شیخ منظور الٰہی کی نثر نگاری پر ایک نظر


” یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں“ میں وہ اس جہان رنگ و بو سے رخصت ہونے والے احباب اور اعزہ کی یاد میں اشک فشاں نظر آتے ہیں۔ چھوٹے بڑے واقعات سے بھری ہوئی یہ تحریریں ان کے جذبات کی تصویر کشی کرتی ہیں اور رشتہ و پیوند کے اس جہان کی وضاحت کرتی ہیں جس میں محبت ہے، یگانگت ہے، آنسو ہیں اور صبر و قرار کے تجربوں کا بیان بھی۔ ان واقعات کے بیان میں تسلسل اور بہاؤ ہے جو قاری کو ساتھ ساتھ لئے چلتا ہے۔ بہت سی مثالیں ہیں مگر ان تفصیلات کی گنجائش اس کالم میں نہیں، اس لئے صرف ایک دو مثالیں ہی دی جا سکتی ہیں۔ اپنے ایک عزیز کرنل احمد حسین مرحوم ( آرمی میڈیکل کور پاکستان) کی اچانک وفات پر ان کی طویل تحریر کا ایک چھوٹا سا اقتباس دیکھئے :

”اس ماتم کدے میں میری نظریں اس ماں کی زیارت کی متمنی تھیں جس نے احمد جیسا بیٹا جنا تھا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ ان سے لپٹ کر روؤں لیکن جب وہ آنسوؤں میں نہائی ہوئیں کمرے میں داخل ہوئیں تو میری ہمت نہیں پڑی۔ ماں کے غم کے سامنے میرے غم کی کیا حقیقت تھی لیکن چند گھنٹوں میں بلند حوصلہ ماں ایمان کی پختگی کی مظہر تھی۔ احمد کے چھوٹے بہن بھائی اس نے بیوگی میں پالے تھے اور پرورش بھی ایسی کی کہ دنیا اش اش کر اٹھی۔ اس نے زندگی کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور نہ کسی سے ہمدردی کی توقع کی“ ۔

اپنے دوست امان اللہ کی وفات پر شیخ منظور الٰہی کا مضمون کافی طویل ہے اور جذبات سے لبریز۔ اس کا ایک چھوٹا سا اقتباس دیکھئے :

”وہ ایک شمع کی مانند تھا جو تیزی کے ساتھ جلا کی۔ یہ جانتے ہوئے کہ شمع پگھل رہی ہے ہم اس سیل نور کا نظارہ کرتے رہے، اس کی ضو سے انجمن کا گوشہ گوشہ جگمگا اٹھا۔ ہمارا ندیم ہم سے روٹھ گیا، وہ بھرا میلہ چھوڑ گیا، ماہ و سال کی ریگ رواں شیشہً ساعت سے پھسلتی رہے گی، اپنے آنسو پی کر ہم آگے بڑھتے رہیں گے۔ غالب پوچھتے ہیں :“ مٹتا ہے فوت فرصت ہستی کا غم کوئی ”۔ ’فوت فرصت غم‘ یوں کب مٹتا ہے۔ اگر کم ہوتا ہے تو وہ ساعتیں یاد کر کے جو ایسے حبیب کی صحبت میں بسر ہوئیں، ربودگی کے وہ لمحے جو اس کی صحبت میں گزرے، گویا ماحصل زندگی تھے“ ۔

ان کی دوسری کتاب ”سلسلہً روز و شب“ میں آٹھ مضامین ہیں اور متنوع موضوعات پر ہیں۔ ”گئے دنوں کا سراغ“ اور ”مانوس اجنبی“ کے عنوان انہوں نے ناصر کاظمی سے مستعار لئے ( گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ، عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ ) ۔ ”گئے دنوں کا سراغ“ ، ”ورق گم گشتہ“ اور ”مانوس اجنبی“ ان کی ذاتی زندگی، ملازمت کے ایام کی یادوں اور ذاتی مشاہدات اور تجربات کے عکاس ہیں۔ ”پرنس کریم آغا خان“ اسماعیلی فرقے کے پیشوا پرنس کریم آغا خان کی شخصیت کا خاکہ ہے۔ ”میرا دوست میرا بھائی“ اپنے چھوٹے بھائی منصور الٰہی کی جواں مرگی کا نوحہ ہے۔ ”روندے نین نمانے“ اپنے دوست خلیل کی موت پر لکھا ہوا دل گداز مضمون ہے۔ ”خوشبو کی ہجرت“ اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں ایک بیٹے کے جذبات کا اظہار ہے اور ”ہم جلیس، ہم صفیر“ اپنے احباب شیخ محمد اکرام، حمید احمد خان اور سید فدا حسن کی یادوں سے معمور ایک دل پذیر بیان ہے۔ ہم نے دیکھا کہ شخصیت نگاری ان کا محبوب اور مرغوب موضوع ہے اس میں وہ اپنے ماحول اور زمانے کے خدو خال بھی اجاگر کرتے جاتے ہیں۔ وہ بظاہر شخصیت نامے ہیں مگر ان میں تاریخ، واقعات، تجربات و مشاہدات اور زمانے کے نشیب و فراز اس طرح جھلکتے ہیں کہ قاری ان سب میں اپنے آپ کو شامل سمجھتا ہے۔ ویسے تو سارے مضامین اہم ہیں مگر طوالت سے گریز کرتے ہوئے صرف ایک مضمون ”مانوس اجنبی“ کا مختصر ذکر یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس مضمون میں وہ تقسیم ملک سے پہلے اپنی فوجی ملازمت کے تجربات اور خاص طور پر دہلی میں گزارے ہوئے ایام کی دلکش جھلکیاں پیش کرتے ہیں۔ یہ مضمون انہوں نے اس وقت تحریر کیا جب آزادی کے کئی سال بعد وہ دھلی گئے اور اپنی یادوں کو تازہ کیا۔ اپنے پرانے دوستوں اور کچھ خاندانوں سے ملے جن سے ان کا میل ملاپ رہا۔ یہ مضمون بہت دلچسپ ہے تاہم ایک ہندو خاندان کے ساتھ اپنے انس اور محبت کا جس انداز میں ذکر کیا ہے، وہ قابل توجہ ہے :

” دلی کا روپ میرے لئے ایک مانوس اجنبی کا تھا۔ کار سرکار سے فراغت ہوئی تو بچھڑے دوستوں کی یاد آئی۔ سب سے پہلی یاد کانتا کی تھی جس کی تصویر پر برسوں کا غبار تھا، تہہ بہ تہہ غازہ، پھر بھی وہ تصویر کتنی صاف تھی۔ کانتا جس کے لبوں پر ایک اداس مسکرا ہٹ کھیلتی رہتی تھی، جسے ستار سے انس تھا، دلی کی تنہائیوں میں کانتا کا گھر ایک نخلستان تھا۔ اس مختصر خاندان میں میں گھل مل گیا تھا۔ مہینے میں دو ایک بار وہاں جانا معمول بن گیا تھا، میرے نہ جانے پر وہ آزردہ ہو جاتے۔ جب ہفتے کی شام میں زرعی تحقیقاتی ادارے کی طویل مسافت سائیکل پر طے کر کے وہاں پہنچتا تو انکل انکل کہتی ہوئی ننھی ٹنو میری آغوش میں آ جاتی، اس کے نقرئی قہقہے فضا میں تحلیل ہو جاتے“

قیام پاکستان کے کئی سال بعد وہ دوبارہ دلی گئے تو پھر کانتا کے گھر جانا ہوا۔ ”میں نے بمشکل گیلری میں قدم رکھا تھا کہ کانتا بھاگتی ہوئی آئی، کتنی بے ساختگی تھی اس کے پیار میں، سر کے بال سفید ہو گئے تھے، وہ پہلی سی کانتا کہاں تھی، اس کی ایک کاربن کاپی تھی، مدھم سی، جیسے خزاں نے گلشن اجاڑ دیا۔ پتی کے سر پر سفید بالوں کی گپھا، تازہ گری ہوئی برف کی مانند سپید۔ ادھر ادھر کی باتیں ہو چکیں تو میں نے پوچھا، کہیے ٹنو کا کیا حال ہے؟ میاں بیوی کی نظریں جھک گئیں، وہ فرش تکنے لگے۔ میں بھول رہا تھا کہ وقت آنکھ مچولی کھیل رہا ہے اور بتیس برس کا خلا ہمیں گھور رہا ہے۔“ ٹنو اب اس دنیا میں نہیں رہی ”کانتا آہستہ سے بولی۔

اس کے بعد آہوں اور اشکوں میں ڈوبا، کئی صفحات پر پھیلا ہوا ایک درد انگیز نوحہ ہے جو انہوں نے معصوم ٹنو کی یاد میں لکھا ہے مگر اس کی تفصیل اس کالم میں طوالت کے اندیشے سے نہیں دی جا سکتی۔

ان کی تیسری کتاب ”نیرنگ اندلس“ مسلم سپین کی ایک ایسی تاریخ ہے جو منظور الٰہی کے مخصوص اسلوب سے عبارت ہونے کے ساتھ ساتھ مستند حوالوں سے مزین ہے۔ بیس عنوانات کے تحت انہوں نے مسلم سپین کے ان سنہری خد و خال کو اجاگر کیا ہے جو ساڑھے سات سو سال تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں عروج و زوال کی ایک ایسی کہانی ہے جو امید افزا بھی ہے اور سبق آموز اور عبرت انگیز بھی۔ متعلقہ کتابوں کے مطالعے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ بچشم خود سپین کا سفر کیا، جس سے ان کی تحریر میں ذاتی مشاہدات اور تجربات کی جھلک بھی ہے۔ چند جملوں میں ان تفصیلات کا احاطہ کرنا دشوار ہے جو ”نیرنگ اندلس“ کے اوراق میں بکھری پڑی ہیں۔ تبرک کے طور پر چند جملے ہی پیش کیے جا سکتے ہیں :

” وہ کارواں گزر چکا جس کے حدی خواں دلوں کو برماتے تھے اور وہ راستہ جھاڑ جھنکار سے اٹ گیا۔ اب لٹے ہوئے قافلوں کا نام لیوا کوئی نہیں۔ وہ الاؤ سرد ہوا جس نے شب تاریک کا دل چیرا تھا۔ وہ شمع جل بجھی جس سے یورپ نے اکتساب نور کیا تھا“ ۔

چوتھی اور آخری کتاب ”ہم کہاں کے دانا تھے“ منظور الٰہی کی مختصر آپ بیتی ہے۔ میں نے اپنے ایک گزشتہ مضمون میں ذکر کیا تھا کہ یہ آپ بیتی نامکمل لگتی ہے۔ اندازہ ہے کہ وہ اسے پوری طرح مکمل نہیں کر سکے تاہم ان کی زندگی، شخصیت اور ماحول کے خدو خال بڑی حد تک اس میں اجاگر دکھائی دیتے ہیں۔ اس کتاب میں بھی بہت سی شخصیات کا تذکرہ ہے جن سے ان کا مختلف زمانوں میں ملنا جلنا رہا۔ اپنے سسر اور اپنے عہد کے نام ور سرجن شیخ امیر الدین کا ایک دلکش خاکہ بھی اسی کتاب میں ہے۔ کالم کی تنگ دامنی کی وجہ سے بہت سی تفصیلات چھوڑتے ہوئے صرف چند جملے یہاں پیش کیے جا سکتے ہیں جو انہوں نے اپنی اہلیہ زہرا کے لئے رقم کیے ۔ اپنی شادی کے بعد وہ لاہور سے روانہ ہوئے تو ان لمحوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

” لاہور سے نکل کر شیخو پورہ کا رخ کیا۔ پچھلی سیٹ پر دو نا آشنا مسافر تھے جنہوں نے دزدیدہ نگاہوں سے ایک دوسرے کو پہلی بار دیکھا، بات کرنے میں حجاب مانع تھا۔ بارے مہر سکوت ٹوٹا۔ موضوع کیا تھا، یاد نہیں۔ لب سڑک ایک شکستہ ریسٹ ہاؤس نظر پڑا۔ سوچا شاید یہاں سے چائے مل جائے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پرانی دری کی سلوٹ سے ہلکی سی ٹھوکر لگی۔ دلہن نے کہا، بسم اللہ۔ کیا مبارک کلمہ تھا اور کیا مبارک ساعت تھی کہ اس کی برکت عمر بھر سایہ فگن رہی۔ جو رشتہ رگ و پے کا حصہ بن جائے وہ حیطہً تحریر میں کیسے آئے، اس کا اظہار کیوں کر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments