تعلیم بنام کورونا


کورونا کی آفت نے زندگی کے کن کن شعبوں کو متاثر کیا ہے، اس کا درست اندازہ لگانے کے لئے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ سامنے کی بات تو یہ ہے کہ ہزاروں انسانوں کی جانیں گئیں۔ ان میں وہ بڑے نام بھی شامل ہیں جو ہمارا قیمتی اثاثہ تھے۔ ہر گھر کے اندر خوف کی فضا نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جس نے اعصاب پر منفی اثرات ڈالے۔ مہنگائی، بے روزگاری، آمدنی میں کمی یا کاروبار کی زبوں حالی نے گھریلو اور خاندانی زندگی کو متاثر کیا۔

میاں بیوی کے درمیان نا چاقی اور علیحدگی کے افسوسناک واقعات میں اضافہ ہوا۔ ہزاروں افراد کی نوکریاں گئیں۔ دیہاڑی دار لوگ خاص طور پر متاثر ہوئے۔ معیشت تباہی کی انتہائی پستیوں کو چھونے لگی۔ سچی بات یہ ہے کہ کورونا کے ان گنت منفی اثرات کا احاطہ کرنے میں بڑی دیر لگے گی۔ ان اثرات سے نکلنے کے لئے بھی نہ جانے کتنے زمانے لگیں گے۔

اس صورتحال میں جب گرد وپیش پر نگاہ ڈالتی اور سوچتی ہوں کہ ہمارے بچے اور ہماری نوجوان نسل اس وبا سے کس بری طرح متاثر ہو رہی ہے تو نہایت افسوس ہوتا ہے۔ کہنے کو تو ہم آن۔ لائن ایجوکیشن یا پی۔ ٹی۔ وی چینل کا حوالہ دے کر شاید اپنے آپ کو اور عوام کو فریب دے لیتے ہیں کہ سکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں کی بندش کے باوجود ہم نے تعلیمی عمل کو متاثرنہیں ہونے دیا لیکن یہ خود فریبی، حقیقت سے بہت دور ہے۔ آن۔ لائن ایجوکیشن کا تجربہ ہمارے ہاں بالکل نیا ہے۔

نہ اساتذہ اس کی باریکیوں سے آگاہ ہیں نہ طلبہ و طالبات اس کی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں۔ اساتذہ اور طالب علموں نے آن۔ لائن ایجوکیشن کی تربیت حاصل نہیں کی۔ پھر اس کے لئے سمارٹ فون، لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ وغیرہ کی ضرورت ہے۔ ان تمام باتوں کو یکجا کر لیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آن۔ لائن تعلیم، کتنے طلبہ و طالبات کو اپنے دائرے میں لا رہی ہو گی اور وہ مجموعی تعداد کا کتنے فیصد ہوں گے ؟ آپ تعلیم کے معیار کو ایک طرف رہنے دیجیے۔

ہم نے اپنے طور پر یہ باور کر لیا ہے کہ تمام طلباء کو وہ مشینی یا تکنیکی سہولیات میسر ہیں جو آن۔ لائن ایجوکیشن کے لئے ضروری ہیں۔ کوئی نہیں سوچتا کہ تمام طلباء بڑے بڑے شہروں میں نہیں بیٹھے ہوئے۔ ادارے بند ہوئے، ہاسٹلز بند ہوئے تو طلباء بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ کوئی کسی قصبے میں بیٹھا ہے۔ کوئی کسی گاؤں میں۔ او رکوئی شمالی علاقہ جات یا بلوچستان کے کوہستانی سلسلوں میں۔ بہت سے اساتذہ بھی انہی مشکلات کا شکار ہیں۔

عالم یہ ہے کہ بڑے شہروں کے اندر بھی انٹرنیٹ کی سروسز زیادہ اچھی نہیں۔ دور دراز کے علاقوں میں تو یہ سہولیات سرے سے ناپید ہیں۔ اور اگر ہیں بھی تو غیر موثر۔ آن۔ لائن ایجوکیشن کے مختلف پہلوؤں، اس کے حقیقی نتائج اور اس کی اثر آفرینی پر پی۔ ایچ۔ ڈی کا پورا مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ موجودہ صورتحال میں آن۔ لائن ایجوکیشن ہی واحد دستیاب آپشن ہے، لیکن یہ باضابطہ کلاس روم ایجوکیشن کا کوئی معقول متبادل نہیں۔ اسے ہم اپنی تسلی کے لئے ضرور استعمال کر سکتے ہیں۔

اب آئیے ا سکول ایجوکیشن کی طرف اور ان کالجوں کی طرف جو دیہات یا چھوٹے قصبات میں قائم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ستر فیصد کے لگ بھگ بچے ا ن اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ یہ ادارے بالعموم سرکار کے زیر اہتمام چل رہے ہیں۔ ان کی حالت زار سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔ زیادہ تر میں پینے کا صاف پانی، بیت الخلاء حتی کہ چار دیواری جیسا جزو لازم بھی مفقود ہے۔ جب سے کورونا کی وبا پھوٹی ہے اور تعلیمی ادارے بند ہوئے ہیں، ان ستر فیصد طلباء و طالبات کا تعلیم سے تعلق کلی طور پر ختم ہو گیا ہے۔

نہ ان کی نام نہاد آن لائن تعلیم کا کوئی بندوبست ممکن ہے، نہ ان کے والدین اتنے تعلیم یافتہ ہیں کہ گھروں میں اپنے بچوں کو کتاب کے ساتھ جوڑے رکھیں۔ سوچار پانچ ماہ سے ان ستر فیصد طلباء و طالبات کا تعلیم سے کوئی رشتہ باقی نہیں رہا۔ ستم یہ ہے کہ ہمارے لئے یہ کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ ہم اس کا تذکرہ بھی نہیں کرتے۔ ہمیں اس پر کوئی پریشانی بھی نہیں ہے۔ ہم روپے پیسے والی سرمایہ کاری کا رونا تو روتے رہتے ہیں لیکن نوجوان نسل، جو ہمارے مستقبل کی سرمایہ کاری کا درجہ رکھتی ہے، ہماری نظروں میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتی۔

موجودہ حکومت کے بہت بڑے بڑے نعروں اور وعدوں میں سے ایک پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم کا نفاذ ہے۔ یہ نہایت ہی اچھی تجویز اور بڑا پر کشش نعرہ ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اس نعرے یا وعدے کو عملی شکل دینے کے لئے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ بلا شبہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ جہاں ایک ہی وقت میں تعلیم کے پانچ چھ متوازی دھارے بہہ رہے ہوں، وہاں ایک نظام تعلیم کی منزل پانا آسان نہیں۔ ایک نظا م تو دور کی بات ہے ہم ایک نصاب تعلیم کے لئے بھی ابھی تک ٹامک ٹوئیاں ہی مار رہے ہیں۔

میں کورونا کے حوالے سے دیہات کے سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے جن مسائل کا ذکر کر رہی ہوں، ان کا تعلق بھی یکساں نظام تعلیم کے سرکاری نعرے سے ہے۔ وبا کے اس موسم میں اگر ہم شہر اور دیہات کے بچوں کو یکساں سہولیات فراہم نہیں کر سکتے تو یکساں نظام تعلیم کا نعرہ کہاں گیا؟ شہروں میں قائم بڑے انگریزی میڈیم سکول بچوں کے لئے کسی نہ کسی طرح کی آن۔ لائن کلاسز کا اہتمام کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ نرسری کے ننھے منے بچوں کو بھی ماؤں کے ذریعے کچھ نہ کچھ سکھانے پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

لیکن یہ سہولت بڑے بڑے شہروں میں قائم سرکاری سکول فراہم نہیں رہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کورونا کی وبا نے ہمارے معاشرے کی طبقاتی تقسیم کو اور زیادہ گہرا اور نمایاں کر دیا ہے۔ ایک دیہاڑی دار مزدور طبقہ ہے جسے باہر نکلنے اور روزی کمانے کی ضرورت ہے تاکہ گھر کا چولہا جل سکے۔ ایک آسودہ حال طبقہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وبا سے بچنے کے لئے شدید لاک ڈاؤن ضروری ہے۔ حکومت ان دونوں طبقات کی ترجیحات میں الجھی ہوئی ہے۔ سو کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں کر پاتی۔ یہی حال تعلیم کا ہو رہا ہے۔ چار پانچ ماہ کے اندر مراعات یافتہ طبقے کے بچے تو کسی نہ کسی حد تک تعلیم سے منسلک رہے۔ آن لائن نہیں تو انہوں نے گھروں میں ٹیوٹر رکھ لئے۔ لیکن ستر فی صد (شہری سرکاری اداروں کو ملا لیا جائے تو اسی فیصد) سے زائد بچوں کا حال، دیہاڑی دار مزدوروں جیسا ہی رہا۔

اب اعلان ہوا ہے کہ وسط ستمبر میں تعلیمی ادارے کھل جائیں گے۔ اللہ کرئے اس وقت تک وطن عزیز کو اس وبا سے نجات مل جائے اور تعلیمی عمل پھر سے رواں دواں ہو جائے لیکن یہ سوال اب زیادہ شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آ گیا ہے کہ اگر ہم تعلیم و تدریس کے عمل میں بھی طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے یا کم از کم اس خلیج کو محدود کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھاتے تو ہمارا مستقبل کیا ہو گا؟ ایک طرف بجٹ میں نمایاں کٹوتی نے یونیورسٹیوں کی سرگرمیوں کے پر کاٹ دیے ہیں، دوسری طرف سرکاری سکولوں کا بجٹ صرف اساتذہ کی تنخواہوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ صورتحال نہایت ہی تشویشناک ہے۔ وبا کے بعد بھی اگر تعلیم کے بارے میں ہمارا رویہ قبل از وبا یا دوران وبا جیسا ہی رہا تو یہ قوم و ملک کی بڑی بد قسمتی ہو گی۔

آخر میں دو افسوسناک خبروں کا ذکر ضروری ہے۔ پاکستان کی معروف سرکاری انجینئرنگ یونیورسٹی نے اساتذہ سمیت تمام ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں پینتیس فیصد تک کٹوتی کا پروانہ جاری کیا تھا۔ ملازمین کے احتجاج کے بعد گورنر پنجاب چوہدری سرور نے مداخلت کی اور فیصلے کی واپسی کا اعلان کیا۔ یہ واقعہ ہمارے نامور تعلیمی اداروں کی مالی ابتری کا غماز ہے۔ ایک خبر یہ چلی کہ حکومت پنجاب نے سرکار ی جامعات کے وائس چانسلر وں کے اختیارات میں کمی کے لئے کمر کس لی ہے۔

متعلقہ قانون میں ترمیم کے لئے مصر ہے۔ شور وغوغا پر ایک مرتبہ پھر گورنر سرور بروئے کار آئے۔ فی الحال یہ معاملہ ماند پڑچکا ہے۔ اس ضمن میں جا معات کی تنظیمی سیاست میں متحرک افراد متضاد آراء رکھتے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ سو فیصد حل ہو چکا ہے۔ جبکہ دیگر کا موقف ہے کہ یہ آفت محض وقتی طور پر ٹلی ہے۔ معاملہ اپنی جگہ پر موجود ہے۔ خود وزیر تعلیم اس متعلق ایک تیسرا موقف بیان کرتے ہیں۔ معاملات پردہ اخفا ء میں ہیں اور کچھ ذمہ داران اس قصے پر بات کرنے سے گریزاں۔ ان معاملات کا تفصیلی ذکر اگلے کسی کالم میں۔

۔ ۔ ۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments