انٹرنیٹ کمپنیاں اور کیبل آپریٹرز کے الیکٹرک کے خلاف سراپا احتجاج کیوں؟


کراچی

پاکستان میں رہتے ہوں اور ‘بجلی جانے’ کے عمل سے واقف نہ ہوں، یہ تو نہیں ہو سکتا۔ بارش کے دوران یا گرمیوں کے عام دنوں میں بھی بجلی جانا کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں۔

پہلے زمانے میں لڈو، تاش، کیرم، شطرنج یا ایک اچھی کتاب سے کام چل جاتا تھا لیکن آج کل جب بجلی نہ ہو تو عام طور پر تفریح کا واحد سہارا انٹرنیٹ رہ جاتا ہے جس کے ذریعے لوڈ شیڈنگ یا تکنیکی خرابی کے چند گھنٹے بمشکل کاٹ لیے جاتے ہیں۔

تاہم کراچی کے شہریوں کو حالیہ چند دنوں میں جہاں بجلی کی بندشوں کا سامنا رہا، تو وہیں اب انھیں کیبل ٹی وی اور مختلف انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز کی جانب سے بھی خدمات کی معطلی کا سامنا ہے۔

کراچی میں اس حوالے سے پیر اور منگل کو اپنی تاریں صارفین کے گھروں تک پہنچانے کے لیے کے الیکٹرک کے کھمبے استعمال کرنے والے سروس پرووائیڈرز نے شام سات بجے سے رات آٹھ اور نو بجے تک اپنی خدمات ‘احتجاجاً’ معطل رکھیں۔

انٹرنیٹ اور کیبل کا پہیہ جام کیوں؟

تنازع اصل میں کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی نجی کمپنی کے الیکٹرک اور کیبل آپریٹرز/انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کے درمیان ہے۔

کراچی میں زیادہ تر کیبل آپریٹر اور انٹرنیٹ کمپنیوں کی تاریں زمین سے اوپر کے الیکٹرک کے کھمبوں پر سے گزاری جاتی ہیں۔

https://twitter.com/KhanMusa123/status/1037208728829943809

یہ بھی پڑھیے

کراچی کالا ناگ سے کراچی الیکٹرک

کراچی میں کرنٹ لگنے کے باعث ہلاکتوں کا ذمہ دار کون؟

’کے الیکٹرک، وبا کے دوران کراچی کے شہریوں کی زندگیاں اجیرن کرنے کا شکریہ‘

آپ کو شاید یاد ہو کہ گزشتہ سال کراچی کے علاقے ڈیفینس میں مون سون کی بارشوں کے دوران تین دوست موٹرسائیکل پر سفر کرتے ہوئے کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوگئے تھے۔

اس معاملے پر بڑا تنازع پیدا ہوا اور معاملہ سندھ ہائی کورٹ تک جا پہنچا جس کے بعد کے الیکٹرک کی جانب سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ کرنٹ لگنے کے ایسے واقعات کیبل اور انٹرنیٹ کی ڈھیلی تاروں کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔

https://twitter.com/KElectricPk/status/1164128574191865859

اس واقعے کے بعد سے کے الیکٹرک کی جانب سے ان سروس پرووائیڈرز کی تاریں اپنے کھمبوں سے ہٹانے کی مہم میں تیزی آئی ہے۔

گذشتہ دنوں کراچی میں ایک مرتبہ پھر تیز بارشیں ہوئیں اور کرنٹ لگنے سے ہلاکتوں کے واقعات سامنے آئے۔

چنانچہ کے الیکٹرک نے ایک مرتبہ پھر کیبل آپریٹرز اور انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کی تاریں اپنے کھمبوں سے ہٹانی شروع کیں جس پر مؤخر الذکر فریقوں کی جانب سے ہڑتال کی جا رہی ہے۔

کیبل آپریٹرز اور انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک کی جانب سے ان کی تاروں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے جس کے باعث وہ اپنی خدمات احتجاجاً چند گھنٹوں کے لیے بند کر رہے ہیں۔

اس پر کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ وہ اپنے انفراسٹرکچر پر ٹی وی اور انٹرنیٹ کی تاروں کی ‘تجاوزات’ کے خلاف کارروائی جاری رکھے گی۔

کے الیکٹرک کے مطابق کیبل آپریٹرز نے انھیں یقین دلایا تھا کہ وہ 50 مقامات پر 20 جولائی تک اپنی تاریں زیرِ زمین منتقل کریں گے تاہم ایسا نہیں ہو سکا ہے۔

ردِ عمل میں مواصلاتی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کی تنظیم پاکستان ٹیلی کام ایکسیس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن جس میں کیبل آپریٹرز اور انٹرنیٹ فراہم کرنے والی نجی کمپنیاں شامل ہیں، ان کی جانب سے احتجاج کی کال دی گئی۔

پیر کو کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی کیبل آپریٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین خالد آرائیں نے کہا تھا کہ اس حوالے سے کمشنر کراچی افتخار شلوانی کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں تاہم اس کے باوجود کے الیکٹرک کی جانب سے اُن کی تاروں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔

مگر کے الیکٹرک اور سروس پرووائیڈرز کے درمیان جاری اس تنازعے میں صارفین انٹرنیٹ جیسی اس سہولت سے محروم ہو رہے ہیں جسے کئی حلقوں کی جانب سے اب بنیادی حق تصور کیا جاتا ہے۔

ایک صارف سیدہ ترمذی نے ٹوئٹر پر اس حوالے سے لکھا کہ ‘یہ اچھا ہے دن میں کے الیکٹرک والے لائٹ لے جاتے ہیں، اور شام میں کیبل نیٹ والے ان کے خلاف احتجاجاً انٹرنیٹ اور کیبل۔’

صارف فریحہ عزیز نے لکھا کہ ‘یہ کس طرح کا احتجاج ہے جس میں وہ خدمات معطل کی جا رہی ہیں جن کی صارفین ادائیگی کر چکے ہیں۔ صارفین کیوں پریشانی اٹھائیں؟’

تاہم کچھ ایسے صارفین بھی ہیں جن کی جانب سے کے الیکٹرک کے مؤقف کی حمایت کی جا رہی ہے۔

ماریہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ یہ کیبل اور انٹرنیٹ آپریٹر کسی اجازت کے بغیر کھمبوں پر تاروں کے گچھے باندھ دیتے ہیں۔ اس کا حل زیرِ زمین نظام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp