کیا مودی ہمارے بھی ہیرو ہیں؟


حضرت وجاہت مسعود صاحب کا پچھلے ہفتے کا نوحہ ”بارہ مولا کا بشیر احمد خان اور جامشورو کا گل محمد چھچھر“ مجھے دو، تین دن تک عجیب سی کیفیت میں مبتلا کیے رکھا۔ میں وجاہت صاحب کی قلمی طاقت اور معاشرتی درد و فکر کے بارے سوچ رہا تھا۔ وہ مجھے پرندوں کے اس جھنڈ میں دکھ رہے تھے جس کا ذکر فقیہہ حیدر اس شعر میں کرتے ہیں،

ہوا میں نوحہ کناں ہیں تھکے پروں کے ساتھ
پرندے جلتے شجر کا طواف کرتے ہوئے

میں وجاہت صاحب کے ابن زیاد اور یزید مسلک شہر میں اعتکاف کرنے کے بارے سوچ رہا تھا کہ اچانک ”مندر نہیں بنے گا“ کی بازی گشت سنائی دینے لگی۔ پھر کیا ہوا، ضیاء کی تیار کردہ فصل جو کہ اس وقت پک چکی ہے، اپنا رنگ دکھانے لگی۔ بڑی مشکل سے دس پندرہ ردے بنی دیوار گرانے ہمارے چند مسلمان ارطغرل غازی اور محمود غزنوی کے جذبے لے کر پہنچے کہ اسلامی ملک کے دارالحکومت میں یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا۔

پڑوسی ملک سے بھی اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والوں نے یہ ترانہ ریلیز کر دیا کہ ”پاکستان پرستو! تم رہو ذرا اوقات میں، بنے گا مودی راج میں مندر اسلام آباد میں۔“ تو ہمارے لوگ مودی سے متاثر ہونے میں کیسے پیچھے رہتے، مندر کی جگہ اذانیں دینے لگے، ایک صاحب نے فرمایا کہ وہ مندر توڑنے کینیڈا سے آئے ہیں۔ فتوے آ گئے، کام رک گیا۔ نورالحق قادری صاحب نے بڑے فخر سے کہا کہ یہاں اقلیتیں بہت محفوظ ہیں۔

موصوف سے کوئی یہ پوچھے کہ یہ میاں مٹھو کون سے گولے سے آئے ہیں، آئے دن فورسڈ کنورژن کیوں ہوتی ہیں، 2019 میں گھوٹکی کے مندر پر حملہ کیوں کیا گیا، رواں برس چھچھرو میں مندر پر حملہ کیوں کیا گیا۔ چھوڑئیے جناب ہمارے قادری صاحب بھی مودی کے فین نکلے اور ان طرح کہہ گئے کہ ”سب چنگا سی۔“ مندر کا کام اگر سی ڈی اے کی اجازت کے بغیر شروع کیا گیا تھا تو وسعت اللہ خان صاحب کے پچھلے ہفتے کے بی بی سی کے کالم کے بقول اسلام آباد کی % 47 مساجد اسی زمرے میں آتی ہیں۔ حکومت مندر کی تعمیر کے لیے فنڈز نہیں جاری کر سکتی۔ کرتارپور کے لیے تو اس لیے جاری کیے کیونکہ ڈیم فنڈ کے نوٹوں کو پڑے پڑے زنگ لگنے کا خدشہ تھا۔ خیر بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔

اس شور شرابے میں ہندو دوست یہ فریاد کرنے لگے کہ خدارا مندر نہ بناؤ پر ان کی مقدس ہستیوں کا مذاق تو نہ اڑاؤ، اور یہی بات غور کرنے کی ہے۔ عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ ثابت کرنا ہو، طارق جمیل کے خلاف نفرت اگلنی ہو یا اس ملک میں اور کوئی مضحکہ خیز حرکت کرنی ہو۔ ہندوؤں کے بھگوان کی تصویر لو، ایڈیٹ کر کے عمران خان یا کسی بھی مخالف کی تصویر لگادو۔ کیا پڑھے لکھے اور کیا جاہل۔ تصویر لائک اور شیئر ہوتی جائے گی۔

دوسرے ممالک میں ہماری مقدس ہستیوں کی بے حرمتی قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔ ہمیں بھی بجرنگ دل، بی جے پی اور شیوسینا کے کارکنوں والی حرکتیں چھوڑ کر ہندوؤں کی مقدس ہستیوں سے کو نشانہ بنانے کی عادت ترک کرنا ہوگی۔ ٹیگور صاحب ٹھیک کہہ گئے کہ انسان مذہب کے لیے اپنا مال لٹادے گا، اپنی جان دے دے گا جنگیں لڑے گا لیکن مذہب کے مطابق زندگی نہیں بسر کرے گا۔ لال ماہی اور ہندو برادری کے نوجوان گرو کمار، جینت کرمانی، دھانجی کوہلی اور ونود کمار چیخیں مار مار کر پوچھ رہے ہیں کہ،

اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف
گرد و غبار، عہد ستم اور کتنی دیر

ایدھی صاحب نے گونگی اور بہری گیتا کو دس سال تک اپنے گھر میں رکھا، چھوٹا مندر بھی بنایا اور یہ پیغام دیا کہ مسئلہ مسجد مندر کا نہیں بلکہ ہماری منافقت کا ہے۔ ہم ان ممالک میں سیکولر ازم چاہتے ہیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور پاکستان میں اقلیتوں پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ صدر اور وزیراعظم نہیں بننا چاہتے، خدارا انہیں انسان رہنے دیں۔ بھارت میں اگر مودی کے غنڈے مسجدوں پہ حملہ آور ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں میاں مٹھو کی طرح کے لوگ ہندوؤں کے خلاف مسلمانوں کو بھڑکاتے ہیں تو دونوں طرف فاشزم جیتتی ہے، دونوں طرف مودی جیتتے ہیں۔ مودی ہی ہیرو ثابت ہوتے ہیں۔ جس سے مزید نفرتیں پروان چڑھتی ہیں جس میں عام جنتا کا ہی نقصان ہوتا ہے۔

صدیاں وانگوں اج وی کجھ نہیں جانا مسجد مندر دا
لہو تے تیرا میرا لگنا تیرے میرے خنجر نوں

ہم اگر حقیقی طور پر نجرانی مسیحوں والی مثال پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں مودی کو اپنا ہیرو ماننا ترک کرنا پڑے گا۔ ہندوؤں کی مقدس ہستیوں کی بے حرمتی سے باز آنے پڑے گا۔ اس نفرت زدہ ماحول میں پیار کا امرت گھولنا پڑے گا۔

رب کرے توں مندر وانگوں ویکھیں میری مسجد نوں
رام کرے میں مسجد وانگوں ویکھاں تیرے مندر نوں

اگر ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کے مسلمانوں کے لیے آواز بنیں تو ہمیں یہاں کے ہندوؤں کی عزت نفس کا لحاظ کرنا ہوگا۔ قانون کے مطابق ان کو تمام حقوق دینا ہوں گے۔ ہم جو کر رہے ہیں اس سے سوارکر اور گولوالکر ہی جیت رہے ہیں۔ مودی ہی جیت رہے ہیں۔ وہ اگر ہندوتوا کی بات کر رہے ہیں تو اسلام آباد مندر کے معاملے میں ہمارا رد عمل ان کی آئیڈیالوجی سے کہیں نہ کہیں جڑتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور نفرت کا بازار گرم رہا تو انڈیا اور پاکستان کے بارے میں لوگ ہومر کا یہ جملہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ ’ٹرائے، ایک عظیم شہر، ختم ہوچکا ہے، اب وہاں صرف سرخ شعلے رہتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments