ہمارے عظیم دفاعی مفکرین: زید حامد اور اوریا مقبول جان اینڈ کو



ملک کی موجودہ سیاسی، معاشی و اقتصادی حالت پر عوام کی خاموشی نے پاکستان میں ماضی میں اٹھی تمام سیاسی اور احتجاجی تحاریک پر سوال کھڑا کر دیا ہے، ثابت ہوا کہ ماضی کی سب تحاریک ”فرمائشی“ تھیں اورمقتدرہ جیسے چاہتی، جس کے خلاف چاہتی تحریک کھڑی کروا دیا کرتی، آج بھی مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کے پیچھے بھی مقتدرہ کے ہی چند ناراض عناصر کا ہاتھ تھا اسی وجہ سے اس تحریک کو جعلی ضمانتیں دیں گئیں اور ان کے پیچھے ہٹتے ہی، ان کے سرپرست عناصر کو بے اثر یا ”فکس اپ کر دیا گیا۔

گویا ہمارے معاشرے میں بہت سی انسانی اقدار کی طرح عوام میں حریت پسندی، رواداری، انصاف پسندی اور سیاسی اعلیٰ شعور کی بھی موت ہو چکی ہے بلکہ ایک منصوبہ بند طریقے سے ان مثبت جذبوں کو قتل کیا جا چکا ہے اور اس قتل مسلسل سے اڑتے خون کے چھینٹے ہم آئے روز اپنے آس پاس دیکھ رہے ہیں اور اکثریت اظہار راے کے آئینی حق پر ظالمانہ پابندیوں پربھی کوئی احتجاج کرنے کو تیار نہیں۔ عوام کے روایتی تماش بینی کے شوق کے پیش نظر، اور ان کے جذبات کو ایک غلط راستے کی طرف موڑنے کے لیے کبھی عوام کی اعتقادی جاہلیت کو مہمیز اور تسکین دینے کے لیے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پر اپنے آزمودہ مددگاروں سے احتجاج کھڑا کروایا جاتا ہے اور دوسری طرف داعش فیم مولانا عبدالعزیز کو اس کے جنونی گوریلوں سمیت دوبارہ سے تھپکی دے کر اسلام آباد میں مذہبی جنونیت کی آڑ میں بڑے پیمانے پر فساد پھیلانے اور اصل توجہ طلب امور سے عوام کی توجہ ہٹانے، اور اس جنونی طبقے کو سول سوسائٹی کی طرف سے بلند ہونے والی چند آوازوں کو اس طبقے کی طرف سے تشدد کے ذریعے خاموش کروانے کی شاطرانہ منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

یہ منصوبہ بندی کرنا اتنا ہی آسان ہے کہ جیسے اپنے حریف دشمن کے بجائے، چاند ماری کے میدان میں نصب سنگین کی مشق کے لیے نصب بے جان“ بھس بھرے پتلے ”کے خلاف“ منصوبہ بندی ”کی جائے۔ یہ منظر نامہ حالات کا شعور رکھنے والے، مخلص پاکستانی عوام کے لیے ایسا ہی تکلیف دہ ہے کہ جیسے کوئی اپنے محبوب کو اپنے سامنے کسی شدید مرض کا شکار ہو کر دھیرے دھیرے موت کی طرف بڑھتے دیکھے۔ عوام کی ناخواندہ یا اوسط خواندہ اکثریت میں منصوبہ بند طریقے سے پیدا کی جانے والی جاہلانہ مذہبی جنونیت اور اس بارے میں پرتشدد رویوں کے اظہار کی حوصلہ افزائی کر کے اس جنونیت کو، معاشرے کے شعور کو خوفزدہ رکھنے اور بوقت ضرورت پرتشدد طریقے سے نشانہ بنانے کے لیے ، ایک ہتھیار کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے اور ایسا کرتے اور ایسی ذہنیت کی حوصلہ افزائی اور پرورش کرتے یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ ایسے اقدامات سے مہزب دنیا تک پاکستان کا کیسا تاثر بھیجا جا رہا ہے، اندرون ملک ایسے ہی مجرمانہ، غیر انسانی اقدامات، اور رویوں کی وجہ سے کشمیر کے مسئلہ تک پر کوئی ملک ہماری بات سننے تک پر تیار نہیں ہوتا۔

یہ تو اقدامات اور رویوں کی ایک سطح ہے جو پاکستان کے عوام کے بنیادی آئینی اور انسانی حقوق کے خلاف روا رکھے جا رہے ہیں، اور دوسری سطح وہ ہے جہاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی عارضی نشست کے لیے بھارت کو ووٹ بھی دیا جاتا ہے، امریکہ کی ہدایت پر پاکستان کا مالیاتی نظام بلکہ سٹیٹ بینک تک عالمی اداروں کے تنخواہ دار کارندوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے، اور دورہ امریکہ کے دوران کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے بھارتی اقدام پر کوئی عملی قدم نہ اٙٹھانے کی یقین دہانی کروائی جاتی ہے، افغانستان پر امریکہ کو“ ہمیشہ کی طرح ”غیر مشروط تعاون کی پیشکش کی جاتی ہے کہ امریکی صدر سرعام یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ پہلے والی سیاسی حکومتیں امریکی مفادات اور احکامات پر تعاون نہیں کر رہی تھیں جبکہ یہ حکومت ہماری ہر بات مان رہی ہے، اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس“ بیش قیمت ”تعاون کے عوض اب بھی امریکہ ہمیں کوئی اقتصادی یا دفاعی امدار دینے کو تیار نہیں، بلکہ امریکہ کی طرف واجب الادا کروڑوں ڈالر کے“ کوالیشن فنڈ ”کے بقایا جات دینے تک پر تیار نہیں، مسئلہ کشمیر اور بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف کی جانے والی جارحانہ اور تخریب کارانہ سرگرمیوں کی مخالفت کرنے پر تیار نہیں بلکہ اب تو امریکہ ایسی بھارتی کارروائیوں کو اپنے احکامات کی تعمیل کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھی استعمال کرنے لگا ہے۔

ترکی سے گن شپ ہیلی کوپٹرز کی پاکستان کو فراہمی کا سودا صرف اس وجہ سے پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا کہ پاکستان کو دیے جانے والے ہیلی کوپٹرز میں امریکی انجن نصب تھا جو پاکستان کی وجہ سے امریکہ نے دینے سے انکار کر دیا، یوں یہ سودا بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ جو کلبھوشن پاکستان کی سیاست میں ایک ایسا آئیکون بن چکا تھا کہ جس کا ذکر بار بار نہ کرنا بھی سابقہ حکمرانوں کا جرم بتایا جاتا رہا اور اب یہ بے نمکی، کہ ہم خود بھارت اور“ جناب کلبھوشن ”سے منت نما درخواستیں کر رہے ہیں کہ وہ اس کی رہائی کے لیے“ اپیل ”دائر کریں، شواہد کے مطابق اس سلسلے میں“ اتفاق اور فیصلہ ”تو پہلے ہی ہو چکا ہے اب صرف بھارت ہمیں ذرا سفارتی سطح پر“ مزید ”گندا کرنا چاہ رہا ہے۔

ایک طرف تو عظیم دفاعی مفکر زید حامد اور اوریا مقبول جان اینڈ کو سادہ لوح عوام کو ڈھائی سو سال پہلے کی“ شاہ عنایت ولی ”کی پیش گوئیوں کے مطابق“ غزوہ ہند ”کا مژدہ سنا رہے ہیں اور دوسری طرف یہ حال ہے کہ“ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے ”والی کیفیت ہے۔ بحیثیت ایک قوم کے یہ ہمارے لیے فیصلہ کن وقت ہے جب ہم نے اپنی منزل کا حتمی طور پر تعین کرنا ہے لیکن بدقسمتی سے جیسے حالات و اقدامات نظر آ رہے ہیں ان سے ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ ہمیں سیدھا اسی گڑھے کی طرف لے جایا جا رہا ہے جو ہمارے دشمنوں نے ہمارے لیے تیار کر رکھا ہے اور اب یہ اتنا قریب آ چکا ہے کہ اس میں جلتی آگ کی تپش تک ہم کو اپنے چہروں پر محسوس ہو رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments