بی جے پی کے ترجمان سمبِت پاترا کی جانب سے ٹویٹ کی گئی تصاویر اور اردو زبان کے استعمال پر بحث


بی جے پی کے ترجمان سمبِت پاترا نے ٹوئٹر پر دو ایسی تصاویر شیئر کیں جنہوں نے انڈیا میں اردو زبان کے استعمال کے بارے میں ایک بحث شروع کردی ہے۔

جو تصاویر شیئر کی گئیں وہ انڈین ریاست اتراکھنڈ کا شہر دہرہ دُون کے ریلوے سٹیشن کی پرانی تصاویر تھیں اور یہ تصاویر ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ اردو کے ٹرینڈ کی وجہ بنیں۔

https://twitter.com/sambitswaraj/status/1282491742810341377?s=20

سمبِت پاترا نے دہرہ دُون کے ایک سائن بورڈ کی پرانی تصویر شیئر کی جس پر ہندی، انگریزی اور اردو میں دہرہ دُون لکھا تھا۔ اس تصویر کے ساتھ انہوں نے اُس ہی سائن بورڈ کی ایک اور تصویر شیئر کی جس میں سائن بورڈ سے اردو میں جگہ کا نام ہٹا کر سنسکرت میں لکھ دیا گیا تھا۔ ان تصاویر کے ساتھ اپنے پیغام میں انہوں نے بس اتنا لکھا ’سنسکرت‘۔

https://twitter.com/NehaTheTweeter/status/1282492590927933440?s=20

نیھا سالوجا نے سمبت پاترا کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’اردو ترجمہ کیوں ہٹایا گیا ہے؟ سنسکرت کو اردو کے ہٹائے بغیر بھی شامل کیا جا سکتا تھا۔ بی جے پی ہر معاملے میں گھٹیا سیاست کیوں کرتی ہے۔ ‘

سورو نامی صارف کا کہنا تھا کہ بہت خوب۔۔ اردو انڈین زبان نہیں ہے۔۔ بلکہ اسے ترک یہاں لائے تھے جنہیں ہم مغل کہتے ہیں۔ سنسکرت ہماری ثقافت ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے۔ حکومت کا اچھا قدم ہے۔۔۔‘

یہ بھی پڑھیے

اردو زبان میں حلف، مذہبی جذبات مجروح کرنے کا مقدمہ

’اردو کے نام پر یہ داغ کون لگا رہا ہے؟‘

‘اردو میں سوائے محبت کے کچھ نہیں’

ایک اور ٹوئٹر صارف کو یہ منطق سمجھ میں نہیں آئی اور انہوں نے سوال پوچھا کہ ’انڈیا میں انگریزی کہاں سے آئی؟‘

’اردو نہیں ہٹائی ہے اور نہ ہی آنے والے دنوں میں ایسا ہوگا‘

مگر یہ کہانی اتنی سیدھی نہیں ہے۔ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے دلی سے صحافی اور دی وائر اردو کے سابق ایڈیٹر مہتاب عالم نے بتایا کہ دراصل سائن بورڈ میں یہ تبدیلی سال کے اوائل میں ہوئی تھی۔

مہتاب عالم نے مزید یہ بتایا کہ اس تبدیلی کے بارے میں خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے انڈین ریلوے نے وضاحت دی تھی کہ انڈین ریلوے نے اتراکھنڈ کے کسی بھی سٹیشن کے سائن بورڈ سے اردو نہیں ہٹائی ہے اور نہ ہی آنے والے دنوں میں ایسا ہوگا۔ انڈین ریلوے کے نوٹیفیکشن کے مطابق سنسکرت کا استعمال دیگر زبانوں کے ساتھ کیا جا سکتا ہے مگر اردو کو بدل کر اس کا استعمال نہیں ہوگا۔

مقامی اخبار ہندوستان ٹائمز کی جانب سے سال کے شروع میں اس خبر کے آنے پر رپورٹ میں انڈین ریلوے کی ایک اہلکار کے حوالے سے یہ بیان شائع کیا گیا تھا کہ ’سٹیشن کے نام والے سائن بورڈ سے اردو اُس وقت ہٹائی گئی تھی جب دہرہ دُون کے ریلوے سٹیشن میں مرمت کا کام ہو رہا تھا۔ یہ تبدیلی سٹیشن کی مرمت کرنے والی کمپنی نے کی تھی اور یہ بات سامنے آنے پر اس سائن بورڈ کو ہٹا دیا گیا تھا۔‘

سائن بورڈ پر زبان کے بارے میں مہتاب عالم نے بتایا کہ ایسی تبدیلی دراصل کسی بھی علاقے کی آبادی میں زبان کے استعمال کے مطابق ہوتی ہے تاکہ وہاں بسنے والے افراد کے لیے سائن بورڈ پڑھنا آسان ہو۔ مہتاب عالم کہتے ہیں کہ اس ریاست میں ایک بڑی تعداد میں لوگ اردو بولتے ہیں اور ’حالیہ مردم شماری کے مطابق حقیقت بھی یہی ہے۔‘

سمبت پاترا کی جانب سے دہرہ دُون ریلوے سٹیشن کی تصاویر شیئر کرنے کے بارے میں انڈین ویب سائٹ آلٹ نیوز کا کہنا تھا کہ ’بی جے پی کے ترجمان نے پرانی تصاویر شیئر کیں جن میں نام اردو سے بدل کر سنسکرت میں لکھا گیا لیکن اس بات کو واضح نہیں کیا گیا کہ کچھ ہی عرصے بعد سائن بورڈ کو واپس اردو میں کر دیا گیا تھا۔‘

https://twitter.com/iAnkurSingh/status/1282575273095921664?s=20

ٹوئٹر صارف انکُر سنگھ نے دہرہ دُون سٹیشن کی کچھ تصویریں شیئر کیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ یہ پیر کی ہیں اور جن میں سٹیشن کا نام سائن بورڈ پر اردو ہی میں درج تھا۔ انھوں نے ساتھ اپنے پیغام میں لکھا کہ ’براہ مہربانی نوٹ کر لیں کہ پالیسی کے مطابق سٹیشن پر لگے بورڈ پر زبان میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ یہ آج کی تصاویر ہیں۔‘

گو کہ سمبت پاترا نے اپنی ٹویٹ میں صرتصاویر کے ساتھ صرف ’سنسکرت‘ ہی لکھا تھا اور یہ کہیں نہیں کہا کہ یہ تبدیلی ابھی ہوئی ہے یا کونسی تصویر پرانی ہے اور کونسی نئی، مگر اُن کے پیغام سے سوشل میڈیا صارفین نے یہ سمجھ لیا کہ اردو ہٹا کر سنسکرت کا استعمال کیا گیا ہے۔

https://twitter.com/Ishq_Urdu/status/1282556469389307904?s=20

اسی بارے میں انڈیا میں اردو زبان کو فروغ دینے کے لیے متحرک سوشل میڈیا اکاؤنٹ ’عشق اردو‘ کے ٹوئٹر ہینڈل نے بظاہر مردم شماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سمبِت پاترا کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا اور لکھا کہ ’اترا کھنڈ میں سنسکرت بولنے والوں کی تعداد 386 ہے اردو بولنے والوں کی تعداد 425752 ۔ اردو سے نفرت کرنے والی سرزمین میں خوش آمدید۔‘

اس ٹویٹ کا مقصد جو بھی ہو اس نے ایک بحث کو جنم دیا اور انڈیا میں اردو کے چاہنے والوں اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے خیالات کا اظہار کیا۔

ان خیالات کے بارے میں مہتاب عالم کہتے ہیں کہ ’دراصل اردو کی مخالفت کرنے والے طبقے میں لوگوں کو زبان سے زیادہ اس کے رسم الخط سے مسئلہ ہے۔ کیونکہ ملک میں اردو کا استعمال کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے اس لیے اس رسم الخط کو مسلمانوں سے جوڑا جاتا ہے اور اس لیے ملک میں ایک طبقہ انڈیا میں اس کے استعمال کو پیچھے دھکیلنے اور اس زبان کو نیچا دکھانا چاہتا ہے۔ مگر معاشرے اور ثقافت پر ایک نظر ڈالیں تو اردو ہر طرف ہے۔ فلمی گانوں اور ڈائیلاگ سے لے کر عام گفتگو میں بھی اردو کے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے اور اسے ایک شیریں زبان کہا جاتا ہے۔‘

مہتاب عالم نے بتایا کہ ’سائن بورڈ میں زبان کی تبدیلی تو پرانا معاملہ ہے مگر بی جے پی کے ترجمان نے یہ ٹویٹ کی تو یہ سب کی توجہ کا مرکز بنی لیکن جس چیز کے بارے میں زیادہ بات نہیں ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ جموں کشمیر کی ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل جمع کرائی گئی ہے کہ جموں کی سرکاری زبان کو تبدیل کرکے ہندی کر دیا جائے۔ پہلے جب یہ ریاست تھی تو وہاں کی سرکاری زبان اردو تھی۔ دراصل یہ جو ردعمل سامنے آرہا ہے ان سب ڈیولپمنٹس کو مجموعی طور پر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ یہ ایک باقاعدہ مہم ہے کہ اردو کو پیچھے کی طرف دھکیل دیا جائے۔‘

https://twitter.com/Sathyakris26/status/1282517124397715456?s=20

ایک اور صارف نے جن کا تعلق بظاہر جنوبی انڈیا سے ہے لکھتے ہیں کہ ’اگر شمال میں رہنے والوں کے لیے اردو ایک غیر ملکی زبان ہے تو ہمارے لیے ہندی بھی ایسی ہی ہے۔ ہم تمل اور انگریزی سے خوش ہیں۔ ایک ایسی زبان کی ضرورت نہیں جو مرکز بار بار ہم پر لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

https://twitter.com/ElShabazzz/status/1282518460594106370?s=20

الشباز نامی صارف نے سمبت پاترا کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اردو ختم کی ہے لیکن ٹویٹ انگریزی میں کر رہے ہیں۔‘

مہتاب عالم اردو زبان سے جڑی ایسی ہی خبروں کی کچھ اور کڑیاں ملاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اردو انڈیا کی متعدد ریاستوں میں دوسری بڑی زبان ہے۔ کچھ عرصہ پہلے دلی ہائی کورٹ میں ایک کیس سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ جو ایف آئی آر لکھی جاتی ہیں اُن میں اردو الفاظ کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔‘

https://twitter.com/onlyonenetra/status/1282520191977631750?s=20

اس سوچ کی عکاسی متعدد صارفین کی طرف سے کی گئی اور ایک نے لکھا کہ ’ہمیں کوئی بھی نام اردو میں لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ ریلوے کی طرف سے مثبت قدم ہے۔ وقت آگیا ہے کہ دیووانی سنسکرت کو ترویج دی جائے۔‘

گو کہ بی جے پے کے ترجمان نے جو تصاویر شیئر کیں اُن میں بظاہر مسلمانوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھا مگر پچھلے کچھ عرصے سے انتہائی دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے افراد اردو زبان اور انڈیا کی تاریخ سے جڑے ایسے پہلو جن کا تعلق مسلمانوں کے دور سے ہے، اُسے انڈیا سے ختم کر دینے کے بارے میں مہم چلا رہے ہیں۔

اس کی ایک مثال انڈیا کے تاریخی شہر الہ آباد کے نام کی تبدیلی بھی ہے۔ اتر پردیش ریاست کے اس شہر کا نام تبدیل کر کے پریاگ راج رکھا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp