انیتا نائر : اسلام کو سمجھنے اور بتانے کی ضرورت ہے


ہندوستانی ادب دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ چھ برسوں میں ہندوستان بدل گیا۔ فسطائیت کا عروج ہوا۔ بی جے پی کا آئی ٹی سیل مسلم مخالفت میں تمام حدود سے تجاوز کر گیا؟ حضرت محمد کے خلاف بولنے والے بھی بی جے پی سے واہ واہیاں لوٹتے نظر آئے۔ زی نیوز جیسے ٹی وی چینلز باضابطہ اسلام مخالفت میں سامنے آ چکے ہیں۔ پاکستانی بھگوڑے کو بلا کر قرآن شریف، حدیث کی حرمت پامال کی جا رہی ہے۔ چند نا سمجھ مولوی شکار ہوتے ہیں۔ اور اس کے اثرات پوری قوم پر ہوتے ہیں۔

لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ راستہ کیا ہے؟ موجودہ اسلام مخالف فضا میں ایسے کون سے راستے ہیں جو ہم استعمال کر سکتے ہیں؟ ایک راستہ کیرل ساہتیہ اکادمی یافتہ ناول نگار انیتا نائر کے پاس ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جب تک انیتا نائر جیسے لوگ ہمارے پاس ہیں، کوئی بھی شر پسند، اپنی سازش میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہاں قرآن پاک سے ایک پر نور دنیا آباد ہے۔ ، اسلام کی روشن خیالی کے قصے، ایک اونٹ اور نبی کی پسندیدہ بلی کی یادیں۔ تعلیم کا ذکر۔ نوح کے کشتی کے بارے میں۔ خدا زندگی میں سانس لے رہا ہے پہلے مرد اور عورت میں، ابلیس اور فرشتہ کے بارے میں۔ خدا کے ننانوے نام، طاقتور بادشاہ سلیمان اور بہت کچھ۔ میزا اور بیبی جان اس خوبصورت اور پر لطف کہانی کا حصہ بن جاتے ہیں۔

انیتا نائر کا تازہ بیان ہے کہ اسلام خطرناک مذہب نہیں ہے، لوگوں کو چاہے کہ ایک دنیا کے سامنے قرآن شریف کی کہانیاں پیش کریں۔ مییزہ اور بابی جان انیتا کی نئی کتاب ہے۔ کتاب کے اجرا کے موقعے پر انیتا نے کہا، کہ امن پسند مذہب اسلام کے بارے میں بچوں کو بتانے کی ضرورت ہے۔ ایک غلط اور نا جایز فکر جو لوگوں کے دل و دماغ پر مسلط کر دی گی ہے، اسے آئینہ دکھانے کا کام یہ آسمانی کتاب ہی کر سکتی ہے۔ بیٹرمین، لیڈیز کوپ، ادریس اور نجمہ جیسی کتابوں کی مصنف نے اب یہ نئی کتاب لکھ کر، غور و فکر کے نیے باب کو کھولنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔

قرآن شریف پر ریسرچ کرتے ہوئے انیتا نے ایک کتاب لکھی۔ ادریس، کیپر اف دی لائٹ۔ ادریس، انیتا نائر کا ایک خوبصورت اور تاریخی ناول ہے۔ سال 1659، صومالیہ کے ایک تاجر ادریس میمنم کی تقریبات میں شرکت کے لئے کیرالا جاتے ہیں۔ قسمت انھیں ایک عجیب موڑ پر لے آتی ہے۔ یہاں ان کی ملاقات اپنے نو سالہ بیٹے سے ہوتی ہے، جس کے وجود سے وہ لاعلم تھے۔ اپنے بیٹے کو اپنے قریب رکھنے کی کوشش میں، وہ اس کے ساتھ سفر پرچلے جاتے ہیں۔

سفر جو گولکنڈہ کی ہیرا کی کانوں میں ختم ہوتا ہے۔ سترہویں صدی کا جنوبی ہندوستان اور زندگی کا جنون، جرات اور دلکش پہلوؤں کو سامنے لانے والا ناول۔ سترہویں صدی کی زندگی کے بارے میں مہم جوئی اور دلچسپ بصیرتوں سے بھرا ہوا ناول قدم قدم پر آپ کو حیران بھی کرتا ہے۔ انیتا خوب لکھتی ہیں۔ ان کے بیشمار کردار مسلمان ہیں۔ مسلمانوں سے ان کو ذاتی طور پر دلچسپی ہے۔

ہمیں اس وقت تک بیمار اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے جب تک ہمارے درمیان ارون دھتی رائے اور انیتا نائر جیسے لوگ موجود ہیں۔ حقیقت کا سامنا کریں تو ہمارا مقدمہ یہ لوگ لڑ رہے ہیں۔ ایک دنیا مسلمانوں کے خلاف ہو رہی ہے۔ ٹرمپ نے اقتدار سمبھالتے ہی مسلمانوں کے خلاف فیصلے لینے شروع کر دیے، ان فیصلوں کا جواب اب وہاں کی میڈیا دے رہی ہے۔ ۔ مسلم ممالک خاموش ہی رہے۔ ویسے بھی امریکی سڑکوں پر مخالفت کا بازار گرم ہے۔

مخالفت کی یہ آگ امریکا سے برطانیہ تک پھچ چکی ہے۔ یہ امریکا میں رہنے والے عوام کا فرمان ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا بھی کھل کر ٹرمپ کی مخالفت میں سامنے ہے۔ اس لیے ٹریمپ کو ناراض ہو کر کہنا پڑا کہ وہ امریکن میڈیا کو تسلیم نہیں کرتے۔ 9/11 کے بعد مسلمانوں کو دہشت گرد ٹھہرانے کی جو مہم شروع ہوئی، اسے امریکا کے ایک بڑے طبقہ نے ماننے سے انکار دیا۔ سڑکوں پر اترے ہوئے قافلے اور مخالفت کا رویہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ ایک دنیا مسلمانوں کو دہشت گرد تسلیم نہیں کرتی۔

ٹرمپ اور دوسرے تانا شاہوں کی مقبولیت کے گراف کو اسلام مخالف مہم کچلنے کے لئے تیار ہے اور نئی دنیا کے لئے یہ پیغام کہ کچھ لوگوں کی سزا ایک پوری قوم کو نہیں دی جا سکتی۔ ٹرمپ کی مخالفت ان کے آنے کے ایک برس بعد ہی کچھ اس طرح بڑھی کہ امریکیوں نے مذہبی شناخت کے کالم میں اسلام کا نام دیے جانے کی پیش قدمی کی۔ ان کے نزدیک یہ بھی احتجاج کا ایک طریقہ ہے۔

مییزہ اور بابی جان میں، قرآن شریف میں شامل پیغامات اور پیغمبروں کی زندگی سے وابستہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے انیتا نے بتانے کی کوشش کی کہ اسلام کیا ہے؟ کتنا خوبصورت مذہب ہے۔ یہ زندگی جینے کا بہتر راستہ بتاتا ہے۔ اگر کچھ دہشت پسند قرآن شریف کو جرم کا حوالہ بناتے ہیں تو قصوروار وہ ہیں نہ کہ اسلام یا قرآن شریف کے پیغامات، جو زندگی کے معیار کو حسن سلوک اور انسانیت سے بہتر بنانے کے اشارے دیتا ہے۔ معجزہ اور بابی جان : سٹوریز فرام قرآن کے ذریعہ انیتا نے مسلمانوں اور اسلام کی حمایت میں ایک بار پھر مضبوط آواز بلند کرنے کی کوشش کی ہے۔

انیتا نے جو کام کر دکھایا، یہ کام دراصل ہمیں کرنا چاہیے تھا۔ آج کے سیاسی پس منظر میں بھگوا دہشت گردوں کو جواب دینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ امن پسند اسلام کے پیغامات کو ایک دنیا تک پھچاہیں۔ جیسا کہ انیتا نے کہا، بچوں کے معصوم دماغ میں یہ بات بار بار پہچانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کیا ہے۔ کچھ غلط لوگ ہیں جو اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ ، اس بارے میں بھی بچوں کو بتانے کی ضرورت ہے۔

شمشیر کا جواب شمشیر نہیں۔ ، اشتعال انگیزی کا جواب صبر سے دینے کی ضرورت ہے۔ ایک دنیا ہماری مخالف ضرور ہے، لیکن ہم یہ بھی یاد رکھیں کہ ایک بڑی دنیا ہماری حمایت میں بھی کھڑی ہے۔ انیتا نے اکیلے جو کام کیا، وہ کام ہماری اکادمیوں، ادارے، ان جی اوز کو کرنے تھے۔ انیتا کی تحریر راحت دیتی ہے کہ۔ ۔ ۔ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ انیتا نے اپنی کتاب ’معجزہ اور بیبی جان: سٹوریز فرام قرآن مجید‘ کے بارے میں بتایا کہ اسلام سادگی سے لوگوں کا دل جیت لیتا ہے۔

لوگوں کو اس سوچ سے دور کرنا ہوگا کہ اسلام ایک خطرناک مذہب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بچوں کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ اسلام ہندو مت اور بدھ مت جیسے مذہب کی طرح ہی ایک مذہب ہے۔ انیتا کے مطابق بہت سارے سارے مسلمان ادیب اسلام کو لے کر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں لیکن انھیں خدشہ اس بات کا ہے کہ ان کے کام کو پروپیگنڈا کے طور پر لیا جائے گا۔ اگر میں لکھتی ہوں تو میرے بارے میں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ کیونکہ میرا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔

میں لوگوں کو صرف اس مذہب کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ مذہب امن کا پیغام دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، آج بائبل کی کہانیاں، ہندو افسانے اور دوسرے مذاہب سے متعلق معلومات عام ہیں لیکن قرآن سے متعلق تحریریں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسی صورتحال میں، جب دہشت گرد قرآن شریف کو غلط شکل میں استعمال کرتے ہیں، تب یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو اس کے بارے میں بتایا جائے۔

انیتا نائر نے کی ایک اور تحریر میں نے دیکھی جس میں انہوں نے فیمنسٹ موومنٹ کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ ’جب میں نے لیڈیز کوپ ناول لکھا تھا، تو اسے فیمنسٹ کہا گیا۔ یہ میرے لئے پریشانی کا باعث بنا۔ یہاں حقوق نسواں کی کبھی تعریف نہیں کی جاتی۔ اسے توہین آمیز اصطلاح سمجھا جاتا ہے۔ میں پریشان ہو گیی۔ میرے نزدیک حقوق نسواں یہ ہے کہ ہر عورت کو عورت بننے کا حق ہونا چاہیے اور اسے کہیں سے بھی خود کو کمتر محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ اکثر اوقات خواتین سے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ ایک خاص قسم کی فرد ہیں تو صرف آپ کو ایک اچھی عورت کہا جائے گا۔

انیتا کے مطابق ’سب سے پہلے ہمیں پہچاننا چاہیے کہ ہم کیا ہیں۔ ہمارا جینڈر ہم سے کیا چاہتا ہے؟ حیاتیاتی لحاظ سے کچھ فرق ہے؟ قسمتی سے ہم یہ نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ صرف مردوں کی سوچ کا مسئلہ نہیں ہے۔ حقوق نسواں کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو عورت کے بارے میں آرام دہ ہونا چاہیے۔

مذہب ہو یا فیمینزم، انیتا ہر جگہ اپنے خیالات کے ساتھ انصاف کرتی ہیں۔

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ جہاں سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین جیسے اسلام مخالف ادیب ہیں، وہاں ایک روشن چہرہ انیتا نائر کا بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments