چین والے اور پاکستانی طلبہ


”میں اپنے مقالے کے نامکمل پرنٹ ہوئے اوراق تھامے اینچھی کی بارش سے بھیگی سڑک پر تنہا گھومتی تو میرے آنکھوں سامنے زندگی کی فلم چلتی اور دل پسیج کر رہ جاتا“ ۔ یہ ہیں الفاظ چائینا‏‏ یونیورسٹی آف جیو سائنسز ووہان کی طالبہ ماہ وش منظور کے جو کرونا وبا کے باعث ووہان سے کوسوں دور اینچھی میں محصور تھیں۔ کسی طالب علم کے لئے منطقی مقالے کی تکمیل کس حد تک جذباتی تناؤ کا باعث ہوتا ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے خاص طور پر جب محنت اور امیدوں پر پانی پھرتا نظر آئے۔

تمام آزمائشوں کے باوجود پاک فضائیہ کے ایئر مین کی بیٹی فضائیہ سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور وہاں سے ووہان پڑھنے کو آئی تھی۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ ما ہ وش پر ہم سب ہی نازاں ہیں۔ ہم بین لاقوامی درس گاہوں میں اعلیٰ تعلیم کے خواب دیکھتے ہیں تو خواب کو تعبیر کی شکل ماہ وش نے اپنی محنت کے بل بوتے پر دی۔

چین میں کرونا وبا نے ہنگامی صورتحال پیدا کی تو ماہ وش منظور ووہان کی بجائے صوبہ ہوبائے کے جنوب مغربی شہر اینچھی میں تھیں ان کا یہ سفر انفرادی طور پر بہت سی مشکلات سے دوچار رہا۔

ابھی چین کی مرکزی حکومت نے کرونا وائرس کے انسداد کے لئے صوبہ ہوبے میں لاک ڈاؤن کا نفاذ نہیں کیا تھا۔ ووہان، جو کرونا وائرس کے اٹھاؤ کا مرکز بنا وہاں غیر ملکی طلبہ کی کثیر تعداد موجود ہے۔ ان ہی میں پاکستانی طلبہ بھی موجود ہیں، کچھ طلبہ وطن واپسی کے لئے کوشاں تھے بقیہ کو خدشہ تھا کہ ان کی جلد بازی کے باعث وائرس پاکستان منقل ہو سکتا ہے۔

ماہ وش اور ان کے پانچ ساتھی لاک ڈاؤن کے عین دو روز قبل اکیس جنوری کو ییچھانگ اور اینچھی کے لئے روانہ ہوئے۔ ییچھانگ، ووہان کے بعد صوبہ ہوبے کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ ان کا ییچھانگ اور اینچھی میں قیام فقط چار روزہ تھا اور پچیس جنوری کو ان کی ووہان واپسی کی پرواز تھی۔

ماہ وش اور ان کے ساتھی اینچھی پہنچنے کے ساتھ ہی وہاں محصور ہوئے جب تئیس جنوری کو صوبہ بھر میں مکمل لاک ڈاؤن ہوا جبکہ چوبیس جنوری کی شب ان کو مطلع کیا گیا کہ ووہان جانے والی پرواز بھی منسوخ کر دی گئی تھی۔

اینچھی میں ہوٹل انتظامیہ کو یہی علم تھا کہ طلبہ ووہان سے نہیں بلکہ یچھناگ سے آئے تھے۔ حالات کی سنگینی کے ساتھ ہوٹل انتظامیہ نے ہوٹل بند کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے تمام مسافروں کو جانے کا کہہ دیا۔ اس دوران ان کے ہر روز دو سے تین ہزار ین خرچ ہو رہے تھے جس کے باعث پیسوں کی کمی درپیش رہی۔

ماہ وش نے اپنے پروفیسر ہوچانگ جو بین الاقوامی سٹوڈنٹس کے ڈین ہیں سے رابطہ کرتے ہوئے موقع کی نزاکت سے آگاہ کیا۔ پہلے تو ڈین نے طلبہ پر برہمی کا اظہار کیا جو یونیورسٹی کو بتائے بنا ووہان سے نکلے تھے، ساتھ ہی انہوں نے طلبہ کو اینچھی میں قیام کی نصیحت کی اور ایک سرائے میں اپنے طلبہ کی رہائش کا بندوست کیا۔ ووہان سے آمد کی بنیاد پر طلبہ دو ہفتے قرنطینہ کرنے کے بھی پابند تھے۔ اس وقت معلوم ہوتا تھا کہ کچھ دنوں تک حالات بہتر ہو جائیں گے۔

ماہ وش کے ساتھیوں میں حیدر آباد سے تعلق رکھنے والی سیرت العین بھٹو، اسلام آباد سے نبیلا اختر، ڈیرہ اسماعیل خان سے شعیب بلوچ، ایران کے شہر شیراز سے سارہ پیدار اور ہندوستان سے ڈاکٹر عارف شامل تھے۔ ڈاکٹر عارف ایک ہفتے بعد بھارتی خصوصی پرواز کے ذریعے بھارت روانہ ہوئے جبکہ ڈاکٹر سارہ پیدل بدقسمتی سے ایرانی پرواز سے مجروم رہیں۔

ماہ وش کے مطابق دو ہفتے کے قرنطینہ کے بعد حالات نے مناسب رخ اختیار نہ کیا۔ وہ اور ان کے ساتھیوں کے پاس کھانے کو اپنا کچھ نہ تھا اور وبا کے بڑھنے، اموات کی خبروں نے سب کو خوف میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اس دوران مقامی حکومت کے متعین کردہ عہدیداد بشمول پولیس اہلکار دن میں دو مرتبہ ان کا بخار اور وبائی علامات کی پیمائش کرتے رہے۔

ہوٹل کی نگہبان چینی خاتون لاک ڈاؤن میں نرمی کے اوقات میں پاکستانی طلبہ کے لئے اشیائے خورد و نوش خرید کر تواتر سے مہیا کرتی رہیں، انہوں نے الگ سے برتن اور باورچی خانہ فراہم کیا جس میں حلال طریقے سے کھانا پکایا جاسکے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انواع و اقسام کی اشیائے خورد و نوش وافر مقدار میں موجود تھیں، یہ بات ذہن میں رہے کہ ملک بھر میں لوگ بے یقینی اور ہنگامی صورتحال کا شکار تھے اس دوران سودا سلف کا مل جانا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ سبزی میں اکثر آلو اور اجناس میں پاستا ہی ملا کرتا۔

خواتین طلبہ ایک ہی کمرے میں رہنے پر مضر تھیں، جن حالات میں سب کا ایک ساتھ رہنا اور بیمار پڑ جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سب کو ایک دوسرے کے لئے اپنا خیال اور اپنے لئے سب کا خیال رکھنا لازم تھا۔ ہر وقت کچھ کھانے اور کوئی شے استعمال کرنے سے پہلے صرف کرونا وبا کا اندیشہ سر پر چھایا رہتا۔ اس دوران سفارتخانہ رابطے میں تو تھا مگر حکومت طلبہ کو واپس لانے کی خواہاں نہیں تھی۔ اینچھی میں ماہ وش کو گمان تھا اگر خصوصی طیارہ آ بھی گیا تو وہ اینچھی ہی رہ جائیں گی۔

ماسٹرز کے آخری سال میں طلبہ کو تھیسس مکمل کرنے کی عجلت تھی جبکہ آخری تاریخ بھی سر پر آن کھڑی ہوئی۔ ماہ وش کے پاس لیپ ٹاپ تھا نہ ہی تحقیق کی غرض سے اکٹھا کیا گیا مواد۔ یونیورسٹی میں رابطہ کرنے پر ان کو تسلی دی گئی کہ وہ اپنا سال بڑھا سکتے ہیں اور دسمبر کے اوائل میں ریسرچ مکمل کر دیں تو مناسب رہے گا۔ ماہ وش کی سوچ اس کے بر عکس تھی جو تعلیمی سال کو طول نہیں دینا چاہتی تھیں۔ جب ہی انہوں نے ہوٹل ریسپشنسٹ سے ڈیسک ٹاپ استعمال کرنے کی اجازت چاہی۔

ماہ وش کے مطابق محدود اوقات اور چینی زبان میں ڈیسک ٹاپ استعمال کرنا پل صراط پار کرنے سے کم نہ تھا۔ ہر بار چینی زباں سے انگریزی میں فارمیٹ کو بدلنا حواس باختہ کرنے والا تو تھا ہی مگر ریسرچ ڈیٹا نہ ہونا مصائب میں اضافہ کر رہا تھا جو ووہان کے بند ہوسٹل کے کمروں میں پڑے لیپ ٹاپ میں تھا۔ ووہان میں یونیورسٹی تو بند ہو ہی چکی تھی، غیر ملکی طلبہ بھی اپنے وطنوں کو روانہ ہو چکے تھے۔ اس دوران وہ ہوسٹل انتظامیہ سے دن میں کئی بار فون پر منت کرتی کہ ان کے کمرے میں جا کر لیپ ٹاپ سے ڈیٹا ان کو ارسال کر دیا جائے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا تھا کیونکہ ووہان میں ہو کا عالم تھا اور ترسیل کے تمام ذرائع ناپید تھے۔ اس دوران جرمنی چلی جانے والی ماہ وش کی لیب میٹ نے ریسرچ ڈیٹا تک رسائی ممکن بنائی۔

اسی دوران ماہ وش نے ہوٹل کے ساتھ گھر میں مقیم چینی لڑکی سے اس کے لیپ ٹاپ استعمال کرنے کی درخواست کی۔ چینی طالبہ نے رات کے اوقات کے لئے اپنا ذاتی لیپ ٹاپ دینے کی حامی بھری۔ صبح کے اوقات میں آن لائن کلاسز کے لئے لیپ ٹاپ چینی لڑکی استعمال کرتی تو رات بھر ماہ وش۔

یہی نہیں مقامی باسی اکثر کھانے کی اشیاء طلبہ کو تحفتاً دیا کرتے۔ ویمن فیڈریشن آف اینچھی نے بڑھ چڑھ کر محصور پاکستانی طلبہ کی داد رسی کی۔ ماہ وش اور ان کے دوستوں کی فائنل ریسرچ کی تکمیل کے لئے ویمن فیڈریشن کی نمائندہ نے اپنے دفتر سے لیپ ٹاپ لاکر طلبہ کو دیے اور ڈیٹا تک رسائی یقینی بنائی۔

چینی شہریوں کی بے مثال امداد کے ساتھ جس روز ماہ وش نے مقالہ مکمل کیا، اسی روز خبر آئی کہ اینچھی میں بہت حد تک متعدی وبا پر قابو پالیا گیا ہے اور آہستہ ہستہ شہر کی رونقیں بحال ہونے لگیں گی۔

اینچھی کے کمیونسٹ پارٹی کے رہنما حی قیوحا کا کردار مشفقانہ رہا جنہوں نے طلبہ کے بہت سے معاملات سلجھائے۔ کمیونسٹ پارٹی کے مقامی رہنماؤں نے پاکستانی طلبہ کو اینچھی کے مقامات کی سیاحت کی پیش کش کی۔ ماہ وش کہتی ہیں کہ انہوں نے کہا آپ یہاں گھومنے آئے تھے تو اب ہمارا فرض ہے کہ آپ کو سیر وتفریح کے بنا ووہان نہ جانے دیا جائے۔ ماہ وش کے مطابق اپنائیت اور انسانیت انہوں نے اینچھی کے باسیوں میں دیکھی وہ ناقابل بیان ہے جس کی ممنون وہ ہمیشہ رہیں گی۔

ووہان واپسی سے قبل اور بعد ان دوستوں نے مزید چودہ چودہ روز کا قرنطینہ کیا۔ پچیس جنوری سے تین اپریل تک یہ پاکستانی چینی شہریوں کی محبت اور انسان دوستی کے سہارے ہی رہے جبکہ مارچ میں پہلی بار حکومت پاکستان نے طلبہ کو فی کس پچھتر ہزار کی رقم ادا کی۔ ماہ وش اور ان کے ساتھی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ان کی زندگی کے مشکل ترین دن اگر آسان ہوئے تو چینی عوام کے حد درجہ تعاون اور خلوص کی وجہ سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments