پاکستان میں سیروسیاحت سے جڑے مسائل


ہماری موجودہ سرکار جو تبدیلی کے نام پر ”لائی گئی“ کو دو سال پورے ہونے کو آئے لیکن ”ہنوز دلی دور است“ کے مصداق ابھی تک وہ سحر کوسوں دور ہے جس کا وعدہ عوام سے کیا گیا تھا۔ اس تبدیلی سرکار نے تبدیل تو کیا خاک کرنا تھا الٹا کاروبار گلشن کو مزید برباد کر کے رکھ دیا۔ دیکھا جائے تو کیسے کیسے خوشنما نعرے تھے جن کی لوری عوام کو سنائی گئی اور انہی پرفریب نعروں میں ایک نعرہ ہمارے دیش میں سیاحت کا فروغ بھی شامل تھا۔

یہ کہا گیا کہ ہم اس سیاحت کو عین اسی طرح ایک صنعت میں تبدیل کر دیں گے جس طرح ہندوستان، نیپال، ترکی اور ملائشیا نے کیا۔ ایسا ظاہر کیا گیا کہ جیسے پہلے والوں کو تو سیاحت کی الف ب کا بھی پتہ نہیں تھا، جب ہم آئیں گے تو دنیا دیوانہ وار پاکستان کی سیر کو نکل دوڑے گی وغیرہ وغیرہ۔ اب امر واقع یہ ہے کہ آج ہمیں جو کراچی تا خنجراب ایک مسلسل بہتر ہوتا ہوا انفراسٹرکچر دستیاب ہے تو یہ انہی پچھلوں کی وجہ سے ممکن ہے جن کو راندۂ درگاہ کر دیا گیا۔

ویسے تو ہمارے ملک میں سیروسیاحت کے حوالے سے جو مسائل ہیں ان پر لکھنے کے لیے تو ایک کتاب چاہیے لیکن آج چند باتوں کا احاطہ کرنا چاہوں گا۔ سب سے پہلے تو کاش ہمارے ارباب اقتدار کو یہ سمجھ آ جائے کہ صرف اونچے پہاڑوں، حسین وادیوں اور بہتے دریاؤں کی تصویریں دکھا کر دنیا کو اپنی طرف راغب نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ہمیں اس فضول سے احساس برتری سے بھی باہر آ جانا چائیے کہ ہمارے شمالی علاقہ جات سے بہتر جگہ اس دنیا میں نہیں۔ ارے بھیا دنیا حسین وادیوں، بلند و بالا پہاڑوں، خوبصورت آبشاروں اور جھیلوں سے بھری پڑی ہے۔ ہمیں اس خوامخواہ کے زعم برتری سے چھٹکارہ پانے کی اشد ضرورت ہے۔

جو مٹھی بھر لوگ ہمیشہ سے اس دیار کا رخ کرتے آئے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے سروں پر پہاڑوں کی دیوانگی کا سودا سمایا ہوتا ہے۔ اور ایسے لوگوں کو ہماری مارکیٹنگ کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا ٹارگٹ تو وہ لوگ ہونے چاہیے جو بمعہ اپنے اہل و عیال اس دیار کا رخ کر سکیں اور یہاں گزارے لمحات سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم انھیں وہ لوازمات مہیا کر سکیں جو ان کے لیے ضروری ہیں۔ اب پہاڑوں کے دامن میں بیٹھ کر ایک گورا صاحب روح کی آسودگی کے لیے چائے پینے سے تو رہے۔ اب چونکہ ہمارا ایمان ان مشروبات کا نام لینے سے خطرے میں پڑ جاتا ہے اس لیے اس بات کو مزید طول نہیں دیتے۔

دوسرا مسئلہ جو شمالی علاقہ جات کے قیام کے دوران درپیش رہتا ہے وہ ہے انٹر نیٹ کی عدم دستیابی یا انتہائی سست رفتار۔ یہ بات شمالی علاقہ جات کا رخ کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر آپ گلگت بلتستان یا آزاد کشمیر کے دور دراز علاقوں کا سفر کریں تو باہر کی دنیا سے اپنا رابطہ برقرار رکھنے کے لیے آپ کو ایک خاص ادارے کی سم استعمال کرنا پڑتی ہے۔ اگر چہ اب دوسرے نیٹ ورک بھی بآسانی دستیاب ہیں لیکن دور دراز علاقوں میں غالباً تھری جی اور فور جی کے حوالے سے آپ کو اسی ادارے کے نیٹ ورک پر بھروسا کرنا پڑتا ہے جو کہ اپنی افادیت کے لحاظ سے بالکل بھی اچھا تجربہ نہیں کہا جا سکتا۔

اب ہم جیسے عامی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان علاقوں میں اس خاص ادارے کی اجارہ داری کے پیچھے سیکیورٹی کا عنصر کارفرما ہے یا کوئی اور بات ہے؟ چلیں اس صورت میں بھی کم از کم اس کے معیار کو تو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ ہم جیسے لوگوں نے تو سال بھر میں چند دنوں کے لیے یہاں کا رخ کرنا ہوتا ہے لیکن گلگت بلتستان کا خطہ میرے چند انتہائی پیارے دوستوں کا مسکن ہے اور وہ سارا سال ہی اس مسئلے کی وجہ سے شکوہ کناں رہتے ہیں۔

ایک اور مسئلہ جس کا ان علاقوں کے باسیوں اور سیاحوں کو ہر وقت سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ان علاقوں میں قائم چوکیاں ہیں جہاں آپ کو پوچھ گچھ یا اندراج کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ ہماری سیکیورٹی کے لیے بہت ضروری ہو لیکن اس کے باوجود بھی اگر آپ غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں اور سیروسیاحت کا فروغ آپ کا سر فہرست ایجنڈا بھی ہوتو اس مسئلے کے حل کی جانب کوئی قدم تو اٹھایا جا سکتا ہے اور ہماری ہماری سلامتی کے ذمہ دار اداروں سے بات چیت شروع کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments