سِگ 716 اسالٹ رائفلز کی خریداری کا معاملہ: انڈیا ہتھیاروں کے معاملے میں خود کفیل کیوں نہیں ہے؟


انڈین فوج امریکہ سے 72 ہزار سِگ 716 اسالٹ رائفلز خریدنے پر غور کر رہی ہے۔

ان سِگ (ایس آئی جی) اسالٹ رائفلز کی پہلی کھیپ انڈیا کو جنوری میں دی گئی تھی اور یہ شمالی کمانڈ اور دیگر آپریشنل علاقوں کی تعینات فوجیوں کو دے دی گئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ رائفلز کشمیر اور دیگر سرحدی علاقوں میں تعینات فوجیوں کو بھی دی گئیں ہیں۔

خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق اس معاملے سے واقف ایک شخص نے بتایا: ‘ہم سکیورٹی فورسز کو دیے گئے معاشی اختیارات کے تحت مزید 72 ہزار رائفلز کا آرڈر دینے جا رہے ہیں’ اور کہا جا رہا ہے کہ یہ خریداری فاسٹ ٹریک پرچیز (ایف ٹی پی) پروگرام کے تحت کی جائے گی۔

فاسٹ ٹریک پرچیز کے بارے میں ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پناگ بتاتے ہیں: ‘اگر چہ ہر فوج چاہتی ہے کہ لڑائی کے لیے اس کے پاس سب کچھ ہو لیکن ایک جمہوریت اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ترقی اور معیشت پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور فوج کا بجٹ کم ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی بحران پیدا ہو جاتا ہے اور کوئی کمی ہوتی ہے تو ہنگامی صورت حال میں اس قسم کی خریداری کی جاتی ہے۔ یہ ہر فوج کرتی ہے، صرف انڈین فوج کی بات نہیں ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

انڈیا ہتھیار خریدنے والا سب سے بڑا ملک، پاکستان میں کمی

چین نے انڈین سرحد پر بھاری اسلحہ پہنچا دیا

انڈیا کو پاکستانی فضائیہ کے بارے میں کیا جاننا ضروری ہے؟

ان کا کہنا ہے کہ اگر صورت حال اس طرح کی ہو کہ کوئی چارہ نہ ہو تو پھر ایسا کرنا ہوتا ہے۔

چین کے ساتھ جاری سرحدی تنازعے کے درمیان کی جانے والی اس خریداری کو اہم سمجھا جا رہا ہے لیکن جنرل ایچ ایس پناگ کا کہنا ہے کہ اسے موجودہ بحران سے جوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ فوج کی جدید کاری کا صرف ایک حصہ ہے۔

انڈین فوجی

بہت سے انڈین فوجیوں کے پاس اب امریکی اسالٹ رائفلیں ہیں

انساس رائفلز کی جگہ سِگ اسالٹ رائفلز

امریکہ میں تیار کی جانے والی یہ اسالٹ رائفلز فی الوقت انڈین فوج میں استعمال ہونے والی انڈین سمال آرمس سسٹم (انساس) رائفل کی جگہ لیں گی جو کہ ملک میں ہی تیار کی جاتی ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کہتے ہیں: ‘نئی رائفلز کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت گذشتہ آٹھ نو سالوں سے ہے۔’

ان کا کہنا ہے کہ انڈیا نے سنہ 1990 کی دہائی میں ایک دیسی اسالٹ رائفل بنائی تھی جسے انساس رائفل کہتے ہیں، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکی۔

راہل بیدی کے مطابق سنہ 2010-2011 میں فوج نے کہا تھا کہ وہ عملی طور پر موثر نہیں ہیں یعنی اسے چلانے میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں اور فوج نے یہ کہتے ہوئے انساس رائفل کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اس کے بدلے میں ہمیں دوسرے قسم کا اسلحہ چاہیے۔ اس وقت سے ہی نئی رائفل کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔

امریکی اسالٹ رائفل انساس سے کس طرح بہتر ہے؟

سِگ 716 آسالٹ رائفل قریبی اور دوری پر مختلف اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے۔

انڈین فوج جو ابھی انساس رائفلز استعمال کر رہی ہے، اُس کے میگزین ٹوٹنے کی بہت سی شکایتیں ہوئی ہیں۔ راہل بیدی کے مطابق اس رائفل کی بٹ بھی خراب تھی اور وہ مختلف درجۂ حرارت میں کریش ہو جاتی تھی۔ اس میں بہت ساری خامیاں ہیں جبکہ امریکی اسالٹ رائفل میں اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

انڈین فوج کو ایک ایسی رائفل کی ضرورت تھی جو زیادہ بڑے اور مہلک کارتوس فائر کرسکتی ہے۔ انساس رائفل سے 5.56×45 ایم ایم کے کارتوس داغے جا سکتے ہیں جبکہ سِگ یعنی 716 میں زیادہ طاقتور کارتوس 7.62×51 ایم ایم کا استعمال ہوتا ہے۔ دونون آسالٹ رائفلز میں یہ ایک بڑا اور واضح فرق ہے۔

انڈین فوجی

انڈین فوجی بہت زمانے سے اسلحے مین تبدیلی چاہتے تھے

فوج طویل عرصے سے انساس کو بدلنا چاہتی تھی

اگرچہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پناگ کا کہنا ہے کہ انساس رائفل کو متعارف ہوئے 21 سال ہوگئے ہیں اور یہ اس وقت کی ایک اچھی رائفل تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ انساس کی ٹیکنالوجی 21 سال پہلے متعارف کروائی گئی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس سے بھی آٹھ دس سال پرانی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ انساس میں ایسی بہت سی چیزیں نہیں تھیں جو جدید ہتھیاروں میں ہوتی ہیں۔ ‘آپ ہر دو سال بعد اپنا فون کیوں بدلنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ اس میں نئی ٹیکنالوجی آجاتی ہے۔ ہتھیاروں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے، نئی ٹیکنالوجی والے ہتھیار زیادہ درست، زیادہ کارگر ہوتے ہیں اور اس میں گڑبڑ کی گنجائش کم ہوتی ہے۔’

ایچ ایس پناگ کا کہنا ہے کہ ایک نئی رائفل بنانے کی ضرورت تھی ‘لیکن ملک کے اندر ہم اپنی ضرورت کی سطح کی رائفل نہیں بنا سکے۔ لہذا یہ اسالٹ رائفلیں امریکہ سے درآمد کی جارہی ہیں اور روس کے ساتھ مل کر انڈیا میں اے کے 203 رائفل کی فیکٹری قائم کی گئی ہے۔ اسے بھی تعارف کرایا جائے گا۔’

مسٹر پناگ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں رائفلز فوجی جوانوں کی خود اعتمادی میں اضافہ کریں گی اور یہ انڈین فوج پر منحصر ہے کہ وہ کسے کہاں استعمال کرتی ہے۔

خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق منصوبے کے تحت انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں اور ایل او سی پر تعینات فوجیوں کے لیے تقریبا ڈیڑھ لاکھ رائفلیں درآمد کی جانی ہیں۔ باقی جوانوں کو اے کے 203 رائفل دی جائیں گے جو انڈیا اور روس مل کر اترپردیش کے شہر امیٹھی کے آرڈیننس فیکٹری میں تیار کریں گے۔

اس منصوبے پر ابھی کام شروع نہیں ہوا ہے کیوںکہ دونوں فریقوں کے مابین کئی سطح پر معاملہ الجھا ہوا ہے۔

مودی کا میک ان انڈیا پروجیکٹ

مودی کا میک ان انڈیا پروجیکٹ اسلحے کے معاملے میں ناکام نظر آ رہا ہے

خود انحصاری کی راہ میں روکاوٹ

راہل بیدی کا کہنا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ سال سے روس کے ساتھ اے کے 203 اسالٹ رائفل بنانے کے لیے بات چیت ہو رہی تھی لیکن یہ معاہدہ اب تک پھنسا ہوا ہے۔

گذشتہ سال مارچ کے دوران امیٹھی کے علاقے کوروا میں اس اسلحہ کی فیکٹری کا افتتاح ہوا تھا۔ ‘لیکن اب بھی روس کے ساتھ پیداوار کے بارے میں بات چیت جاری ہے اور قیمت پر اتفاق نہیں ہو پا رہا ہے۔’

کاربائن کو اسالٹ رائفل کا چھوٹا بھائی کہا جاتا ہے اور انڈین فوج کے پاس پچھلے 15 سالوں سے کاربائن نہیں ہے۔

راہل بیدی کہتے ہیں کہ پچھلے دو تین سالوں سے کاربائن کا معاہدہ بھی پھنسا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کاربائنز پہلے استعمال ہو رہی تھیں وہ دوسری جنگ عظیم کے وقت تھیں۔

‘آرڈیننس فیکٹری بورڈ وہی بنا رہا تھا لیکن پھر اسے مسترد کردیا گیا کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں، اس کی ٹیکنالوجی بہت پرانی ہو چلی تھی۔’

فائٹر پلین

انڈیا میں لڑاکا طیاروں کی خریداری پر بھی ہنگامہ آرائی رہی ہے

ہتھیاروں کے معاملے میں انڈیا خود کفیل کیوں نہیں ہے؟

دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ایک طرف انڈین حکومت خود کفیل ہونے کی بات کرتی ہے دوسری طرف آپ درآمد کرتے ہیں۔ یہاں قدرے تضاد ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ سے آنے والی اسالٹ رائفل بہت اچھی ہے۔ لیکن پہلی بات یہ ہے کہ وہ درآمد کی جاتی ہیں اور دوسری یہ کہ وہ مہنگی ہیں۔

ان کے مطابق جنوری میں موصول ہونے والی 72 ہزار 400 سِگ 716 اسالٹ رائفل کی قیمت تقریبا آٹھ کروڑ ڈالر آئی تھی۔

ان کے بقول مودی کا ‘میک ان انڈیا مکمل طور پر ناکام ہے۔ سیاسی لحاظ سے اسے جتنا چاہیں اچھالیں لیکن اس کا کوئی جواز نہیں۔ انڈیا ایک ایسا ملک ہے جو درآمد شدہ ہتھیاروں سے لڑتا ہے۔’

وہ کہتے ہیں: ‘آپ ہوائی جہاز کو لیں، اپنا فائٹر دیکھیں، ہیلی کاپٹر دیکھیں، ٹینک دیکھیں، سب درآمد کیا جاتا ہے۔ آپ کے آبدوز، طیارہ بردار بحری جہاز، ایئر کرافٹ کیریئر سب درآمد کیا جاتا ہے۔’

در حقیقت سن 2014 سے 2018 کے درمیان انڈیا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا فوجی اسلحہ درآمد کرنے والا ملک رہا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کے مطابق انڈیا دنیا بھر میں فروخت ہونے والے اسلحے کا 10 فیصد خرید رہا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کی خود پر انحصار کی صلاحیت بہت ہی ناقص ہے۔ ‘پچھلے 65 سالوں میں ہم نے کوئی ہتھیار بنانے کا نظام نہیں بنایا ہے۔’

راہل بیدی کہتے ہیں کہ ہتھیاروں کی ضرورت اور قلت تو ہے اور اگر آپ کو یہ خلا پُر کرنا ہے اور آپ میں صلاحیت نہیں ہے تو آپ کے پاس درآمد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

لیکن جنرل پناگ کا کہنا ہے کہ آپ کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آپ اس فیکٹری کو یہاں لا کر اسلحہ تیار کرنا شروع کریں گے تو اس میں مزید تاخیر کریں گے یا اسے فوری طور پر خرید لیں گے۔ ‘لیکن مجھے امید ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو میک ان انڈیا بھی اس میں شاتھ ہوگا، جیسے ہم انڈیا میں اے کے 203 رائفل بنا رہے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp