نرگس بیمار کا احوال اور رشک پری پیش چشم کی حکایت


(برادر محترم محمد اقبال دیوان پار سال اپنے ایک قریبی عزیز کی تیمارداری کے ضمن میں تین ماہ امریکہ میں مقیم رہے۔ ہر چند کہ وجہ سفر اضطراب اور تشویش سے عبارت تھی، دیوان صاحب کے مشاہدات امید اور انسانی ہمدردی کا ایک حوصلہ افزا باب معلوم ہوئے۔ طے پایا کہ ہم سب کے پڑھنے والوں کو اس دنیا کے کچھ قصے سنائے جائیں اور جہاں ممکن ہو، لفظ کے نقش کو تصویر کی مدد سے مزید گہرائی دی جائے۔ اقبال دیوان طبعاً “لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم” کے قائل ہیں لیکن ہم نے انہیں بتا دیا کہ ہم سب کے پڑھنے والے قسطوں کی مالا سے خائف ہوتے ہیں۔ ہر قسط اپنے طور پر مکمل رہے گی اور عنوان بھی موضوع کی مناسبت سے دیا جائے گا۔ دیوان صاحب نے دوست دار طبیعت پائی ہے۔ خوش دلی سے مان گئے۔ تو لیجئے، نیویارک کی گلیاں اور پھر بیان اقبال دیوان کا۔۔۔ و – مسعود)

٭٭٭        ٭٭٭

مرحلہ بے حد دشوار تھا اور دکھ بہت نجی۔ ہم ہسپتال میں تھے جہاں ایک قریبی عزیز کی تیمارداری بادل نخواستہ مقدور ٹھہری تھی۔ ہسپتال امریکہ کے شہر نیویارک میں تھا۔ یہودیوں نے اسے ان دنوں تعمیر کیا تھا جب ہم 1857 کی جنگ آزادی میں غداروں کا ایسا گروہ دریافت کررہے تھے جس کی فتوحات خانگی جاگیروں اور آبائی حلقوں کی صورت میں ہم پر آج بھی حکمران ہیں۔ وہ سب جو بیمار ہوں تو علاج کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں۔ ادھر اہل یہود کے دریا دل عطیات کو روپوں میں جوڑیں تو ایک سادہ سے کیلکولیٹر پر ہندسے ختم ہو جاتے ہیں۔ عاجزی ایسی کہ معطیوں کے نام راہداریوں کے فرش پر کندہ ہیں کہ یہ سب جاں دادہء ہوائے سر گزار ہیں۔ ہمارے ہاں تو ساڑھے بارہ ہزار کا سرکاری امداد کا چیک بھی کسی مفلس کو پکڑانا ہو تو وزیر صاحبہ اپنی پارلر والی مشاطہ کو صبح سویرے گھر پر ہی بلوا لیتی ہیں۔ کیمرہ مین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ میرے گیسوئے حریری کی گولڈن اسٹریک لازماً دکھائی دینی چاہیے۔ بڑے صاحب کا دل اسی جدا رنگ اسٹریک پر ہی تو آیا تھا۔ یہ اور بات کہ فرمائش الجھی لٹ سلجھانے کی تھی مگر صاحب بہادر کا پاؤں ایسا رپٹا کہ ضمیر کے جوڑ بند ہمیشہ کے لئے معذور ہو گئے۔

دیکھیے بات سے بات نکلتی ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں امریکہ میں یہودیوں کی آمد کے ابتدائی برس تھے۔ یہودیوں کا بڑا ریلا تو 1880 کے بعد امریکہ پہنچا۔ افلاس کی وہی صورت تھی جو پناہ گیر قافلوں کو دنیا بھر میں پیش آتی ہے۔ مگر یہ کہ صدیوں سے امتیاز۔ محرومی اور گروہی تشدد کی مار کھائے گھرانوں کو نئی دنیا نے پناہ دی تو جانکاہ محنت اور اپنا مقام بنانے کی لگن نے ایک جنون کی صورت اختیار کر لی۔ ایک بہت مزے کی کتاب Irving Howe نے ٹھیک ایک صدی بعد 1976 میں لکھی تھی۔ World of Our Fathers۔ اگر کہیں سے مل سکے تو ضرور پڑھیے گا۔ پائی پائی کماتے ہوئے جو اصل اثاثہ جمع ہوتا ہے وہ تعلیم، اپج، تمدن اور سیاسی رسوخ کی ٹکسال میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے لوگ بینکوں کی عمارات اور قطار اندر قطار ایستادہ کمپنیاں دیکھتے ہیں، اس پر غور نہیں کرتے کہ تیل کی دولت تو خلیج والوں پر بھی ہن بن کر برسی تھی جو لاس ویگاس کے جوا خانوں میں صرف ہو گئی۔ ہم شہر میں اک شمع کی خاطر ہوئے برباد۔ ۔۔۔

میں بتا رہا تھا کہ ہمارے مریض کو جس ہسپتال میں داخل کیا گیا وہ یہودی کمیونٹی نے قائم کیا تھا۔ یہاں پر ہمارے حصے میں دن کی تیمارداری آئی تھی۔ سویرے مین ہٹن کے پارک ایونیو سے اپ ٹائون (وہ جو شہر کے مرکز ڈائون ٹائون سے مضافات میں جاتی ہو) سب وے ٹرین میں سوار ہوکر 125 نمبر گلی کے اسٹیشن پر اتر جاتے۔ یہ بڑا اسٹیشن تھا۔ پر رونق مگر یہاں سے آگے ٹرین نمبر چار میں ہم سوار ہوتے۔ ہمراہیوں کی اکثریت صاف ستھرے زیادہ تر فربہ اندام، سیاہ فام، ملازمت پیشہ مسافروں پر مشتمل ہوتی۔

125 نمبر گلی کے اسٹیشن پر ایک بیٹری سے تار جوڑے اپنے مائیکروفون پر گاتی ایک لڑکی کا انہماک، اس کی آنکھوں میں بڑی گلوکارہ بننے کے سپنے ہمیں بہت بھلے لگتے۔ اس کو گاتا دیکھ اس کی تیر نگاہ کے گھائل ہم جیسے من چلے نوجوان می رقصم، می رقصم کہہ کر مرغ بسمل بن جاتے ہیں۔

سڑکوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر گانا بجانا  busking کہلاتا ہے۔ اس کے عوض انہیں جو رقم ملتی ہے وہ gratuities کہلاتی ہے وہاں ٹپ کو بھی اسی نام سے پکارا جاتا ہے بار اور ہوٹلز میں یہ بل کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جاپان میں ٹپ یا ایسی کسی بخشش کو ادارے اور ملازم کی تحقیر سمجھا جاتا ہے

ریاست امریکہ کے بانی رہنمائوں میں شامل وہاں کے بہت بڑے دانشور بنجمن فرینکلن بھی کبھی  busking کیا کرتے تھے۔ آج بھی کئی مشہور گلوکار اور موسیقار کبھی کبھا ر بھیس بدل کر بطور Busker اپنے فن کے نمونے پیش کرتے ہیں۔ شہرت کی تمنا، گمنامی کا خوف ہے۔ گمنام بن کر جینا آ جائے تو زندگی وہ تماشے دکھاتی ہے جس کا مشہور آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہر وقت شہرت کے گلاس ہائوس میں جینے والوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ کپڑے کہاں تبدیل کریں۔

مشہور فن کار جو کبھی گلوکارہ میڈونا کی طرح شدید غربت کا شکار تھے وہ اپنے پرانے دن یاد کرنے کے لیے آج بھی چلے آتے ہیں۔ مقصد صرف یہ کہ انا کی فنا ہو۔ جن غریب افراد کے لیے وہ ایک دفعہ پرفارم کر کے ان کی مسرتوں کا جائزہ لیں۔ وہ افراد جنہوں نے ان کی ان کی کس مپرسی کے دنوں میں سر راہے انہیں پسند کیا تھا اور حتی المقدور امداد کی، جب وہ بے نشان و گمنام تھے۔ یہ مشہور افراد گاہے بہ گاہے ایسے ہی کسی سب وے اسٹیشن پر ایسی ہی کسی سڑک پر بھیس بدل کر پرفارم کرنے آجاتے ہیں ان عمر رفتہ کو آواز دینے والے میں آپ مشہور گلوکارہ کرسٹینا ایگ لیرا، ملی سائرس اور مشہور بینڈ مرون-5 بھی کو بھی شامل کرلیں۔ لوگ انہیں بھی تمیز سے سنتے ہیں۔ کچھ لوگ ان کے ڈبے میں سکے بھی ڈال دیتے ہیں۔ گو یہ فن کار اب ارب پتی ہیں مگر رسم و راہ دنیا بھی تو کوئی چیز ہے۔ نوآموز فن کاروں کو اس سے کچھ پاکٹ کیش، بہت سی خود اعتمادی اور مفت کا ایک تعارف بھی مل جاتا ہے کہ اسٹیشن پر کبھی ہمارے جیسے اے آر رحمن بھی منڈلاتے رہتے ہیں۔ نیویارک میٹرو کے قانون Entertaining on the Subway کی شق Section 1050.6  کی پابندی ان فن کاروں پر لازم ہے اور اس کی پنتالیس ڈالر لائسنس فیس بھی ہے۔

ہماری ٹرین کے سفر کا جہاں اختتام ہوتا ہے، وہاں ایک پاکستانی ریستوراں ہے۔ یہاں سے ہم مریض کے لیے بریانی اور کھیر لیتے ہیں۔  مریض کو اس ہوٹل کی بس ان دو ڈشز پر اصرار ہوتا تھا۔ ہسپتال کے بن تیل اور مرچ کے صحت بخش کھانے انہیں ناپسند تھے۔ یستوراں میں ملنے کو تو اور بھی ڈشز ملتی ہیں۔ مالکن کا تعلق شیخوپورہ کا ایک گھرانہ ہے۔ اس گھرانے کا ایک چراغ روشن جواں جہاں پنجابن سیما ہیں۔ ان کی ادائوں کی تراوٹ دیکھو تو 1968ء مین بننے والی فلم راجہ اور رنک کا وہ گیت کہ “میرا نام ہے چنبیلی میں ہوں مالن البیلی، نہاں خانہ دل کے بیڈ روم میں بجنے لگتا ہے۔

 ہم نے نوٹ کیا کہ اس کے عشق میں ایک مہاجر اوبر ڈرائیور بھی یہاں روز آ جاتا ہے۔ سبز قنچہ آنکھوں والا عبید۔ سسرے نے مان کر نہیں دیا کہ اسے کراچی میں یونٹ یا سیکٹر والے عبید قنچہ کہتے تھے۔ کم بخت بہت ہی ہینڈ سم، خوش گفتار اور معاملہ فہم ہے۔ اداکار جارج کلونی کی جوانی لگتا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ مہاجروں میں ایسا ہینڈ سم انسان کیسے پیدا ہوگیا۔ ان کے ہاں تو جون ایلیا اور کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کو بھی ہینڈ سم سمجھا جاتا ہے۔ ہنس کے کہنے لگا اماں سوات کی ہیں۔ لگتا ہے ابا نے زیادہ پیسوں میں خرید کر شادی کی۔ وہ مائننگ انجئینر تھے۔ کسی ایم این اے نے پیسوں کے عوض امریکہ کا ویزہ لے کر اسے بھجوا دیا۔ کہتا تھا کراچی میں پارٹی کے سپورٹ سے بہت بھتے وصول کیے۔ آدھے جیب میں ڈالے۔ اسی رقم سے ویزہ خریدا۔

ہم وہاں آجا تے ہیں تو دونوں ہم سے باتیں کرتے ہیں۔ دیکھتے صرف ایک دوسرے کو ہیں۔ سیما پنجابن کو کراچی کے فیشن سین سے دل چسپی ہے۔ عبید مہاجر کو لیاری گینگ وار کے کرداروں کی کھوج ہے۔ ہم کو فرح طالب، بنتو کاظمی، نومی انصاری، پروانی اور سنیتا مارشل کا پتہ تھا۔ عذیر بلوچ کے والد فیض محمد، رحمن ڈکیت، اقبال بابو، شانی، واجہ انور بھائی جان شہلا سموں سب کو جانتے تھے

ہماری ہسپتال میں آمد بارہ بجے دوپہر سے پہلے ممکن نہیں ہو پاتی۔ ریل گاڑی کے حساب میں پڑ کر ہم یہاں پونے گیارہ بجے صبح آجاتے ہیں۔ لگتا ہے عبید میاں کے پیار کی بیل منڈھے چڑھی تو وہ کامیاب ہوکر اس کے کاروبار میں شامل ہو جائیں گے۔ سیما کے والد دو ایک مرتبہ ہم سے پوچھ چکے ہیں کہ عبید کیسا لڑکا ہے۔ ہم نے کہا کہ مہاجر پنجابیوں کے ساتھ کا کیا پوچھتے ہو۔ بریانی میں گوشت اور چاول کا ساتھ ہے۔ یہ دونوں قوم والے جب تک کم بخت سول سروس میں ایک دوسرے سے جڑ کر رہتے تھے، پاکستان کے وارے نیارے تھے، بغیر چندے کے ڈیم بھی بن جاتے تھے اور کراچی کا امراض قلب کا ادارہ اور ایٹم بم بھی ان دونوں ہی نے مل کر بنایا تھا۔

اور اب مریض کی ذہنی کیفیت کا بتائیں

دو ماہ سے ایک بڑے آپریشن کے بعد ٹانگ ایک بریس میں قید تھی۔ بھرپور زندگی گزارنے والا نوجوان دو ماہ سے ایک بستر پر تھا۔ دل گرفتہ، رنجور، مایوس۔ علاج کی مزید طوالت اور اس سے جڑی سماجی تکالیف نے سوچ کو بوجھل، تاریک اور بے لطف اور مستقبل کو غیر یقینی بنادیا تھا۔ مریض سے گفتگو کریں تو لگتا تھا جینے کے حوالے معدوم تھے اور امنگ بہت موہوم۔

ہم اس ہسپتال اور اس کے نظام کی دیگر خوبیوں کو نظر انداز کر کے یہاں صرف چار افراد سے مکالمے کو موضوع سخن بنائیں گے۔ چند نام ہم نے مریض کی Privacy اور احتیاط کی وجہ سے بدل دیے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ ان نکات پر غور کر کے شاید کسی کے دل پر کوئی اچھا اثر ہو اور تعصبات کے جن جالوں نے یہودیوں اور مغرب کے بارے میں ہمارے اذہان کو جکڑ رکھا ہے۔ ان سے نجات ہو۔ ہم دوسروں کو برا سمجھے بغیر بھی اچھے بن سکتے ہیں۔ ان کے تعریف بھرے حوالوں کو آپ مصطفے زیدی کی نظم بے سمتی سے ماخوذ ان تین لائنوں کی روشنی میں پڑھیں گے تو بات اور بھلی لگے گی کہ ع

میرے وطن، میرے مجبور، تن فگار وطن

میں چاہتا ہوں، تجھے تیری راہ مل جائے

میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو

مریض کی سرجری مطلوب تھی۔ آپریشن کا وقت صبح چھ بجے تھا۔ ڈاکٹر صاحب نہ صرف امریکہ میں اپنا نام رکھتے ہیں بلکہ ان کا تعلق یہودی Old Money والے گھرانے سے ہے۔ ایسے گھرانوں کی مالی استطاعت، بین الاقوامی رسائی قابلیت اور علمیت کا اندازہ پاکستان میں بیٹھ کر لگانا آسان نہیں۔ ہسپتال سے قریباً ستر میل دور ایک چھوٹے سے قصبے میں ایکڑوں پر پھیلے گھر میں رہتے ہیں۔ اڑوس پڑوس سے امارت کا اندازہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے ایک دن پہلے طبی معائنے میں رپورٹس کے فیصلے سے فارغ ہو کر دو احکامات جاری کیے۔ مریض کی والدہ کے لیے حلال کھانا اور اور چونکہ موسم رات سے بتدریج بگڑ جائے گا لہذا کمرہ انہیں سر شام ہی دے دیا جائے۔ ایک نرم گفتار نرس کی ڈیوٹی لگائی کہ شام کو وہ مریض کو آئی پیڈ پر ان کی سرجری کے حوالے سے تمام تفصیلات سے آگاہ کرے۔ مریض کی آگاہی اوراطمینان علاج کا اولین مرحلہ اور اس کا بنیادی حق ہے۔

رات بہت سردی کی تھی اور مینہ بھی خوب برستا تھا۔ پانچ بجے صبح جب مریض کو Prepare کرنے کے لیے ہسپتال کا عملہ آیا تو ایک اور مستعد گھرانہ بھی وہاں موجود تھا۔ ماں، باپ اور ان کی نوجوان صاحبزادی۔ ان کی موجودگی سمجھ نہ آئی تو لڑکی نے دریافت کرنے پر بتایا کہ اس کے بھائی کا طبی مسئلہ بھی اسی نوعیت کا تھا۔ وہ یہاں آن کر ٹھیک ہوگیا۔ آج کل یہاں سے دو ہزار میل دور کسی جگہ پر اپنی پڑھائی مکمل کر کے ایک کامیاب اور پروفیشنل زندگی گزار رہا ہے۔ جب ایسا کوئی آپریشن ہوتا ہے تو ہم مریض اور اس کے گھرانے کی تسلی اور وضاحتوں کے لیے خود آتے ہیں۔ ایک فنڈ بھی ہم نے قائم کیا ہے۔

ہم نے پوچھ لیا کہ صبح کے ساڑھے پانچ بجے ہیں، جانے ڈاکٹر صاحب اتنی دور سے وقت پرپہنچ پائیں گے کہ نہیں۔ لڑکی جس کا نامLilith  تھا کہنے لگی ڈاکٹر صاحب تو پانچ بجے سے اپنے کمرے میں موجود ہیں اور دو مرتبہ تھیٹر کا چکر لگا کر انتظامات کا جائزہ بھی لے چکے ہیں۔ آپ کا قیام سر دست یہاں غیر ضروری ہے۔ مریض کو تین بجے ری۔ کوری۔ روم میں لائیں گے۔ آپ اسے جھانک کر دیکھ تو سکیں گے۔ بات نہیں ہو پائے گی۔ ۔ بطور Attendant کل صبح تشریف لائیے گا۔ ہم بھی کل آئیں گے۔

اگلی صبح لیلتھ اپنے والدین کے ساتھ مریض کے کمرے میں موجود تھی اور اس سے انہماک سے محو گفتگو تھی۔ اس کے بھائی سے بھی سے مریض کی گفتگو ہو چکی تھی۔ بیماری کے نفسیاتی پہلو جن سے مریض کا پالا پڑتا رہے گا ان پر بہت وضاحت سے بات ہوئی تھی۔ ایک پیٹی پیک نیا نویلا لیپ ٹاپ بھی تحفے کے طور پر مریض کو اس بی بی نے بازار سے لا کر دیا تھا تاکہ مریض کا وقت دوران معالجہ اچھا گزرے۔

لیجئے، 1000 لفظوں کی حد تو کب کی ختم ہو چکی۔ آپ کے صبر کا مزید امتحان لینا مناسب نہیں۔ اس قصے کا اگلا حصہ جلد لے کر آتے ہیں۔۔۔۔

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments