ جس کے ساتھ دو سو پروازوں کے گھنٹے اور تین گھنٹے مہارت کا ٹیسٹ لازمی ہے۔

ایئر ٹرانسپورٹ پائلٹ لائسنس حاصل کرنے کے لیے عمر کی شرط اکیس برس ہے۔ تعلیم ہائیر سیکنڈری سکول، ایف اے، ایف ایس سی یا اس کے برابر۔ اس کے ساتھ پرائیویٹ پائلٹ لائسنس PPL یا کمرشل پائلٹ لائسنس CPL ہونا لازمی ہے۔ جس کے ساتھ 1500 سو پروازوں کے گھنٹے اور چار گھنٹے مہارت کا ٹیسٹ ہونا لازمی ہے۔

ان امتحانات میں کامیابی کے لیے پائلٹس کو جن آٹھ پرچوں کو پاس کرنا ہوتا ہے ان میں ایئرکرافٹ جنرل نالج یا طیارے کے بارے میں معلومات اور پرواز کے اصول، ایئر لا، ایئر ٹریفک کنٹرول پروسیجر اور آپریشنل پروسیجر، موسمیات اور فلائٹ پلاننگ، پرفارمنس، انسانی پرفارمنس اور طرز عمل، ماس اینڈ بیلینس اینڈ جنرل نیوی گیشن، ریڈیو نیوی گیشن اور انسٹرومینٹیشن، انسٹرومینٹ پروسیجرز، وی ایف آر یعنی ویژول فلائٹ رولز اور آئی ایف آر یعنی انسٹرومینٹ فلائٹ رولز کمیونیکیشن شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp