تاریخ کا ادراک، کرائے کے مورخ اور گالی بریگیڈ فورس


قلم اٹھاتا ہوں تو معاشرتی اور سماجی معاملات پر رائے دینے کا ارادہ ہوتا ہے مگر چاہتے، نہ چاہتے بھی، نگارش کے کسی نہ کسی موڑ پر تاریخ کی گلیوں تک بھٹک نکلتا ہوں۔ شاید یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مجھ سمیت ہم میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو تاریخ سے علیحدہ نہیں کر سکتا، گویا ہمارا حال خواہ مستقبل ہمارے ماضی سے ہی جڑا ہوا ہے۔ اس کی ایک نظیر یہ بھی ہے کہ ہم ان خامیوں کو اپنی شخصیت اور وجود سے چاہنے کے باوجود بھی الگ نہیں کر سکتے، جو ہماری سرشت میں صدیوں سے ہماری اجتماعی خامیوں یا خوبیوں کی صورت میں موجود ہیں۔ روزانہ ہماری ملاقات ”تاریخ“ سے ضرور ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم کسی بھی شعبے میں تعلیم یا تربیت حاصل کرنے جائیں، تو اس کی ابتدا میں اس شعبے کی تاریخ کے اہم سنگ ہائے میل سے آشنائی ضرور کرائی جاتی ہے۔

جس طرح ”ثقافت“ کی طے شدہ اور متفقہ تعریف کے مطابق ”وہ چیزیں جو غیر تہذیب یافتہ (غیر مہذب) ہیں، وہ دنیا کی کسی بھی ثقافت کا حصہ نہیں ہو سکتیں“ ، اسی طرح کیا مورخین نے ”سچی تاریخ“ اور ”جھوٹی تاریخ“ میں تمیز کی کوئی کسوٹی مقرر کی ہے؟ کیونکہ صرف پرانے زمانوں میں ہی نہیں، بلکہ آج بھی ”درباری مورخ“ ، ”درباری دانشور“ ، ”درباری مدح خواں“ اور ”درباری نقاد“ وغیرہ بادشاہوں کے ساتھ ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں، جو ان کے شاہی خواہ حکومتی امور کو آسان کرنے اور مختلف معاملات کو دانشورانہ انداز میں طے کرنے میں معاونت فراہم کرتے ہیں، چاہے وہ اکبر کی دربار کے ”فیضی“ ہوں، اسی کے 9 رتنوں میں سے ”بیربل“ ہو، یا ہمارے وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ کی تقریر نویس اور ”ٹویٹ نویس“ (جو بڑی باریک نگاہی اور نفاست سے میڈیا اور تجزیہ کاروں کی تنقید سے ان کو بچانے کے لیے ان کے منہ میں ”میرے عزیز ہم وطنو! “ کی جگہ ”میرے عزیز اہل وطن!“ جیسے الفاظ ڈال دیتے ہیں۔) پہلے زمانوں میں ایسے کرائے کے دانشوروں کو جاگیروں، انعامات و اکرام، وزارتوں اور اہم درباری عہدوں سے نوازا جاتا تھا۔ صورت حال آج کل بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ ایسے کرائے کے دانشور آج کل وفاقی وزارتوں اور مشیری جیسے عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں، یا پھر ان کو قومی ادبی اور نشریاتی اداروں کی باگ ڈور تھما دی جاتی ہے۔ وزرائے اعظم یا صدور اپنے ایسے خاص مشیروں کو اپنے غیر ملکی دوروں کے دوران اپنے وفود میں شامل رکھ کے اپنے ساتھ چارٹرڈ طیاروں میں موجیں کرواتے ہیں، اور بدلے میں ایسے صاحبان، حکومت پر ہونے والی تنقیدوں کے جواب تحریر کرنے، پریس کانفرنسوں کے متن لکھنے، حکومتی نقطۂ نظر کو پریس کے لیے ڈرافٹ کرنے اور بھری محفلوں میں ”صاحب بہادر“ کے قصیدے پڑھنے کا کام ”احسن طریقے“ سے انجام دیتے ہیں۔

ایسے میں کوئی بھی تاریخ پڑھتے ہوئے کسی بھی حکمران کے لیے توقیری کلمات جب زیر مطالعہ آتے ہیں، تو یقین مانیں، کہ اس پر اعتبار نہیں آتا کہ واقعی فلاں بادشاہ اتنا رحمدل اور انصاف پسند تھا بھی، یا اس نے یہ تاریخ ایسے ہی ”کرائے کے مورخین“ سے لکھوائی ہے، چاہے وہ خلیفہ ہارون الرشید جیسے عادل خلیفہ ہوں یا پھر جام نظام الدین نندو جیسے سلجھے ہوئے بادشاہ۔ یہ تو بھلا ہو مختلف زاویوں سے تاریخ لکھنے والے مورخین کا، جنہوں نے سچ اور جھوٹ کی تمیز کی خاطر، ماضیٔ قریب کی چند ہمہ جہتی تاریخیں رقم کیں ہیں، جن سے ہر ذی شعور قاری خود سیاہ و سفید کا فیصلہ کر سکتا ہے، مگر دنیا کی تاریخ کے کئی ابواب صرف ایک زاویے سے ہی لکھے گئے ہیں، جن کے حوالے سے ظاہر ہے کہ جب تک دوسرا نقطۂ نظر موجود نہیں ہوگا، تب تک اسی موجود تاریخ کو ہی صحیح اور مستند سمجھا جاتا رہے گا۔

اس ضمن میں ہمیں اپنی نالائقی کا اقرار بھی کرنا چاہیے کہ بہت سی باتیں اور قصے پڑھتے ہوئے ہم اپنے عام فہم (کامن سینس) کا استعمال نہیں کرتے اور جس کو جیسا بتایا گیا ہے، اس کو ویسا ہی گردانتے ہیں، گویا ہم میں سے اکثریت ”فقراہ ہائے لکیر“ کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب حکمرانی اور سلطنت کی حرص میں دنیا بھر کو فتح کرنے کی ہوس میں ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کا قتل عام کرنے والے یونان کے سکندر کو ہم ”سکندر اعظم“ یا ”الیگزینڈر۔ دی گریٹ“ کہیں گے، اور بچوں کو بھی ایسا ہی پڑھائیں گے، تو اپنی عقل اور تاریخی فہم پہ مشکوک ہونا تو بنتا ہے۔ اس سلسلے میں کلام عظیم خود کہتا ہے کہ: (مفہوم) ”جس نے ایک انسان کی جان بچائی، اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا اور جس نے ایک انسان کا قتل کیا، اس نے گویا پوری انسانیت کا قتل کیا۔“ قرآن کی اس طے شدہ تعریف کی روشنی میں آپ یونان کے قاتل، سکندر کو کہاں رکھیں گے؟ اگر مجھ جیسا کوئی کم علم اپنی کم عقلی اور کم فہمی کی وجہ سے یہ یا ایسی کوئی بات کہے، تب تو بات سمجھ میں آتی ہے، مگر آغا سلیم جیسے منجھے ہوئے دانشور، عالم اور تاریخ نویس جب اپنی کتاب کا عنوان ہی ”الیگزینڈرس کانکوئیسٹ آف سندھ“ (سکندر کی جانب سے کی ہوئی سندھ کی ”فتح“ ) لکھیں گے، تو ہم کس در پر جا کر داد و فریاد کریں!

مذہب کو بھی شروع ہی سے دنیا بھر میں سیاسی اور عسکری مفادات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ہم اپنے خطے کو ہی دیکھیں، کہ یہاں اپنی ذاتی حرص و ہوس حاصل کرنے کے لیے ان سفاک قاتلوں کو ہم آج تک بچوں کو ہیرو کی حیثیت سے پڑھاتے ہیں، جنہوں نے مال و اقتدار حاصل کرنے کے لیے مذہب کا کارڈ استعمال کیا (چاہے وہ اس خطے کا کوئی بھی مذہب ہو۔)

آج کے منظرنامے میں اگر دیکھیں، تو صورتحال آج بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ صرف اظہار کے انداز اور ابلاغ کے طریقے و ذرائع تبدیل ہوئے ہیں، عزائم اور لالچ وہی ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ آج ”سوشل میڈیا“ کے نام پر ایک ایسا ”ان سوشل“ پلیٹ فارم (ہتھیار) ہمارے ہتھے چڑھ گیا ہے، جہاں ہم کسی کی بھی پگڑی آسانی سے اچھال سکتے ہیں۔ کسی کی بھی کردار کشی کر سکتے ہیں اور کسی کے ساتھ بھی کتنی بری اور غیر اخلاقی زبان کا استعمال کر سکتے ہیں، کیونکہ ہمیں اس پلیٹ فارم پر کوئی پوچھنے والا تو ہے نہیں!

جو ہمیں پکڑے اور ہمیں ہمارے کہے ہوئے کی سزا دے۔ لہذا پہلے سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز ہوا کرتے تھے، جو مخالفین کو ”گولی کی نوک“ پر رکھا کرتے تھے اور آج کل سیاسی جماعتوں کو اتنا زیادہ خرچہ نہیں کرنا پڑتا وہ بس چند ہزار روپے ماہانہ خرچ کر کے ”سوشل میڈیا ٹیم“ کرائے پر لیتی ہیں، جو مخالفین کو ”گالی کی نوک“ پر رکھتی ہے۔ جس کا کام ہر اس شخص کی عزت اچھلانا، اس کو مع اہل و عیال نت نئی گالیوں سے نوازنا اور اس کی اخلاقی درگت بنانا ہوا کرتا ہے، جو اس سیاسی جماعت کے خلاف کوئی بات کرے چاہے وہ کوئی مشہور و معروف صحافی ہو، یا کوئی قومی سیاستدان اس کو چھوڑنا نہیں، چاہے وہ صد فیصد درست اور اصولی بات کر رہا ہو۔

اس صورتحال میں جس پر وار کیا جاتا ہے، اس کو تو سب جانتے ہیں، مگر جو وار کر رہا ہوتا ہے، اس کو کوئی نہیں پہچانتا، کیونکہ اخلاق پر ایسا حملہ کرنے والے اکثر جعلی شناخت سے وار کرتے ہیں اور ہمارے پاس سوشل میڈیا کو مانیٹر کرنے کے لیے ابھی تک اتنا مربوط نظام اور مکینیزم نہیں بنایا گیا (یا جان بوجھ کر نہیں بنایا جا رہا) جہاں ایسے ہتک عزت کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مناسب انتظام ہو۔

آج کے اخبارات کو دیکھ لیں، وطن عزیز میں، خواہ ملک سے باہر ہونے والے حادثات اور واقعات کا رنگ، صدیوں پہلے رونما ہونے والے واقعات سے ملتا جلتا ہی ہے، تو پھر کیونکر میری ہر نگارش، حال کا ذکر کرتے ہوئے تاریخ کی گلیوں میں نہ بھٹکے! مگر ”سچی“ اور ”جھوٹی“ تاریخ میں تمیز کے حوالے سے میری تشویش، مطالبہ یا سوال بے جا ہرگز نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments