مارچ 2021 میں سینیٹ کے انتخابات اور عمران خان کی بدلتی ہوئی حکمت عملی


مقتدر حلقوں، حکمران پی ٹی آئی اور اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں سمیت ملک کی تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتوں نے اگرچہ آئندہ برس مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے الیکشن کو اپنے اپنے اہداف کے حصول اور طویل سیاسی منصوبہ بندی کا محور بنا لیا ہے تاہم اپوزیشن کی حکمت عملی میں رواں سال فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گیا ہے اپوزیشن جماعتوں نے اس سے پہلے پہلے اسٹیبلشمنٹ کو ملک میں نئے عام انتخابات کروانے پر مجبور کرنے کے لئے حکمت عملی وضع کرنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان نے سینیٹ انتخابات کے متوقع نتائج کی بنیاد پر انتہائی اہم فیصلہ کر لیا ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ اس کے برعکس منصوبہ بندی کر رہی ہے اور یوں حکمران جماعت اور مقتدر حلقوں کی طرف سے مختلف سمتوں میں کوششیں کیے جانے کا امکان ہے۔

ذرائع کے مطابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے چیئرمین، وزیراعظم عمران خان نے مارچ 2021 میں سینیٹ کی 50 فیصد نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے فوری بعد اسمبلیاں توڑ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ نئے عام انتخابات کے ذریعے قومی اسمبلی میں اپنی حالیہ thin majority یعنی سکڑی اکثریت کو بھاری اکثریت یا کم از کم واضح برتری میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جاسکے۔ واضح رہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کو مجموعی طور پر کم از کم 3 صوبوں میں عددی برتری حاصل ہونے کی بنا پر سینیٹ کے آئندہ انتخابات میں مزید نشستیں حاصل ہو جانے سے اکثریتی پوزیشن حاصل ہو جائے گی۔

دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کی کوشش ہے کہ سینیٹ الیکشن میں زیادہ سے زیادہ ”اپنے بندے“ جتوا کر ایوان بالا کا کنٹرول اپوزیشن سے چھین کر اپنے ہاتھ میں لیا جاسکے اور آئندہ جسے بھی وزیر اعظم بنایا جائے اسے اور اس کی پارٹی کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پر کنٹرول حاصل نہ ہونے پائے بلکہ اسے صرف قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہو، تاکہ پارلیمنٹ کو مکمل طور کسی سیاسی قوت کے کنٹرول میں دینے کی بجائے طاقت کے اصل مرکز کے ہاتھ میں ہی رہے اور پارلیمانی اکھاڑ پچھاڑ میں مقتدر قوتوں کا فیصلہ کن کردار زیادہ موثر انداز میں برقرار رہے۔

ادھر اپوزیشن جماعتوں نے اس امر کو یقینی بنانے کی غرض سے کہ با اختیار حلقوں کو رواں سال دسمبر تک ملک میں نئے انتخابات کروانے پر مجبور کیا جاسکے، نئے سرے سے منصوبہ بندی شروع کر دی ہے جس کے باعث اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کا ایجنڈا یکسر تبدیل ہوجانے کا امکان ہے، واضح رہے کہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اس بنا پر اپنی جماعت کو اے پی سی میں شرکت سے درپردہ منع کر چکے ہیں کہ یہ ”اسٹیبلشمنٹ کی گیم“ ہے جس کا مقصد ”ان ہاؤس“ تبدیلی کے لئے اپوزیشن کی متفقہ حمایت حاصل کرنا ہے، لہذا نئی صورتحال میں غالب امکان ہے کہ اب اپوزیشن کی یہ اے پی سی اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد کے لئے استعمال ہونے کی بجائے ایک ”آزادانہ“ اے پی سی ہوگی جس کا مقصد و محور صرف اور صرف ملک میں نئے انتخابات کروانے کے مطالبے پر مبنی دباؤ بڑھانا ہوگا، لہٰذا ممکن ہے ”نون“ لیگ بھی اپنا فیصلہ تبدیل کرکے اپوزیشن کی اے پی سی میں شریک ہو جائے تاہم اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے اے پی سی میں شریک ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

آئندہ سال مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن میں پیپلزپارٹی کے قائد سابق صدر مملکت آصف زرداری کی توجہ اور دلچسپی کا محور بلوچستان بتایا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق آصف زرداری سینیٹ کے آئندہ الیکشن میں سندھ سے پارٹی کی نشستوں کے ممکنہ خسارے کو بلوچستان سے پورا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ خدشہ ہے کہ حکمران جماعت پی ٹی آئی ایم کیو ایم جیسی اتحادی جماعت کے اشتراک سے سندھ سے سینیٹ کی کچھ نشستیں چھین سکتی ہے لہذا اس ممکنہ نقصان کے ازالے کی غرض سے دور کی کوڑی لانے کی شہرت رکھنے والے آصف زرداری سردار اختر مینگل کے ساتھ مل کر بلوچستان سے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کا منصوبہ بناچکے ہیں جبکہ اسی سلسلے میں مستقل قریب میں بلوچستان کی صوبائی حکومت تبدیل کرنے کی کوشش بھی کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ آنے والے دنوں میں گلگت بلتستان اسمبلی کا الیکشن بھی پیپلز پارٹی کے قائد کی ترجیحات میں شامل بتایا جاتا ہے تاکہ سندھ کے علاوہ 2 مزید وزرائے اعلیٰ کو وفاق کے سامنے کھڑا کیا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments