کورونا وائرس: انڈیا میں امیر لوگ گھروں میں ہی ’منی آئی سی یو‘ کا انتظام کروا رہے ہیں


انڈیا کے دارالحکومت نئی دلی کے گنجان آباد علاقے مغربی دلی میں ایک خاندان ہسپتال میں ایک بستر حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔

یہ جون کے اوائل کی بات ہے جب انڈیا میں آٹھ ہفتوں سے جاری سخت لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

60 سالہ راج کمار مہتا کہتے ہیں ‘لاک ڈاؤن کو دو دن ہوئے تھے اور ہلکی علامات کی وجہ سے میں نے اپنا ٹیسٹ کرایا۔ ٹیسٹ مثبت آیا اور ہم نے ایک ایسے ہسپتال کی تلاش شروع کردی جہاں مجھے داخل کرایا جاسکے۔’

مہتا خاندان نے بہت سے ہسپتالوں سے رجوع کیا لیکن ہر جگہ سے انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، ‘کیونکہ تمام ہسپتال مریضوں سے بھرے تھے اور ہر جگہ بھیڑ تھی۔’

لیکن ایک دوست کے مشورے سے ان کی امید بندھی۔ راج کمار مہتا کے بیٹے منیش نے فون اٹھایا اور اس کمپنی سے رابطہ کیا جو ‘گھر پر ہسپتال کے بستر مہیا کرانے، آکسیجن سپورٹ اور مکمل مانیٹرنگ کی سہولیات‘ کا دعویٰ کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں کورونا سے پہلی موت کی پراسرار کہانی

’انڈیا کو کورونا وائرس کی سونامی کے لیے تیار رہنا چاہیے‘

انڈیا: کورونا وائرس کے مریضوں کو زندہ رکھنے کی جدوجہد

راجکمار مہتا

راجکمار مہتا گھر پر آئی سی یو کی سہولیات سے مستفید ہو چکے ہیں

چند ہی گھنٹوں میں ہوم آئی سی یو گھر پہنچ جاتا ہے

رضامندی اور پیشگی ادائیگی کے چند گھنٹوں کے اندر اندر طبی سازوسامان مہتا خاندان کے گھر پہنچا دیا گیا جس میں آکسی میٹر سے منسلک کارڈیک مانیٹر سمیت آکسیجن سلنڈر اور پورٹیبل وینٹی لیٹر بھی شامل تھا۔ ان تمام آلات کے ساتھ ایک تربیت یافتہ پیرامیڈک بھی تھیں۔

گھر پر قرنطینہ فراہم کرانے والی کمپنی ایچ ڈی یو ہیلتھ کیئر کے امبریش مشرا نے بتایا ‘ہم نے انھیں سارے عمل کی وضاحت کی اور گھر پر دیکھ بھال کی سہولیات کے اخراجات اور ضروری رسد کی وضاحت کی۔ اور اگلے دن سے راج کمار مہتا ہماری نگہداشت میں تھے۔ انھیں اپنے ہی گھر میں تنہائی میں رکھا گیا اور وہ بہت اچھی طرح صحتیاب ہوئے۔’

انڈیا میں اب تک کورونا انفیکشن کے 9 لاھ سے زیادہ کیسز سامنے آ چکے ہیں اور 23 ہزار سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔

کووڈ 19 سے متاثرہ افراد کی تعداد یہاں بڑھ رہی ہے جس کے ساتھ ہی انڈیا اب کورونا وائرس کی عالمی فہرست میں تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔

جون کے آخر میں جنوبی ریاست تمل ناڈو کے دارالحکومت چنئی میں واقع انسٹی ٹیوٹ اف میتھیمیٹیکل سائنسز کے محققین نے ایک شماریاتی تجزیے کی بنیاد پر بتایا کہ ‘انڈیا میں جولائی کے آخر یا اس سے پہلے تک 10 لاکھ سے زیادہ متاثرین ہوسکتے ہیں۔’

ہسپتالوں پر بوجھ بڑھ رہا ہے

حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ تمام متاثرہ افراد کو طبی امداد فراہم کر رہی ہے لیکن بستر نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں افراد کے ہسپتالوں سے واپس آنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

اب لوگ اپنی حیثیت کے مطابق دوسرے متبادل کی تلاش میں ہیں جیسے کچھ لوگ اپنے ہی گھر میں نجی طور پر علاج کروا رہے ہیں۔

شاید کورونا متاثرین کی بڑھتی تعداد اور ہسپتالوں پر دباؤ کی وجہ سے ہی مرکزی حکومت نے ہدایت کی ہے کہ ‘کووڈ 19 کے علامات اور بنا علامات والے، دونوں قسم کے مریضوں کو جلد سے جلد قرنطینہ کرنے کی ضرورت ہے۔’

حکومت نے اپنے آئیسولیشن وارڈز میں اضافے کے لیے بہت سے ہوٹلوں، کھیلوں کے سٹیڈیمز اور یہاں تک کہ ریلوے کی خدمات کو بھی اپنے کنٹرول میں لیا ہے۔ لیکن جن خاندانوں میں ایک یا اس سے زیادہ ممبران کورونا مثبت ہیں وہ گھر کی سہولت کے آپشن پر غور کر رہے ہیں۔

کورونا بینر

دنیا میں کورونا کہاں کہاں: جانیے نقشوں اور چارٹس کی مدد سے

کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

آخر کرونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟

کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟

کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں

کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟


کورونا سے صحتیاب ہونے والی ایک 56 سالہ مریضہ کی بیٹی بھارتیہ سنگھ کا کہنا ہے کہ ‘گھر میں ہی آئی سی یو قائم کرنا اچھا فیصلہ تھا کیونکہ میں اپنے والد کی صحت کی نگرانی کرسکتی تھی۔ اس کے ساتھ ہسپتال جانے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔’

ان کا خیال ہے کہ ‘ہسپتالوں کے کووڈ 19 وارڈز میں سینکڑوں مریض ہوتے ہیں اور ہر ایک پر دھیان دینا ہوتا ہے، سب کو وقت دینا ہوتا ہے، لہذا انفیکشن میں اضافے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔’

نرس

کووڈ کیئر کی خدمات فراہم کرنے والی نجی ہیلتھ کیئر کمپنی کے ساتھ کام کرنے والی نرس کے اے ورسیمالا نے بہت سارے مریضوں کی دیکھ بھال کی ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ کام ذمہ داری والا ہے

ایک نرس مریض کے ساتھ رہتی ہے

اپنے گھر میں علاج کے دوران ایک نرس مریض کے ساتھ رہتی ہے اور وہ ایک ڈاکٹر کی نگرانی میں کام کرتی ہے۔ کووڈ 19 مریضوں کے ساتھ رہنے والے پیرامیڈک یا نرسوں کا کسی مریض کے پاس جانے سے پہلے اور بعد میں ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اور انھیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے کہ مریضوں کے اہل خانہ بھی تجویز کردہ تنہائی کی پیروی کریں۔

کووڈ کیئر کی خدمات فراہم کرنے والی نجی ہیلتھ کیئر کمپنی کے ساتھ کام کرنے والی نرس کے اے ورسیمالا نے بہت سارے مریضوں کی دیکھ بھال کی ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ کام ذمہ داری والا ہے، کیونکہ اس وقت کمرے میں صرف وہ طبی پیشہ ور فرد کے طور پر موجود ہوتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ‘ہنگامی حالت میں ہسپتالوں میں ہر طرح کے طبی آلات اور ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں۔ لیکن گھروں میں کوئی ڈاکٹر موجود نہیں رہتا ہے، لہذا نرس کو اتنا قابل ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال کو سنبھال سکے اور یہ بھی فیصلہ کرے کہ ڈاکٹر کو کب اور کیسے اپ ڈیٹ کیا جائے۔’

نرس اور پیرامیڈک ایک ماہر ڈاکٹر کو معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں کہ مریض کو کتنی آکسیجن دی گئی ہے، مریض کے جسم کا درجہ حرارت اور دیگر علامات کیا ہیں۔

صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والی کمپنی کے لیے کام کرنے والے ماہر ڈاکٹر دیکشیت ٹھاکر کا کہنا ہے کہ ‘سب سے اہم بات ڈاکٹر کا عین وقت پر فون اٹھانا ہے۔’

وہ کہتے ہیں ‘ابھی تک ہمارے پاس کووڈ 19 کا کوئی مستند علاج نہیں ہے لیکن ہم جو معاون طریقۂ علاج ہسپتالوں میں مہیا کر رہے ہیں وہی گھروں میں بھی مہیا کیا جا رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب ضرورت ہو تو صحیح وقت پر مریض کو ہسپتال کے مناسب آئی سی یو میں منتقل کرنے کا فیصلہ کریں۔’

ڈاکٹر

نرس اور پیرامیڈک ایک ماہر ڈاکٹر کو معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں کہ مریض کو کتنی آکسیجن دی گئی ہے، مریض کے جسم کا درجہ حرارت اور دیگر علامات کیا ہیں

ہوم آئی سی یو کی قیمت

ظاہر ہے کہ گھر میں دستیاب سہولت کی قیمت بھی ہے۔ اس ’منی آئی سی‘ یو جیسے سیٹ اپ کے لیے آپ کو دس ہزار سے 15 ہزار روپے روزانہ کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کے لیے یہ ایک مہنگا سودا ہے لیکن پھر بھی طلب میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

گھر میں انتہائی نگہداشت کی خدمات فراہم کرانے والی بڑی کمپنیں ‘ایچ ڈی یو ہیلتھ کیئر’ اور ‘ہیلتھ کیئر ایٹ ہوم’ کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 سے پہلے اس سہولت کی اتنی زیادہ مانگ نہیں تھی۔

قیمت اور ایڈوانس رقم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے دوران امبریش نے بتایا ‘ہر روز پانچ خاندان ہماری خدمات حاصل کر رہے ہیں، یعنی 20 سے 25 مریض روزانہ ہیں۔’

انڈیا کے بڑے شہروں میں ملٹی سپیشلیٹی ہسپتالوں کی چین ریذیڈنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن، گروپ ہاؤسنگ سوسائٹی کے ساتھ مل کر وہاں ‘ہوم آئیسولیشن مرکز’ قائم کر رہا ہے۔

دلی جیسی متعدد ریاستی حکومتیں ہلکی علامت والے کووڈ مریضوں کو گھروں میں ہی تنہائی میں رہنے کے مشورے دے رہی ہیں۔ ان کے گھروں تک مفت آکسی میٹرز پہنچائے جارہے ہیں تاکہ وہ اپنی آکسیجن کی سطح کی پیمائش کرسکیں۔

شہر

شہر کے گنجان آباد علاقوں میں بہت سے رہائشی اپارٹمنٹس نے اپنے کلب ہاؤس یا ڈھکے ہوئے کھیل کے حصوں کو آئیسولیشن زون میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے

مریضوں کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ صرف اس صورت میں ہسپتال جائیں جب انھیں سانس لینے میں دشواری یا دیگر پیچیدگیاں ہوں۔

کچھ عرصہ قبل تک انڈیا کا ‘کورونا کیپیٹل’ کہا جانے والا شہر ممبئی بھی ہسپتالوں میں بھیڑ کے ساتھ جدوجہد کر رہا تھا۔ اس وقت حکومت نے ہوٹلوں اور سٹیڈیمز میں عارضی کووڈ سینٹر بنائے۔

اس دوران شہر کے گنجان آباد علاقوں میں بہت سے رہائشی اپارٹمنٹس نے اپنے کلب ہاؤس یا ڈھکے ہوئے کھیل کے حصوں کو آئیسولیشن زون میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے انھیں نہ صرف صحت کی دیکھ بھال کرنے والی بڑی کمپنیوں بلکہ بہت سارے سینئر ڈاکٹروں کی بھی حمایت حاصل رہی ہے۔

ایک اپارٹمنٹ میں رہنے والے ڈاکٹر اور ریڈیولوجسٹ ویویک دیسائی کو بھی ‘ہیلتھ کیئر ایٹ ہوم’ سے تعاون ملا۔

وہ کہتے ہیں ‘ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا کیونکہ مریضوں کو ہسپتالوں میں بستر نہیں مل رہے تھے اور ممبئی میں متاثرین بڑھ رہے تھے۔ ہم نے اپارٹمنٹ میں ایک صاف ستھرا مقام منتخب کیا، جہاں آٹھ دس مریض رہ سکتے تھے اور وہاں انھیں الگ تھلگ رکھنا شروع کیا۔’

لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ چاہے کوئی مریض اپنے گھر میں ہو یا نجی اپارٹمنٹ کی عمارت کے وارڈ میں، یہ ایک خطرناک صورتحال ہوسکتی ہے۔

ہیلتھ کیئر ایٹ ہوم

زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ کووڈ 19 مریضوں کی آکسیجن کی سطح اچانک بہت زیادہ کم ہوسکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں وہاں ماہر ڈاکٹر اور مکمل طور پر فعال انتہائی نگہداشت یونٹ کا ہونا ضروری ہے

لیکن خطرہ بھی ہے

زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ کووڈ 19 کے مریضوں کی آکسیجن کی سطح اچانک بہت زیادہ کم ہوسکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں وہاں ماہر ڈاکٹر اور مکمل طور پر فعال انتہائی نگہداشت یونٹ کا ہونا ضروری ہے۔

انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر سندیپ شرما کا کہنا ہے کہ ‘اگر کوئی یہ کہے کہ میں نے کمیونٹی سینٹر یا ایک جمنازیم کو میڈیکل سینٹر یا کووڈ کیئر سینٹر یا آئی سی یو میں تبدیل کیا ہے تو پھر اس کی نگرانی میں بھی وہی مسئلہ ہے کہ وہاں طبی ماہرین نہیں ہیں۔ اگر وہاں دس مریض ہیں اور کچھ ہو جاتا ہے تو ذمہ دار کون ہوگا۔’

دلی کے میکس ہسپتال میں کووڈ 19 کے مریضوں کا علاج کرنے والے ماہر ڈاکٹر منوج سنہا کہتے ہیں ‘کسی کو ہسپتال میں داخل کروانا ایک مشکل فیصلہ ہے کیونکہ اس کے ساتھ سماجی بدنامی کا داغ جڑا ہوا ہے۔ لیکن اگر کسی کو طبی امداد اور نگہداشت کی ضرورت ہو تو ہسپتال کے آئی سی یو کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا ہے۔’

معاشی طور پر ایسے اہل افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے جو گھروں میں منی آئی سی یو چاہتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کے پاس یہ آپشن نہیں ہے اور وہ سبھی سرکاری یا نجی ہسپتالوں میں اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

لیکن ملک بھر کے تمام ہسپتالوں میں سے کچھ کو بستر، عملے اور آلات کی کمی کا سامنا ہے۔ لیکن ان ‘چند’ لوگوں کے سامنے یہ صورتحال نہیں ہے جو اپنے ہی گھر میں کسی کو صحت یاب ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

جیسا کہ بھارتی سنگھ کہتی ہیں ‘میں اسے کسی اور طرح سے نہیں کر سکتی تھی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp