پاکستان کی خواتین پولیس افسران سنگین مقدمات میں تفتیشی ذمہ داریوں کی منتظر


پولیس

نوشین (فرضی نام) ضلع گجرات کی رہائشی ہیں اور ان کی بیٹی کو کچھ عرصہ قبل علاقے کے کچھ بااثر لوگوں نے مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔

اس واقعے کی رپورٹ درج کروانے کے لیے جب وہ وہ متعقلہ تھانے گئیں تو پولیس نے پہلے تو روایتی سستی کا مظاہرہ کیا اور جب کارروائی شروع بھی کی تو وہ جنسی تشدد کا شکار ہونے والی بیٹی سے اس واقعے کے بارے میں پوچھتے رہے اور اس دوران مرد پولیس اہلکار ایسے سوالات بھی کرتے رہے جن کو سن کر ان کے سمیت وہاں پر موجود مردوں کو بھی شرم آنے لگی۔

نوشین نے جب ایسے سوالات پوچھنے پر اعتراض اٹھایا تو پولیس اہلکاروں کا مؤقف تھا کہ مقدمے کے اندارج سے پہلے جو ابتدائی تفتیش کرنی ہے اس میں ایسے سوالات کا پوچھنا ناگزیر ہے۔

نوشین نے بتایا کہ آدھے گھنٹے کی تفیتش کے دوران جب ایسے سوالات کا سلسلہ جاری رہا تو اُنھوں نے پولیس اہلکاروں کو کہہ دیا کہ وہ اس واقعے سے متعلق کوئی قانونی کارروائی نہیں کروانا چاہتیں۔

پاکستان میں ریپ کے ایسے بہت سے واقعات ہوتے ہیں، جن میں پولیس کے نامناسب رویے کے باعث متاثرہ خاندان اپنی عزت کے بچاؤ لیے اس کی پیروی نہیں کرتے۔

اکثر ایسے معاملات میں بااثر افراد کے دباؤ کی وجہ سے پولیس ان معاملات کو عدالتوں میں پہنچنے سے پہلے ہی ’باہمی رضامندی‘ کا رنگ دے کر ان کو ختم کروا دیتی ہے۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

ریپ کی گئی بچی سے ملزم کی موجودگی میں تفتیش ’انہونی بات‘ نہیں؟

پاکپتن کی ایس ایچ او: ‘کم از کم میں ان درندوں کو نہ چھوڑوں’

سوات: فرنٹیئر کانسٹبلری میں پہلی خاتون افسر کی تعیناتی

پاکستان میں اب اس حوالے سے یہ شعور زور پکڑتا جارہا ہے کہ ریپ اور دیگر جنسی نوعیت کے جرائم کے مقدمات کی تفتیش کرنے والی ٹیم کے ارکان میں خواتین پولیس اہلکاروں کو بھی شامل کیا جائے تاہم اس مطالبے کے برعکس ابھی بھی ایسے بیشتر مقدمات کی تفتیش مرد پولیس اہلکار ہی کرتے ہیں۔

پولیس

مرد اہلکار ہی گینگ ریپ کے مقدمات کی تفتیش کیوں کرتے ہیں؟

حال ہی میں نجی ہاوسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن میں ایک گھریلو ملازمہ کو مبینہ طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کرنے والے مقدمے کی تفتیش بھی ایک مرد پولیس افسر ہی کر رہا ہے جبکہ اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے ملزمان میں شامل ایک خاتون سے تفتیش کے دوران ایک لیڈی کانسٹیبل کو اس کمرے میں بیٹھایا جاتا تھا جہاں پر اس مقدمے کی تفتیش ہوتی رہی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے سنہ 2017 میں مظفرگڑھ میں ہونے والے ایک واقعے سے متعلق مقدمے میں فیصلہ دیا تھا کہ ریپ اور دیگر جنسی جرائم کے مقدمات کی تفتیش مرد پولیس اہلکاروں کی بجائے خواتین پولیس افسران سے کروائی جائے۔

سپریم کورٹ نے مزید یہ بھی کہا تھا کہ جس ضلعے میں یہ وقوعہ پیش آیا ہے اور وہاں پر خاتون پولیس افسر کو تفتیش کا تجربہ نہ ہو تو، یہ مقدمہ ایسے ضلعے میں بھجوا دیا جائے جہاں پر ایسی خاتون پولیس افسر تعینات ہو جسے سنگین مقدمات کی تفتیش کا تجربہ ہو۔

عدالت عظمی کے اس فیصلے کے برعکس ابھی بھی پولیس کے اعلی حکام کی طرف سے سنگین جرائم کی تحقیقات خاتون پولیس افسر کے بجائے مردوں سے کروانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پولیس کے حکام ابھی تک اس خوش فہمی سے ہی نہیں نکل سکے کہ سنگین مقدمات کی تفتیش مرد پولیس افسر کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سنگین مقدمات کی تفتیش میں مہارت رکھنے والے، پنجاب پولیس کے سابق ایس پی اشتیاق شاہ کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں خواتین افسروں کی نسبت مردوں میں تفتیش میں مہارت حاصل کرنے کی دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔

خواتین

پاکستان میں ریپ کے ایسے بہت سے واقعات ہوتے ہیں، جن میں پولیس کے نامناسب رویے کے باعث متاثرہ خاندان اپنی عزت کے بچاؤ لیے اس کی پیروی نہیں کرتے

اُنھوں نے کہا کہ آج بھی تفتیشی کورس کے سلسلے میں شہر کی پولیس کے سربراہ خواہش مند پولیس اہلکاروں سے درخواستیں طلب کرتے ہیں تو ان میں سے تفتیشی کورس میں دلچپسی ظاہر کرنے والوں میں 99 فیصد درخواستیں مرد پولیس اہلکاروں کی ہی ہوتی ہیں۔

اشتیاق شاہ کا کہنا تھا کہ گینگ ریپ کے مقدمات میں تفتیش کے حوالے سے اتنی زیادہ محنت بھی نہیں کرنا پڑتی اور اس معاملے میں متاثرہ لڑکی یا عورت کا طبی معائنہ اور اس کا بیان زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر طبی معائنے میں ریپ ہونا ثابت ہو جائے اور متاثرہ فریق ملزمان کے خلاف بیان دے دے تو ایسے حالات میں تفتیش کے لیے کسی خاتون پولیس اہلکار کا شامل ہونا یا نہ ہونا، اہمیت نہیں رکھتا۔

اُنھوں نے کہا کہ پولیس جب فحاشی کے اڈے پر چھاپہ مار کر وہاں سے خواتین اور مردوں کو گرفتار کرتی ہے تو ایسے مقدمات کی تفتیش کے لیے بھی خاتون پولیس اہلکار کا شامل ہونا ضروری نہیں کیونکہ ایسی جگہوں پر جنسی تعلقات باہمی رضامندی سے ہی ہوتے ہیں اور ایسے مقدمات میں سزا دونوں کو ہی ملتی ہے۔

خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد اور تفتیش میں مہارت

آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد 4500 ہے جبکہ اس صوبے میں مرد پولیس اہلکاروں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار سے زیادہ ہے۔

اس طرح اگر تناسب کے حساب سے دیکھا جائے تو پنجاب میں ہزار سے زائد خواتین کے معاملے کو دیکھنے کے لیے صرف ایک خاتون پولیس اہلکار ہوگی۔

پنجاب میں تھانوں کی تعداد سات سو سے زیادہ ہے اور ان تھانوں میں خواتین کے بطور تھانے کے سربراہ کی حثیت سے کام کرنے کی شرح آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔

پنجاب کے 36 اضلاع میں 705 تھانے ہیں اور ان میں سے تقریباً پانچ تھانوں میں خواتین پولیس افسر بطور ایس ایچ او اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں۔

پنجاب کے صرف تین اضلاع میں خواتین کے پولیس سٹیشن قائم ہیں اور ان اضلاع میں لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی شامل ہیں۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق اس وقت 80 فیصد تھانوں میں خواتین کے ہیلپنگ ڈیسک بنائے گئے ہیں جہاں پر مرد پولیس اہلکاروں کی معاونت کے لیے ایک یا دو لیڈی کانسٹیبلز کو تعینات کیا گیا ہے۔

ان خواتین پولیس اہلکاروں میں سب سے تعداد کانسٹیبل رینک کی اہلکاروں کی ہے اور یہ تعداد 3200 سے زیادہ ہے۔ ان اہلکاروں کو تفتیش میں کوئی تجربہ نہیں اور اگر کسی کو تجربہ ہے بھی تو وہ معمولی نوعیت کے جرائم کے مقدمات ہیں۔

صوبہ پنجاب میں اے ایس آئی سے لیکر انسپکٹر کے عہدے تک خواتین پولیس افسروں کی تعداد چار سو کے قریب ہے۔

پولیس

یہ جاننے کے لیے کہ پنجاب پولیس میں کتنی خواتین نے تفتیشی کورسز کیے ہیں، تو اس ضمن میں جب پنجاب پولیس کے سربراہ شعیب دستگیر کے دفتر میں رابطہ کیا گیا تو ان کے شعبہ تعلقات عامہ کے عملے نے اس بارے میں کوئی معاونت فراہم نہیں کی۔

ادھر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں 22 تھانے ہیں جن میں سے ایک تھانہ خواتین کا ہے جہاں پر ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر یعنی ا ے ایس آئی کو اس تھانے کا انچارج بنایا گیا ہے۔

صوبہ پنجاب میں گذشتہ برس ریپ کے ساڑھے تین سو کے قریب مقدمات رپورٹ ہوئے جبکہ سنہ 2018 میں ان مقدمات کی تعداد 2900 سے زیادہ تھی۔ اسی طرح گزشتہ برس گینگ ریپ کے مقدمات کی تعداد 170 سے زیادہ تھی۔

ان واقعات کی تفتیش کے لیے جتنی بھی پولیس ٹیمیں تشکیل دی گئیں، ان میں سے تقریباً تمام ٹیموں میں مرد پولیس افسران ہی تفتیش کرتے تھے جبکہ خاتون پولیس اہلکار کو صرف اسی صورت میں ہی طلب کیا جاتا تھا جب ایسے سنگین مقدمے میں کسی ملزمہ یا کسی خاتون پر شک ہونے کی وجہ سے انھیں شامل تفتیش کیا جانا مقصود ہو۔

پنجاب میں اس عرصے کے دوران ہونے والے ریپ کے مقدمات میں دس کے قریب مقدمات ایسے ہیں جن میں خواتین پولیس اہلکاروں کو بھی تفتیشی ٹیم میں شامل کیا گیا اور ان میں سے نو مقدمات میں نہ صرف ملزمان کو گرفتار کیا گیا بلکہ عدالتوں میں استغاثہ ملزمان کو مجرم ثابت کرنے میں بھی کامیاب ہوگیا۔

ان مقدمات میں چکوال میں ایک گونگی بہری لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ کے علاوہ گجرات میں ریپ کے تین مقدمات شامل ہیں۔

خواتین پولیس افسران موقع فراہم کیے جانے کی منتظر

سوشل میڈیا سلیبرٹی قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے کی تفتیش کرنے والی ٹیم کی سربراہی ایک خاتون پولیس افسر ہی کر رہی تھیں جنھوں نے اس مقدمے کی تفتیش میں ملزمان کو بےنقاب کیا۔

پنجاب کے جنوبی علاقے ملتان میں تعینات ڈی ایس پی عطیہ جعفری کا کہنا ہے کہ خواتین پولیس افسر بھی مرد پولیس افسروں کے ساتھ ہی تفتیش میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مختلف کورسز کرتی ہیں۔

پولیس

پنجاب کے جنوبی علاقے ملتان میں تعینات ڈی ایس پی عطیہ جعفری کا کہنا ہے کہ خواتین پولیس افسر بھی مرد پولیس افسروں کے ساتھ ہی تفتیش میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مختلف کورسز کرتی ہیں

اُنھوں نے کہا کہ تفتیش میں مہارت حاصل کرنے کے لیے بعض کورس لازمی ہوتے ہیں جبکہ کچھ کورس پولیس افسر چاہے تو حصہ لے سکتا ہے ورنہ ایسے کرنے پر اس پر کوئی پابندی نہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ سب انسپکٹر سے انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پانے کے لیے ہر پولیس افسر، چاہے وو مرد ہو یا خاتون، ان کے لیے چار ماہ کا تفتیشی کورس مکمل کرنا ضروری ہے اور ایسا نہ کرنے والے یا والی کو اگلے رینک میں ترقی نہیں ملتی۔

عطیہ جعفری کے مطابق اس کورس میں قتل، ڈکیتی، زنا بالجبر، اور اغوا برائے تاوان جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش کرنے کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدل رہے ہیں اور اب تو مردوں کے تھانے کی انچارج بھی خاتون پولیس افسر کو بنایا جا رہا ہے۔

عطیہ جعفری کا کہنا تھا کہ ملتان اور جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع میں کچھ تھانے ابھی ایسے ہیں جہاں پر خاتون پولیس افسر کو تھانوں کا انچارج بنایا گیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ تھانے کے انچارج پر بوجھ کم کرنے کے لیے قتل جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش کے لیے تھانے میں الگ سے تفتیشی سیل بنائے جاتے تھے جو اب ختم کردیے گئے ہیں اور قتل اور گینگ ریپ جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش کی ذمہ داری بھی تھانے کے انچارج کو سونپ دی گئی ہے۔

عطیہ جعفری کے بقول اب تک وہ اپنی سروس کے دوران 26 سے زائد قتل کے مقدمات کی تفتیش کرچکی ہیں اور ان کی تفتیش میں جرم ثابت ہونے کی شرح 80 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ خواتین پولیس افسران جنھوں نے تفتیشی کورس کیے ہوئے ہیں اُنھیں تفتیشی ٹیم میں شامل نہ کرنا یا اُنھیں مبینہ طور پر نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے خواتین پولیس افسران میں احساس کمتری بڑھ رہا ہے۔

خاتون ڈی ایس پی کے مطابق رینکر پولیس افسران اور پولیس سروس آف پاکستان کے درمیان جنگ صرف مردوں تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کے اثرات خواتین پولیس اہلکاروں پر بھی پڑتے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ پورے صوبے میں پی ایس پی پولیس افسران کو سب ڈویژنل پولیس افسر تو تعینات کیا جاتا ہے لیکن کسی رینکر خاتون پولیس کو ابھی تک حکام کی طرف سے یہ ذمہ داریاں نہیں دی گئیں۔

پولیس ٹرینگ سہالہ کے انسٹکٹر جمشید خان کا کہنا ہے کہ خواتین پولیس اہلکار قتل اور گینگ ریپ جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش کے لیے تربیت حاصل کرنے میں خاصی دلچسپی لے رہی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ قتل کی واردات میں جائے وقوعہ میں شواہد کو اکھٹا کرنے اور ان کو محفوظ بنانے کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ خواتین پولیس افسران کو گینگ ریپ اور غیرت کے نام پر قتل جیسے مقدمات کی تفتیش میں مہارت حاصل کرنے کے لیے بیرون ممالک سے بھی ماہرین کو بلا کر ان سے تربیت دی جاتی ہے۔

جمشید خان کے مطابق اس سال اقوام متحدہ کے امن مشن میں جو پولیس اہلکار خدمات سرانجام دینے کے لیے بیرون ممالک گئے ہیں ان میں پانچ خواتین پولیس افسران بھی شامل ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ پولیس میں سب انسپکٹر اور اسسٹنٹ سب انسپکٹرز کی آسامیوں پر بہت سی خواتین پبلک سروس کمیشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پولیس کا شعبہ اختیار کر رہی ہیں جبکہ اس کے برعکس ماضی میں خواتین کا پولیس میں جانا بڑا معیوب سمجھا جاتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp