سبکدوشی کی کہانی


” بھائی صاحب! یوں سمجھ لیجیے کہ جتنا کوئی شخص اپنی موت کے لئے تیار ہوتا ہے، کم و بیش اتنا ہی تیار نوکری چھوٹ جانے کے لئے بھی ہوتا ہے“ ۔

یہ جملے آج سے کچھ سال قبل، ہمارے ایک عزیز نے جو ایک فرم میں کافی عرصے سے آپریشنل مینیجر تھے، رخصتی کا رقعہ تھمائے جانے کے بعد ہم سے کہے تھے۔

نوکری کا چلا جانا ہم نے بس اتنے ہی قریب سے دیکھا تھا۔

ہم عرصہ دراز سے ایک ایسی نامی گرامی کمپنی میں کام کر رہے ہیں جو جاب سیکیورٹی کی وجہ سے مشہور ہے۔ سنہ 2020 کی آمد البتہ جہاں ہر شے کو تہ و بالا کرنے کا سبب بنی ہے، وہیں اس نے فضائی اداروں کا حال، زمین میں اور مستقبل ہوا میں معلق کر دیا ہے۔ آسمان کی رفعتیں چھونے والی کمپنیوں کو زمین کی پستیاں اب دونوں آنکھوں سے گھور رہی ہیں۔ اس صورتحال میں اب وہی ہو رہا ہے جس کا کسی کو ڈر تک نہ تھا کہ گمان ہونی کا ہوتا ہے، انہونی کا نہیں۔

ابتدا میں ایک میگزین نے خبر اڑائی کہ افرادی قوت میں تیس فیصد کٹوتی ہو گی۔ تین دہائیوں سے کمائی گئی ساکھ، تین ماہ کے اندر عین جوانی میں خم رسیدہ ہو گئی۔ بے یقینی اور بے چینی کے غبار نے ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں سدا سے موجود آسودگی کی فضا کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ فکر معاش سے آزاد، ہنستے کھیلتے احباب کے چہروں سے وسوسے جھانکنے لگے۔ پریشانیاں، پیشانیوں پر اتر آئیں۔

ہمارے لئے یہ بالکل انجان اور تکلیف دہ مرحلہ تھا۔ پے در پے حادثات کا تسلسل ہم ملازمین کے لئے ایک ایسے سفر کا سبب بنا جس کی پہلی منزل خوف ہوتی ہے۔ ہماری توکل مزاجی نے گو وہاں لمحہ بھر توقف تو ضرور کیا مگر پڑاؤ نہ ڈالا۔ البتہ ہم نے بہیتروں کو وہاں خیمے گاڑتے دیکھا۔

آسائشات میں سوائے اس کے کوئی برائی نہیں ہوتی کہ یہ اپنا عادی بنا دیتی ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو دھوپ سے بچاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ مضبوط شجر کی نمو دھوپ سے مشروط ہوتی ہے۔ ہم سب کی یہی کہانی ہے۔

اور پھر وہ دن بھی آ گیا جب خدشات حقیقت بن گئے۔ برسوں ساتھ کام کرنے والے ایک ایک کر کے جدا ہونے لگے۔ کیا ستم ہے کہ ہم میں سے اکثر اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ قرب کی آغوش میں ہجر پرورش پاتا ہے۔ وصل کا لازمہ جدائی ہے۔

برسوں سے شناسا لوگوں کی اچانک ہجرت خانہ دل کو ویران کر گئی۔ جن سے روز ملتے رہے، ساتھ بیٹھ کر ایک میز پر گھروں سے آنے والا نمک کھاتے رہے، ایک دوسرے کو بنا کر دی گئی چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے سیاست پر بے تکان بحث کرتے رہے، وہ اک دن اچانک جاب پر حاضر نہ ہو سکے۔ کینٹین میں مصالحہ دوسہ کھاتے ہوئے مالاباری اردو میں گاؤں کے حسن کے تذکرے کو سماعت اب یقیناً ترسے گی۔ کینیا کے قبیلوں کی اس انوکھی روایت کو اب کون بیان کرے گا کہ تیرہ سال کی عمر میں نرینہ اولاد کو گھر سے باہر مٹی کا ایک کمرہ بنا دیا جاتا ہے جہاں گھر کی خواتین قدم نہیں رکھ سکتیں۔

ملائشیا میں کیسے بغیر مٹی کے فصلیں اگائی جاتی ہیں، سوئٹزرلینڈ کے برف پوش پہاڑوں اور مدہوش کر دینے والی حسین جھیلوں کے درمیان بچپن کیسے گزارا جاتا ہے۔ فلپائن کی تہذیب کا وہ کون سا عنصر ہے جس کی کوکھ سے قابل رشک ورکنگ کلچر جنم لیتا ہے۔ انڈونیشیا کے قدیم، بے لباس قبیلوں کی کتھا سنانے والی آوازیں دفعتاً خاموش ہو گئیں۔

فطرتا انسان نعمت کے دائمی ہونے کا معترف ہے۔ رجائیت کا حد سے بڑھ جانا حقیقت سے غافل کر دیتا ہے۔ مگر جب حالات بگڑنے لگیں تو نعمتوں کے چھن جانے کے اندیشے سر اٹھاتے ہیں جن کی دہشت، نعمتوں کے پا جانے کی طمانت سے کہیں سوا ہوتی ہے۔ ہمارے چارسو یہی حال تھا۔

شکستہ دلی سنبھلی تو جانا کہ بھنور میں محسوس تو کیا جا سکتا ہے، دیکھا نہیں جا سکتا۔ مشاہدہ کے لئے بھنور سے باہر نکلنا ضروری ہے۔ باہر نکلے تو دنیا کوحیرت کدہ پایا۔ ان وحشت زدہ لوگوں سے ملے جن کو چراغ رزق گل کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ گمان یہی ہے کہ فیصلے کی پل صراط سے گزرتے ہوئے انہوں نے مشکل کشائی کے لئے عدل کا عصا تھام رکھا ہو گا کہ کس کو یارا ہے کہ یوم جزا ظلم کے طوق گراں سے اپنے آپ کو زیر بار کرے۔

گو کہ پریشان ہر کوئی تھا البتہ متاثرین کو دو واضح گروپ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک گروہ وہ جس نے اپنے اپنے ملکوں میں سائباں بنا لیا تھا۔ دوبئی کے ماحول میں رہتے ہوئے مادیات کی چکاچوند ان کی نظروں کو خیرہ نہ کر پائی تھی اور وطن بھیجے جانے والی بچت کی رقوم ان کے لئے ایک گو نہ اطمینان کی باعث تھی کہ کچھ آسرا تو ہے۔

دوسرا گروہ متوشش اور پریشان افراد پر مشتمل تھا۔ انہوں نے دوبئی کی آسائشات کا گرچہ کہ مزا خوب لوٹا تھا۔ مگر اب یہ تہی داماں تھے۔ دنیا میں آخرت کمانے والے شاید وقت نزع پہلے گروہ کی طرح مطمئن رہتے ہوں گے۔

ہمارے ایک دوست نے ہمیں بتایا کہ یہ خبر انہیں کچھ اس طرح ملی۔ ”مارک کے ٹیلیفون سے آنکھ کھلی۔ دو منٹ کی گفتگو میں کمپنی کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے، قدرے ندامت سے اس نے میری برخواستگی کا اعلان کیا۔ میں نے فون رکھنے کے بعد جا کر وضو کیا اور دو رکعت شکرانے کی نفل پڑھیں کہ مولا تو نے انجام بخیر کیا۔ عباس! کچھ دوست یار بہت پریشان ہو رہے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ سوچو جب پندرہ سال قبل ہم وطن سے چلے تھے تو متاع حیات کل دو بکس تھے۔ ایک میں چادریں اور بستر تھا اور دوسرے میں کپڑے۔ اب جب یہاں سے جا رہے ہیں تو ہمارے پاس کیا کچھ نہیں ہے۔ ۔ !“

دوستوں! خالق سے دعا ہے کہ اس سحاب توکل کی کچھ بوندیں میرے وجود کو بھی جھل تھل کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments