پینشن کا بے قابو جن اور اس کا حل


مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہونے پر پینشن کا مالی فائدہ ہمارے ہاں اکثریت کی سرکاری نوکری کی جستجو کی چند بڑی وجوہات میں سے ایک ہے اور یہ کوئی بری بات بھی نہیں۔ اگر آپ ایک دفعہ سرکار پاکستان کے ملازم ہوجائیں تو انگریز دور کے لاگو کردہ موجودہ پینشن قوانین کے تحت سرکار نہ صرف آپ کو ریٹائرمنٹ کے بعد ماہانہ پینشن دیتی ہے بلکہ آپ کے اس دنیا سے گزر جانے کے بعدآپ کی بیوہ اور دو نسلیں اس سہولت سے فیض یاب ہو سکتی ہیں۔

سرکاری ملازم کی وفات کے بعد پینشن اس کی بیوہ کو ملتی ہے اور بیوہ کی وفات کی صورت میں یہ سہولت 24 سال سے کم عمر کے بچوں کو ملتی ہے اور اس کے بعد حکومت پاکستان غیر شادی شدہ بیٹے یا بیوہ بیٹی اور اس کے بعد اس کے بچوں کو پینشن دینے کی پابند ہے یعنی 25 سال کی ملازمت کے بعد ایک اندازے کے مطابق 75 سال تک آپ کا خاندان سرکار کے اس مشاہرے کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

ایک طرف حاتم طائیوں کی طرح سخی سرکار کے پینشن قوانین اور دوسری طرف مالی بدحالی۔ سالانہ بجٹ کے ایک محتاط جائزے کے مطابق گزشتہ مالی سال میں فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کے اکٹھے کردہ کل محصولات کا تقریباً 25 فیصد وفاقی اور صوبائی ملازمین کی پینشن کی ادائیگیوں پر خرچ ہوا اور اس سال یہ رقم ایک ہزار ارب روپے کے قریب ہوگی۔ سرکار پاکستان کے ملکیتی نیم سرکاری اداروں جن میں پی آئی اے، پاکستان سٹیل مل، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن اور دیگر کئی ادارے شامل ہیں، کے پینشن کی مد میں اخراجات اس ایک ہزار ارب کے علاوہ ہیں۔

محکمہ ڈاک کے کل بجٹ کا34 فیصد پینشن کی ادائیگیوں کے لئے مختص ہے جب کہ پاکستان ریلوے کو سالانہ تقریباً 40 ارب روپے صرف پینشن کی ادائیگیوں کے لئے درکار ہوتے ہیں اور یہ رقم ریلوے کے موجودہ ملازمین کی کل سالانہ تنخواہوں کی رقم سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح وفاق کے پینشن کے 470 ارب کے کل اخراجات میں سے تقریباً 370 ارب روپے مسلح افواج کے ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن کی ادائیگی کی مد میں خرچ ہوتے ہیں۔

پاکستان میں پینشن کی مد میں اخراجات میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا بڑھتا ہوا حجم، تین نسلوں تک پینشن کے استحقاق کا انگریز کے دور کا قانون، جینے کی اوسط عمر میں اضافے کی وجہ سے نئے ریٹائر ہونے والوں کے مقابلے میں پینشن سے نکلنے والوں کی کہیں کم تعداد ہے اور سالانہ پینشن میں اضافہ ہے۔

صوبہ پنجاب کے پینشن کے اخراجات میں سالانہ 24 فیصد کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ محصولات کی مد میں آمدن میں اضافہ صرف 13 فیصد کے قریب ہے۔ اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا کے پینشن کے اخراجات میں پچھلے دس سالوں میں تقریباً آٹھ گنا اضافہ ہوا ہے۔

پینشن کی مد میں اخراجات کی یہ صورتحال کسی طوربھی دیرپا نہیں کیونکہ قومی وسائل جو ملک کی معاشی صورتحال اور غیریقینی سیاسی صورتحال سے جڑے ہیں، بہت ہی کم ہیں۔ ایک طرف حکومت ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن پر اتنی خطیر رقم خرچ کررہی ہے تو دوسری طرف صرف گزشتہ چندماہ میں بیروزگار افراد میں دوکروڑ افراد کا اضافہ ہوا ہے جو پچھلے دو سالوں میں بیروزگار ہونے والے تقریباً 22 لاکھ افراد اور ملک میں پہلے سے موجود بیروزگار افراد کے علاوہ ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ہر سال تقریباً گیارہ لاکھ فارغ التحصیل نئے طلباء نوکریوں کی تلاش میں شامل ہوتے ہیں۔

پینشن کی مد میں بڑھتے اخراجات صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہیں اور ان اخراجات میں ہوشرباء اضافے سے نمٹنے کے لئے دنیا کے کئی ملکوں نے جن میں بھارت، فرانس اور امریکہ کی ریاستیں وغیرہ شامل ہیں نے پینشن فنڈ قائم کیے ہیں۔ ان پینشن فنڈز میں پاکستان میں رائج موجودہ سسٹم کے برعکس، جس میں صرف حکومت اپنا حصہ ڈالتی ہے، ملازمین اپنی ماہانہ تنخواہ کا کم از کم دس فیصد حصہ ڈالتے ہیں۔ وہاں کی حکومتیں بھی ملازمین کی طرف سے ڈالی جانے والی رقم کے برابر رقم اس فنڈ میں ڈالتی ہیں اور اس جمع ہونے والی رقم کی منافع بخش سکیموں میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔

ملازم کو ریٹائرمنٹ کی قانونی عمر پر ریٹائر ہونے پر پینشن فنڈ میں اس کے اکاوٴنٹ میں جمع رقم اور اس پر منافع میں سے ایک خاص تناسب اسے یکمشت ادا کر دیا جاتا ہے اور باقی رقم ستر سال کی عمر تک ماہانہ پینشن کی صورت میں دی جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ ملازم یا اس کے اہل خانہ اس پینشن کے مستحق نہیں رہتے۔ البتہ ریٹائر ہونے پر ملازم کے پاس اپنی رقم کی سرمایہ کاری کے لئے مختلف آپشن ضرور موجود ہوتے ہیں۔

پینشن کی سہولت کو مکمل طور پر بند کرناپاکستان میں پینشن کی ادائیگی سے جڑے مسائل کا قطعی حل نہیں ہے کیونکہ ایک تو یہ بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن سیاسی فیصلہ ہے دوسرا اس کا تمام وفاقی اور صوبائی محکموں پر یکساں إطلاق تقریباً ناممکن ہے اس لئے حکومت پاکستان کو پینشن کے موجودہ قوانین میں بنیادی اصلاحات کرکے نسل در نسل پینشن ادائیگی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی دوسرے ملکوں کی طرح فوری طور پر پینشن فنڈ قائم کیا جائے، موجودہ ملازمین کی پینشن پر ایک حد لاگو کی جائے اور نئے رکھے جانے والے ملازمین کے لئے نئے وضع کردہ نظام میں شمولیت لازمی قرار دی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پینشن کے موجودہ واجبات جو تقریباً ملک کے کل قرضوں کے برابر ہیں مزید بڑھتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments