جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف دھمکی آمیز ویڈیو: سپریم کورٹ نے ملزم پر فرد جرم عائد کر دی، غیر مشروط معافی کی استدعا مسترد


پاکستان کی سپریم کورٹ نے عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف توہین اور دھمکی آمیز ویڈیو اپ لوڈ کرنے کے مقدمے میں ملزم مرزا افتخار الدین پر فرد جرم عائد کر دی ہے اور ملزم کی طرف سے غیر مشروط معاف کی استدعا مسترد کر دی ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اس ویڈیو سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل نے تحریری طور پر عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی ہے اور خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے لہذا عدالت رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی اس معافی کو قبول کرے اور توہین عدالت کا نوٹس واپس لے۔

عدالت نے ملزم کی طرف سے تحریری طور پر جمع کروائے گئے معافی نامے کو مسترد کرتے ہوئے ملزم پر فرد جرم عائد کر دی۔

واضح رہے کہ چند ہفتے قبل ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں ملزم افتخار الدین مرزا سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

جسٹس فائز عیسیٰ کو ’قتل کی دھمکی‘: سپریم کورٹ کا وائرل ویڈیو پر ازخود نوٹس

جسٹس فائز عیسی کو قتل کی دھمکی: سربراہ ایف آئی اے کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم

جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا گیا

اس ویڈیو کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے اسلام آباد پولیس کو ملزم کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق درخواست دی تھی تاہم پولیس حکام نے اس درخواست کو یہ کہہ کر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو بھجوا دیا تھا کہ انٹرنیٹ سے متعلق معاملات کی تحقیقات کرنا پولیس کے دائرہ اختیار میں نہیں۔

سپریم کورٹ

چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود اٹارنی جنرل خالد جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا اُنھوں نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا بیان حلفی پڑھا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ان کے پاس فاضل کی اہلیہ کا بیان حلفی نہیں ہے۔

عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل کو اس بیان حلفی کی کاپی فراہم کی گئی۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس بیان حلفی میں بہت سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں ۔

اُنھوں نے کہا کہ ملزم افتخار الدین مرزا کا تعلق اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے سربراہ مرزا شہزاد اکبر اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں شکایت کندہ وحید ڈوگر کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس بات میں کتنی سچائی ہے اُنھیں نہیں معلوم تاہم عدالت عظمیٰ کے جج کے بارے میں اتبی بڑی بات کوئی شخص کسی کی سپورٹ کے بغیر نہیں کرتا۔

عدالت نے ملزم کے وکیل کو چارج شیٹ فراہم کی اور اس کے مطابق آئندہ سماعت پر جواب داخل کروانے کا حکم دیا۔

عدالت نے اس معاملے پر ایف آئی اے سائبر کرائم کی طرف سے پیش کی جانے والی رپورٹ پر عدم اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی ادارہ اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔

ایف آئی اے کی جانب سے جو رپورٹ پیش کی گئی تھی اس میں اس بات کا ذکر کیا گیا تھا کہ یہ ویڈیو کب اپ لوڈ ہوئی اور اب تک کتنے افراد اس کو دیکھ چکے ہیں۔

ایف آئی اے کے حکام نے جب ملزم افتخار الدین مرزا کو عدالت میں پیش کیا تو اُنھیں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ ایف آئی اے حکام نے ابتدائی تفتیش کے بعد ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا تھا۔

پاکستان کے قانون میں توہین عدالت کا جرم ثابت ہونے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ چھ ماہ قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے اور جرم کی نوعیت کی صورت میں دونوں سزائیں بھی ہو سکتی ہیں۔

عدالت اگر چاہے تو مقدمے کی سماعت کے دوران کسی بھی وقت ملزم کو معاف بھی کر سکتی ہے کیونکہ یہ معاملہ ملزم اور عدالت کے درمیان ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp