گرگ زادہ


میری بہت سی کہانیوں کی طرح یہ بھی ایک سچی کہانی ہے۔ اس کے تمام کردار میرے پاس ہی رہتے ہیں۔ جو بقید حیات ہیں وہ موت سے بد تر زندگی گزار رہے ہیں اور جو مر چکے ہیں ان میں سے کچھ بھوت پریت اور سایہ بن کرزندہ لوگوں کے جیون کو دہشت زدہ کر رہے ہیں اور کچھ دوسری قسم کے مردوں کی روحیں اپنی حسرتوں اور موہوم امیدوں کی وجہ سے ابھی تک بھٹکتی پھر رہی ہیں۔

میری اس خاندان سے بچپن کی جان پہچان ہے۔

ظہور خاں ایک وجیہ شخص اور انتہائی کامیاب بزنس مین تھا۔ دولت اس پر عاشق تھی۔ طلقا اس کا دست راست، منشی اور چوکیدار، سب کچھ تھا۔ ظہور خاں کی شادی اپنی دور دراز کی رشتہ دار، ماں باپ کی اکلوتی اولاد، نیائی خاتون کے ساتھ ہوئی۔ اس کے ننھیال اور ددھیال سب فسادات میں مارے گئے۔ ماں باپ بھی اس کی شادی کے تھوڑی دیر بعد واصل حق ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اچھی اولاد کی نعمت سے نوازا، پانچ لڑکے اور پھر دو لڑکیاں۔

طلقا کی پہلی شادی جس عورت کے ساتھ ہوئی وہ بانجھ تھی اور کچھ سالوں بعد فوت بھی ہو گئی۔ لحیم شحیم، طلقا چوہدری جسے ہم سب منشی چاچا کہتے، پہلے اسی خانداں کا ملازم تھا لیکن ظہور خاں کے اندھے قتل کے بعداس نے نیائی خاتون سے شادی کر لی۔ ایک ایسی شادی جسے بچوں نے دل سے قبول نہیں کیا تھا۔ طلقا کی ماں اینگلوانڈین گورنس تھی جو کہ اس خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے ہندوستان سے آئی تھی۔ طلقا اور ظہور خاں ہم عمر ہی تھے۔

ظہور خاں کے قتل کے وقت بڑا بیٹا بنگو خاں بمشکل بیس سال کا تھا۔ اچانک سر سے باپ کا سایہ اٹھ جانے سے کاروبار، زمینیں اور چاول کے کارخانے، سارا بوجھ اس کے ناتواں کندھوں پر آن پڑا۔ بالی عمر کا لڑکا سارا دن زمینوں میں الجھا رہتا، نہ کھانا کھانے کی سدھ، نہ بھلے برے کی بدھ۔ کاروبار دن بدن خراب ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی شادی بھی چھوٹی عمر میں ہی کر دی گئی۔ لڑکے کی طلقا چوہدری سے نہ بنی اور ماں بہو سے مطمئن نہ تھی۔

بالآخر وہ کاروبار طلقا کے حوالے کر کے گاؤں چلا گیا۔ اب کاروبار پر طلقا کی مکمل گرفت ہے۔ لیکن خاندان کے اندرونی حالات سدھر ہی نہیں رہے۔ منجھلے دونوں بیٹے میرے ہم جماعت تھے۔ باپ کی زندگی میں دونوں بہت شوخ اورشرارتی۔ اکٹھے سکول سے بھاگنا۔ مدرسے کے مولوی کے گھر پٹاخے پھینکنا۔ گھر آکر وی سی آر پر فلمیں اور چتر ہار دیکھنا۔ ظہور خاں کے آنے پر فوراً کتابیں لے کر پڑھنے بیٹھ جانا۔ خاں صاحب نے ڈانٹنا ”اؤ منڈیو! ہر وقت چٹے چٹے پٹ ہی دیکھتے رہتے ہو، شرم کیا کرو۔“ ماں نے فوراً کہنا کہ ایسی باتیں بچوں کے ساتھ نہ کیا کریں۔ وہ تو سب پڑھ رہے ہیں۔ باپ کا سایہ سر سے کیا اٹھا کہ وہی وارفتہ مزاج لڑکے خوف زدہ اور محتاط رہنا شروع ہو گئے۔ ان کے گھر کی رونقیں ہی ماند پڑ گئیں۔ انڈین فلمیں دیکھنے پر پابندی لگ گئی۔ ہمارا بھی آنا جانا کم ہو گیا۔ پھر ایک ایک کر کے درمیان والے دو بچوں کی شادی ہوگئی۔ دونوں منشی چاچا کے ساتھ کاروبار میں مدد گار ہیں۔

ہر وقت منڈیوں کے بھاؤ کی کھد بد ان کے چہرے پر عیاں ہوتی ہے۔ لیکن طلقا کا غصہ اور ڈانٹ پھٹکار ان کی قسمت میں لکھی جا چکی ہے۔ ”سب حرام خور ہیں۔ باپ پلوں کو دودھ پیتا چھوڑ گیا ابھی تک ان کی عقل داڑھ نہیں نکلی۔ جاہل کے جاہل، جو کام بھی ان کے ذمہ لگائیں، خراب کر دیتے ہیں۔“ ان کی بیویاں دن بھرنوکرانیوں کی طرح کام کرتی ہیں اور شام کو طلقا کی گالیاں اورگھرکیاں بھی سہتی ہیں۔ طلقا گھر آ جائے توسارا خاندان اس کے اردگرد ہی گھومتا رہتا ہے۔

وہ مہادیو کا نادیا، بیڈ پر وزنی پپوٹوں کو میچے پاؤں پسارے بیٹھا رہتا ہے۔ ایک بیٹا ٹانگیں دبا رہا ہوتا ہے تو بہو سر میں تیل کی مالش کرتی نظر آتی ہے۔ نیائی خاتون شوہر کے سامنے بے بس نظر آتی۔ صبح کا آغاز ہوتا ہے تو وہ مونچھوں کو تاؤ دے کر انگوچھا کندھے پر ڈالے تینوں لڑکوں کے ہمراہ منڈی کی طرف چل پڑتا ہے۔ چڑھواں جوتا اڑائے، چلتے ہوئے جب وہ ایڑی زور سے زمین پر مارتا ہے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ ان سب کی اس کے نزدیک کوئی قدر نہیں۔ چھوٹا لڑکا اور دونوں لڑکیاں ماں کے پاس رہ جاتی ہیں۔

اس سال اس نے ایک اور لڑکے کی شادی کردی۔ اب کی بار وہ کہتا تھا کہ لڑکی اپنے خاندان سے لائے گا۔ وہ لڑکی جو اس کے زیر سایہ پلی بڑھی ہو۔ اس کی یہ بہوچال چلتر میں کافی تیز ہے۔ مزاج میں ایک عجیب قسم کی تمکنت پائی جاتی ہے۔ اسے پتا ہے کہ اس گھر میں کامیابی سسر کی ہر بات ماننے میں ہے، وہ خوش تو سارا جہاں خوش۔ بات چیت میں بہت مشتاق ہے۔ ابو جی، ابو جی کرتے اس کی زباں نہیں تھکتی۔ پہلا بچہ ہوا تو زخم میں پیپ پڑ گئی۔

میرے پاس پٹی کروانے آتی تھی۔ ہائے ابو جی، ہائےابو جی ہی پکارتی رہتی۔ میں نے پوچھا کہ اس کی ماں نہیں؟ ان دنوں میں تو عورتیں ماں کا نام ہی لیتی ہیں۔ بڑی نند بولی ”اس کا ابو سے بہت پیار ہے۔ اپریشن کے بعد جب ہوش میں آئی تو اس وقت بھی ابو کو ہی بلا رہی تھی۔“ یہ بتا رہی تھی کہ گرگ باراں دیدہ، طلقا چوہدری اندر آ گیا۔ وہ خاموش ہو گئی۔ خاموشی میں بھی ایک ٹیلی پیتھی ہوتی ہے جو کہانی کا مخفی حصہ بھی نہاں کردیتی ہے۔ میں ساری بات سمجھ گیا۔ میں نے اس کے خاوند کی طرف دیکھا اس کی مجروح و مضروب روح گردن جھکائے زمین پر لگی لکیریں گن رہی تھی۔

اب گھر کا سارا نظم و نسق اس بہو کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی کسی اور فرد سے نہیں بنتی۔ ساس کو بھی اس نے دبا کر رکھا ہوا ہے۔ وہ مکاری وعیاری میں تو بہت چترائی ہے لیکن گھر گرہستی میں خاک بھی نہیں۔ وہ بچہ ساس کی گود میں ڈال کر خود بے فکری سے گھومتی پھرتی رہتی ہے۔ دونوں نندیں اور سب سے چھوٹا بیٹا بھی سارا دن کڑھتے رہتے ہیں۔ ایک دن تینوں نے ماں کو گھیر لیا اور پوچھا کہ آپ نے منشی چاچا سے کیوں شادی کی؟ ماں کہنے لگی ”تم سب بہت چھوٹے تھے۔ کاروبار کو تباہی سے بچانے کے لئے یہ ضروری تھا۔“

بچے بولے ”لیکن اب تو کاروبار کے ساتھ خاندان بھی تباہ ہو رہا ہے۔ رما جما سب لٹتا جا رہا ہے۔ ہم سب سے اچھا تو بڑا بھائی رہ گیا جو اسی وقت علیحدہ ہو گیا اور اب وہ ایک کامیاب زمیندار ہے۔

ماں دیکھو! اس عمر میں تم بچہ سنبھال سکتی ہو؟ ہمارا وہ بھائی جو سب سے زیادہ تابعدار ہے، کیا تم کہہ سکتی ہو کہ وہ کبھی دلہا بنا تھا؟ کبھی وہ دلہن کو بیاہ کر لایا تھا یا کبھی اس کے سنگ اٹھا بیٹھا ہے؟ اس کو کیا ملا؟ ساری دنیا تھو تھو کر رہی ہے۔ تم کانوں میں تیل ڈالے کب تک بیٹھی رہو گی۔

ماں! ایسی زندگی سے موت اچھی۔ ماں! ہمت کرو، جوان بیٹے تمہارے ساتھ ہیں۔ تم اس سے کیوں ڈرتی ہو۔ کاروبار تو تمہارے بیٹوں نے ہی سنبھالا ہوا ہے۔ نفع کہاں جاتا ہے؟ کچھ معلوم ہے؟ تم کھلی آنکھوں دیکھتے یہ ذلالت کیوں برداشت کر رہی ہو۔ ”

ماں نے سر جھکا کر گود میں لیٹے نومولود کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ ایسا اندھیرا جس میں گرگ زادے کے چمکتے ہوئے ڈھیلے اس کا دل دہلا رہے تھے۔ یہ اخگر اس کے سینے کی آگ کو بھڑکا رہے تھے اور اس کا پورا خاندان کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments