سیاست اور جرائم کا باہمی گٹھ جوڑ


ہمارا سیاسی، انتظامی، قانونی اور معاشی نظام واقعی ایک بڑی تبدیلی چاہتا ہے۔ اگر ہم نے واقعی مثبت انداز میں آگے بڑھنا ہے تو تبدیلی کا یہ عمل ناگزیر ہوگیا ہے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ معمولی پیچ ورک یا روایتی طور طریقوں سے ہم اپنے نظام میں بہتری پیدا کر سکتے ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں۔ کیونکہ اب جو مسائل کی سنگینی ہے وہ کچھ بڑے اور غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ اگرچہ اہل دانش کا ایک بڑا طبقہ یہاں ملک میں کرپشن، بدعنوانی، لاقانونیت اور نظام میں موجود مختلف طرز کے ریاستی و حکومتی سرپرستی میں چلنے والے مافیا ز کو کوئی بڑا خطرہ نہیں سمجھتے اور ان کا خیال ہے کہ یہ سب نعرے غیر جمہوری قوتوں کے ہوتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت میں شفافیت، جوابدہی، احتساب اور عدم مافیاز کو تقویت دیے بغیر حقیقی جمہوری نظام چل سکتا ہے، ممکن نہیں۔

ہمارا سیاسی اور جمہوری نظام سمیت دیگر ادارہ جاتی نظام میں شفافیت پر مبنی اصلاحات کیونکر نہیں ہوسکیں اور اگر کچھ اصلاحات کی جاتی ہیں تو اس پر عملدرآمد کا نظام اس قدر ناقص اور فرسودہ ہوتا ہے کہ اصلاحاتی عمل کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ جب اس طرز کے سوالات کچھ حلقوں کی جانب سے اٹھائے جاتے ہیں تو اسے بلاوجہ جمہوریت یا سیاسی نظام کی دشمنی کی بنیاد پر دیکھ کر رد کیا جاتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہمارا مجموعی نظام مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ جو بھی اس مافیاز یاطاقت ورطبقات کو ختم یا کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اسی ریاستی وحکومتی نظام کے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ عمل مجموعی طور پر کچھ بڑا کرنے کی بجائے اس نظام کو سیاسی، سماجی، انتظامی اور قانونی سمجھوتوں کی طرف دکھیل دیتا ہے۔

حا ل ہی میں کئی سالوں سے سندھ میں سانحہ بلدیہ، عزیر بلوچ اور ڈاکٹر نثار مورائی کے تناظر میں بننے والی جے آئی ٹی کی رپورٹس کو جان بوجھ کر پش پشت ڈال دیا گیا یا اس میں تاخیری حربے اختیار کیے گئے تھے۔ اب جب یہ رپورٹس عوامی دباؤ کی بنیاد پر سامنے آئی ہیں تو اس کی عملی تصویر ہمارے سیاسی، انتظامی، قانونی یا ریاستی وحکومتی نظام کی سامنے آتی ہے۔ ریاستی، حکومتی ادارے، سیاسی قیادت سمیت جمہوری سیاسی جماعتیں کس طرح سے جرائم پیشہ افراد کی سیاسی پشت پناہی کرتی ہیں یا کیسے سیاسی کارکنوں کو جرائم پیشہ سیاست کا حصہ بنا کر ان کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی فرد جو بڑے پیمانے پر جرائم کرتا ہے وہ بغیر کسی بڑی سرپرستی کے کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہی ہے کہ یہاں ریاستی وحکومتی سطح پر طاقت ور افراد جرائم پیشہ افراد کی سیاسی پرورش کرتے ہیں اور یہ جرائم پیشہ افراد ان ہی بڑی طاقتوں کے آلہ کار بن کر جرائم کی دنیا کا رخ کرتے ہیں۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ بالخصوص عزیر جان بلوچ پر وفاق اور سندھ کے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ اول پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ یہ رپورٹ جعلی ہے اور اس میں ایک خاص مقصد کے تحت ٹمپرنگ کی گئی ہے۔ اس کا مقصد پیپلز پارٹی کی بڑی قیادت یا بڑے ناموں کو بچانا ہے۔ وفاقی وزیر علی زیدی نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ازخود نوٹس لے کر اصل رپورٹ کو سامنے لائیں اور وہ یہ رپورٹ خود سپریم کورٹ میں پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔

جبکہ سندھ حکومت کے بقول یہ رپورٹ ہی اصل ہے۔ دوئم اگر سندھ حکومت کا موقف درست ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس رپورٹ میں کیا وجہ ہے جرائم کرنے والے لوگوں کا تو تفصیل سے ذکر ہے، لیکن جو لوگ، گروہ یا جماعت حکومتی سرپرستی میں ان جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے رہے ہیں ان کے ناموں کو سامنے کیونکر نہیں لایا گیا۔

روشنیوں کا شہر کراچی کی تباہی و بربادی کی کہانی کافی پرانی ہے۔ ایک ایسا شہر جس پر پورے ملک کی معیشت کا نظام جڑا ہو اسے کیسے جرائم پیشہ افراد دیا دہشت گردی سمیت کاقانونیت، بھتہ خوری، بوری بند لاشوں اور مسلح افراد کا شہر بنا، جو ہمارے ریاستی نظام کے لیے خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جب بھی یہاں سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام میں جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کی بات کی جاتی ہے تو ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں اس کو مسترد کرکے اسے اپنے اور سیاسی نظام کے خلاف ایک بڑے سازش سے جوڑتے ہیں۔

اس سے قبل یہ ہی سیاسی جماعتیں اس بات سے بھی انکاری تھیں کہ ان کی جماعتوں میں مسلح گروپس موجود نہیں ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان جماعتوں کے افراد کو کیسے مسلح کیا گیا اور کیسے طاقت اور تشدد کی سیاست کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعما ل کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جے آئی ٹی کی رپوٹ میں یہ تو ظاہر کر دیا گیا کہ ان جرائم پیشہ افراد نے کیا کیا جرائم کیے مگر اس بات کو چھپایا گیا ہے کہ کہ ان لوگوں نے یہ جرائم کس کی مدد یا سرپرستی میں کیے اور کس کے حکم پر ان کو یہ ساری طاقت حاصل تھی۔

پولیس اور انتظامیہ کو کیسے ہم نے سیاسی بنیادوں پر چلایا اور کیسے ہم ان اہم اداروں میں اپنی مرضی کے لوگوں کو بھرتی یا ان کی اہم عہدوں پر تقرری کرکے وہ سب کچھ کرنا چاہتے تھے جو ان کی طاقت کی سیاست کا مرکز تھا۔ پولیس اور انتظامیہ میں موجود ان سیاسی کارکنوں کی فوج در فوج نے قانون کی حکمرانی یا ریاستی مفاد کے مقابلے میں اپنی سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا۔ جس نے بھی ان کے ایجنڈے کو چیلنج کیا یا مزاحمت کی اس کے خلاف بے دریغ طاقت کا استعمال کیا گیا یا اسے قتل کیا گیا۔ ہماری سیاست اور جمہوریت کا یہ سیاسی چہرہ یقینی طور پر جمہوری نظام کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اور یہ خطرہ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں بدستور موجود ہے۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ ہم جے آئی ٹی یا ان سیاسی جماعتوں اور ان سے جڑے جرائم پیشہ افراد کا ماتم کریں یا ہمیں مستقبل کے تناظر میں اس نظام کو کیسے بہتر بنانا ہے اس پر بات کرنی چاہیے۔ اب ہم اپنی ریاست میں ایک ایسے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں جہاں ایک بہت ہی بڑی اصلاحات کا عمل ہمیں درکار ہے۔ سیاسی جماعتوں، ریاستی و حکومتی اداروں، پولیس، انتظامیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ اور تفتیش کے نظام میں بہت کچھ بدلنا پڑے گا۔ یعنی ایک بڑی سرجری کا یہ نظام تقاضا کرتا ہے تاکہ ہمیں اپنے اداروں کی خود مختاری کو یقینی بنا کر قانون کی حقیقی حکمرانی کو طاقت دے سکیں۔ یہ نظام جس انداز سے چلایا جا رہا ہے ایسے میں یہ نظام نہ توچل سکے گا اور نہ ہی اسے درست کیا جاسکے گا۔

اسی طرح جو جماعتیں وہاں مسلح ہیں یا تشدد کی سیاست پر یقین کرتی ہیں یا جرائم پیشہ افراد سے ناتا جوڑے ہوئی ہیں ان کو کیسے سیاسی جمہوری دائرہ کار میں لایا جائے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہی ہے کہ اول خود سیاسی جماعتیں اپنے اندر موجود ان مسائل سے نکلنے کے لیے بڑے فیصلے کریں تاکہ خود احتسابی کے نظام کے تحت بہتری کا سفر شروع ہو۔ دوئم قانون نافذ کرنے والے ادارے بلاتفریق خود ان جرائم پیشہ افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں اور بشمول ان کو بھی جو ان جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے ہیں۔ جے آئی ٹی کی اس رپورٹ کی بنیاد پر ہم کراچی کو دوبارہ حقیقی کراچی میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ریاستی و حکومتی سطح پر ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ اور ہر طرح کی سیاست کی پسند و ناپسند سے بالا تر ہوکر کڑوے فیصلوں کی طرف بڑھنا ہوگا۔

اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا سندھ حکومت ان جے آئی ٹی کی بنیا د ان لوگوں کے خلاف کوئی بڑ ی کارروائی کرے گی جو اس رپورٹ کے مطابق مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ کیونکہ اگر اس رپورٹ کے بعد سندھ حکومت نے کچھ نہیں کرنا اور سیاسی سمجھوتے کے تحت اس مسئلہ کو دبائے رکھنا ہے تو اس سے رپورٹ کے اجرا کی اہمیت بھی ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اس طرز کی رپورٹس کے اجرا پر ہماری سیاسی قیادتیں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی مدد سے کھیل کھیلتی ہیں اور مقصد ان معاملات کو سیاست کے نذر کرنا ہوتا ہے۔ اس وقت بھی ان رپورٹس کے اجرا پر وفاق اور سندھ کے درمیان ہمیں محازآرائی یا سیاست دیکھنے کو مل رہی ہے اور دونوں فریقین ایک دوسرے کو چیلنج کرکے قانونی معاملات میں سیاست کرکے الجھارہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ واقعی قومی سیاست کے لیے بڑی بدقسمتی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments