ایک خط کسی کا، سب کے نام: (محمد سلیم الرحمن کی کتاب ’نظمیں‘)


یہ کیسا سفر ہے ! مانوس سے نامانوس کی طرف، یا جہان معلوم سے ایک جہان نامعلوم کا۔ یا ایک انفرادی تجربے کا بیان جو بالآخر ہمیں اپنی اجتماعی دنیا تک پہنچا دے۔ ذاتی سے اجتماعی (Personal to impersonal) کا یہ مسئلہ شاعری میں بہت پیچیدہ اور مبہم ہے۔ اس پر علیحدہ بحث کی جانی چاہیے۔ پچھلے چند برسوں میں شاعری کے جو مجموعے میرے مطالعے میں آئے، یہ ان سب سے مختلف ہے۔ مختلف تو خیر ہر نئی اور اچھی کتاب ہو سکتی ہے مگر اس مجموعے کے مزاج، اس کے انداز، تجربے، طرز خیال، لفظیات اور اسالیب میں ارضیت بہت ہے۔ پھیلائو، رنگارنگی، کثرت، گہرائی اور نیا پن بہت ہے۔ ایک دھیمی دھیمی سی بے نام غنائیت بہت ہے۔ نثری نظموں کی قبولیت کے موجودہ دور میں محمد سلیم الرحمن کی نظموں کا سریلا پن بظاہر ایک انہونی سی بات ہے مگر یہاں تو قدم قدم پر، کتاب کے ہر صفحے کے ساتھ، ہم اپنی جانی پہچانی زندگی کے دائرے سے نکل کر ایک غیر متوقع تخلیقی واردات، بیک وقت ایک مانوس، جانے پہچانے اور ایک اجنبی، انجانے تجربے تک جا پہنچتے ہیں۔ دھوپ چھائوں کا یہ کھیل محمد سلیم الرحمن کی شاعری کا امتیازی وصف ہے۔

مجھے ان کی مجموعی حسیت، ناقابل یقین ہونے کی حد تک مشکل، پرپیچ اور کثیر الجہات محسوس ہوتی ہے، شاید اپنے ہم عصر شاعروں میں سب سے مختلف اور اسرار آمیز۔ ہم اسے نہ تو کوئی ایک نام دے سکتے ہیں، نہ احساس و اظہار کی کسی ایک سطح کا پابند کہہ سکتے ہیں۔

یوں بھی، محمد سلیم الرحمن نے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ، شاعری کی جو ڈگر اپنائی ہے، وہ ہر اعتبار سے بہت کٹھن، بہت کٹھور اور غیر روایتی ہے۔ وہ ایک نیم راہبانہ زندگی گزارتے ہیں ۔ کم سے کم لوگوں سے ملاقات۔ بالعموم کہیں آتے جاتے نہیں، سوائے ریڈنگز کے، جہاں ہفتے میں بس ایک شام کا معمول ہے۔ ان کے پرانے دوست، ریاض چودھری ساتھ ہوتے ہیں، دو چار اور آ جاتے ہیں، باقی یہ کہ نوجوان طلبا و طالبات، کچھ صحافی، کچھ ادب کے شیدائی۔ یہ ایک الگ دنیا ہے۔ سلیم کو جلسے جلوس، مذاکروں مباحثوں، اردو شعر و ادب کی روایتوں، روایتی اداروں سے کوئی شغف نہیں، شہر کی بھیڑ بھاڑ سے دور، ایک علاقہ جہاں بقول منیر نیازی ۔۔۔۔ لوگ ہیں کم اور شاید پیڑ، پرندے زیادہ، وہیں ان کا ٹھکانا ہے، تنہائی اور خاموشی کے ساتھ جینا انہیں راس آگیا ہے۔ اس کی مثالیں کمیاب ہیں اور علم و ادب کا شغل اختیار کرنے والوں میں کچھ ہی لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے تنہائی اور خاموشی کی طاقت اور زرخیزی کے رمز سلیم کی طرح سمجھے ہوں۔ ترجمے، شاعری، کالم نویسی (اردو اور انگریزی، دونوں زبانوں میں ) افسانہ نگاری، تحقیق، تنقید و تبصرے کی سرگرمی جس شکل میں انہوں نے اختیار کی ہے، اس پر اچھے اچھوں کو رشک آئے گا۔ وہ ایک سکالر، نقاد، لغت نویس، عالم اور دانشور بھی ہیں اور ایک تخلیقی آدمی بھی۔ یہ دونوں رول آپس میں اس طرح گڈمڈ ہوئے ہیں کہ ایک کو دوسرے سے الگ کرنا اور قائم بالذات سمجھنا ممکن ہی نہیں رہ گیا ہے۔

سلیم کی تنہا روی کے باوجود ان کی شاعری اور افسانہ نگاری میں اپنی دنیا سے اور زمانے سے ایک منفرد رشتے کے رنگ بہت نمایاں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایک گہری انسان دوستی اور درد مندی کی زیریں لہر کے بغیر نہ شاعری کے کوئی معنی رہ جاتے ہیں، نہ فکشن کے۔ عام زندگی اور زمانے کی فہم و ادراک سے عاری ہر تخلیقی سرگرمی بے معنی ہے۔ سلیم کی بصیرت اور شاعرانہ حسیت میں جو کشادگی، وسعت اور تنوع پیدا ہوا ہے، اس کا ماخذ، بنیادی سطح پر، ان کی تین وابستگیاں ہیں۔ ایک رشتہ تو اپنے آپ سے جو انہیں اپنے کے ہر مقبول اور مروج رویے سے لاتعلق اور الگ رکھتا ہے، اور وہ نہ تو نو کلاسکیت کے پھیر میں آتے ہیں نہ تجدد پرستی کے۔ ان کی دوسری وابستگی اس عامیانہ اور بدصورت عہد کے ادراک سے ہے جس نے انہیں تنہائی بخشی، مگر وہ کبھی اس سے برہم، بیزار اور شاکی نہیں ہوئے۔ ان کی شاعری ایک نجی پہچان تو رکھتی ہے لیکن یہ رشتہ ان کی فکر اور ان کے منتخبہ پیرایہ اظہار کے علاوہ ان کے ذخیرہ الفاظ کو ایک گہری وجودی سطح تک لے جاتا ہے۔ انہیں کسی گروہ کا حصہ نہیں بننے دیتا۔ تنہا زدگی، بے چارگی، بطور فرد اپنی ناقدری، اور کسمپرسی کے احساسات سے اتنی آزاد اور وسیع المشرب ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ وہ جو ایک طرح کی محدود اور مریضانہ رومانیت ان احساسات کی زائیدہ ہوتی ہے، اس کتاب کی نظموں اور غزلوں پر اس کا سایہ کہیں نہیں ملتا۔

’’خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں ‘‘(جون ایلیا) اور ’’مری بربادیوں کا ہم نشینو۔۔۔۔تمہیں کیا خود مجھے بھی غم نہیں ہے‘‘(مجاز) اس طرح کے خیالات دماغ میں اپنی بے بسی کے احساس یا پھر زمانے کے ہاتھوں زیادتی کے چور دروازے سے داخل ہوتے ہیں۔ یہ بھی خود فریبی اور خود رحمی کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ عام سننے والوں کو ایسے اشعار اس لیے بھی اچھے لگتے ہیں کہ انہیں سمجھنے کے لیے سوچنا نہیں پڑتا۔ اس کے لیے حواس کی تہذیب اور تربیت نہیں کرنی پڑتی اور ابلاغ و ترسیل کے مسائل نہیں پیدا ہوتے۔ زیادہ تر (بالخصوص مشاعروں اور شعر خوانی کی محفلوں میں) اس نوع کے اشعار کے ساتھ ’’ از دل خیزد، بر دل ریزد‘‘ والا معاملہ ہوتا ہے۔ سلیم کے تخلیقی رویے پر ’’سکوت کی صدا بندی‘‘ ایک رچی ہوئی خود روی اور نجی پن  (Privacy)یا سرگوشی کا سا انداز چھایا ہوا ہے۔ یہ نظمیں اور اشعار بلند آواز کے ساتھ نہیں پڑھے جا سکتے۔ یہ نظمیں خلوت نشینی اور خاموشی کے ماحول میں کسی مدھم راگ کی طرح سنے اور پڑھے جانے کا تقاضا کرتی ہیں۔ ان کے حسی اور صوتی ارتعاشات نازک بہت ہیں، مہیب اور درشت تجربوں کے بیان میں بھی۔

اس کتاب کے مطالعے کے دوران، محمد سلیم الرحمن کے پیش روئوں میں میرا ذہن بار بار میرا جی کی طرف گیا یا پھر میر صاحب اور کبھی کبھی فراق کی لمبی بحروں والی غزلوں کی طرف۔ ان نظموں کی غنائیت اور مصرعوں کا تحرک مجموعی لحاظ سے گیتوں کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ بستی اور آبادی کے بے ہنگم شور سے دور، باغوں بنوں کے چہچہے یا صحرا کے سناٹے سے نمودار ہوتا ہوا۔ غالب نے ایک خط میں انور الدولہ شفق کو صلاح دی تھی کہ ان کی غزل ’’ہم ہیں مشتاق جفا ہم پہ جفا اور سہی ‘‘کسی مغنی سے رانگ جھنجھوٹی میں گوائی جائے۔ اس حوالے کا مقصد یہاں صرف اس امر کی نشان دہی ہے کہ ہر تجربے، ہر خیال کا رشتہ آہنگ اور آواز کی ایک خاص نہج سے ہوتا ہے۔ آواز صرف آواز نہیں ہوتی۔ اسی طرح لفظ صرف لفظ نہیں ہوتے۔ تخلیقی آدمی لفظ سے رنگ کا، کسی خاص ذائقے کا، خوشبو کا، لمس کا تجربہ کرتا ہے اور حسوں  (Sense) کے عمل کو آپس میں ادل بدل کر رکھ دیتا ہے۔ سوئن برن کے بیان کے مطابق :

Light is heard as music

Music seen as light

اس قسم کے باہمی تبدل کا عمل ’نظمیں ‘ میں جابجا دکھائی دیتا ہے اور اس سے ایک نہایت خوبصورت، مرموز، تخلیقی فضا رونما ہوئی ہے۔ سپاٹ، یکجہتی اور تجربے کی صرف ایک سطح تک محدود رہنے کی شاید بس ایک آدھ مثال یہاں ملتی ہے، حتیٰ کہ ایسی نظمیں بھی جو انسان دوستی کے عام اور مانوس و معلوم تجربے، کسی سیاسی واردات اور واقعے سے مربوط ہیں۔ ان میں بھی نثریت کا رنگ بہت دھیما ہے۔ اس پوری کتاب میں ایک شاعر، ایک مغنی، ایک مصور، ایک مجسمہ ساز اور ایک قصہ گو کی سرگرمیاں آپس میں گھل مل گئی ہیں۔ شاید اسی لیے سلیم کے یہاں نظموں اور اشعار میں صرف خیالات کی حکمرانی نظر نہیں آتی۔ خیالات اور تجریدی تجربے بھی چیزوں، رنگوں، آوازوں، ٹھوس مظاہر کے وسیلے سے اپنا انکشاف کرتے ہیں۔ اسی لیے، ان کی نظموں میں ناموں کا استعمال بکثرت ہوا ہے۔ اس سے ایک گھنا پن، ایک دبازت جنم لیتی ہے اور رنگوں یا اشیا اور اسما کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔

ہمارے زمانے میں گردوپیش کے مظاہر اور زمین کی رنگا رنگی کا بیان مجید امجد، مختار صدیقی، منیر نیازی اور اختر الایمان کے علاوہ شاید سب سے زیاد ہ سلیم کی نظموں میں نظر آتا ہے۔ ساون کی رات، بھور کا ٹھنڈا، میٹھا تارا، اڑتا سورج، پندرہ چاند، ہرے غرقاب، کھیتوں پر بچھی (روئے آب پہ کائی جیسی) ویرانی، شام، دوپہر، شفق کے رنگ، افق سے ابھرتے ستارے، دریا کے کنارے چھپتا سورج، روشنی کا کش، خرابے، شہر، ڈھنڈار بن، کالی کوئل، خزاں کی دوپہر، ٹوٹی پھوٹی خواہشیں اور خواب، صبح کے بھٹکے مسافر، دو لال ٹینیں، اور ایک کالی گاڑی ۔۔۔۔ یہ کیسی بھیڑ بھاڑ ہے، کیسا ہجوم، کہیں کسی طرح کا خالی پن نہیں، اکیلا پن نہیں۔ دنیا کے بھرے پرے ہونے کا تجربہ ہے۔ طرح طرح کے رنگوں، آوازوں، ذائقوں کا احساس دلاتا ہوا۔ اور یہ سارا تماشا تو صرف شروع کی نظموں کے عنوان سے ماخوذ ہے۔ انہی نظموں میں ایک نظم ’’ پندرہ چاند اور چودہ سورچ ڈوب چکیں تب میں دیکھوں گی ‘‘۔ اپنے محبوب کے انتظار اور ایک نئی کرشن لیلا رچانے کے تجربے کا احاطہ کرتی ہے، اردو کی عشقیہ شاعری سے وابستہ عام رویے کے برعکس جہاں عورت تو بس چپ رہنا جانتی ہے۔، پیا چلن کی آس اور برہ کے اس رنگ میں ڈوبی یہ کہانی سلیم نے جس مہارت کے ساتھ بیان کی ہے، اس سے ایک نئی دیومالا مرتب ہوتی ہے اور ہمیں میرا بائی کے گیتوں سے جھانکتی ہوئی دنیا کا پتا بتاتی ہے۔

سلیم کے ہم عصروں میں صرف صلاح الدین محمود نے یہ پتا نوٹ کیا، ایم ایس سبا لکشمی سے پوچھ کر، مگر اس کا فیض سب سے زیادہ خود سلیم کی نظموں میں نظر آتا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں۔ یہ میرا جی کے ’’دھیان کی موج‘‘ ہے، ان کا ٹھیٹ ارضی، جسمانی ادراک جس پر بھرت منی کے رس سدھانت کا گہرا سایہ ہے اور اظہار و بیان کی پگڈنڈی پر ایک جانی پہچانی راگ مالا کا۔ روزمرہ زندگی کی زبان اور بولی ٹھولی کے الفاظ، یہ ہمیں عظمت اللہ خاں کے سریلے بول اور میرا جی کے گیتوں کی یاد دلاتے ہیں۔ سلیم کے معاصرین میں شاید کسی نے بھی اس سطح پر اپنی زبان وضع نہیں کی، سلیم کی نظموں میں زبان اور ذخیرہ الفاظ محض وسیلہ اظہار نہیں، بجائے خود ایک تجربہ ہے، شاعری اور موسیقی کے علاقوں میں ایک ساتھ سفر کرنے کا۔ یہ تجربہ بیان کی بے خوفی اور احساسات کے پھیلائو کے ساتھ ساتھ اپنی روایت کو اپنے اندر تلاش کیے بغیر اور اردو شاعری کے عقبی میدان کی سیر کیے بغیر ہاتھ نہیں آ سکتا تھا۔ سلیم کی شاعری اور کہانیوں میں زبان و بیان کے اعتبار سے ان کی یہ روش غالباً اردو زبان و ادب کی حکائی  (Oral)روایت پر ان کی نظر اور لغات اور فرہنگ سے ان کے شغف کا حاصل بھی ہے۔ بولیوں سے اور کسی نے یہ کام نہیں لیا۔

سلیم کی شاعری کو، اس کی ایک الگ پہچان دینے والی تیسری وابستگی  (Engagement) ان کی چند مرکزی حیثیت رکھنے والی تخلیقی اور حسی ترجیحات، ان کے کچھ مرغوب تجربے یا Obsessions ہیں …! محبت، موت اور تیرگی، یا رات کی خاموشی میں جب رنگوں، آوازوں، ایک بھری پری ہزار شیوہ اور پرفریب دنیا کے تمام مظاہر پر ایک سیاہ چادر پھیل چکی ہو، ایک خلوت نشین شخص، اور آپسی شرطوں پر زندگی گزارنے والی ایک بے چین روح کیا سوچتی ہے، کس طرح سوچتی ہے، اس کی حسیت اور ادراک کے وسائل کیا ہیں … یہ سارے بھید کھلتے ہیں۔ اس گھنی، گونجتی، سائیں سائیں کرتی فضا میں یہ روح اپنے آپ سے کیونکہ ہم کلام ہوتی ہے، اپنے اظہار کے بجائے اپنے اخفا کے لیے، ایک خط لکھتی ہے ۔ تقریباً ساٹھ برسوں پر پھیلی ہوئی تخلیقی زندگی کے پس منظر سے نمودار ہونے والی شاعری میں اگر بار بار ایک احساس، ایک موضوع یا تجربے کی تکرار دکھائی دیتی ہے تو اس کا کوئی تو سبب ہو گا۔ خیال کی ایک لہر، کسی گم شدہ واقعے، کسی یاد کی ایک کسک ہے جو دھیان کے کسی بھی گوشے سے، کسی زاویے سے اچانک چپ چاپ سب کے سامنے آ جاتی ہے، شاعری کی زبان میں اور سب کے لیے شخصیت میں گہرائی ہو تو بھید اسی طرح کھلتے ہیں، بہ ہزار دقت !

’نظمیں‘ میں نو کی پیشانی پر تو “رات” کا عنوان ثبت ہے۔ ان کا آغاز یوں ہوا ہے۔

1 ۔ اتنی لمبی رات میں، سوچو، کون کہے بچھڑے افسانے

2 ۔ رات کتنی لمبی تھی، شمعیں بجھ گئیں ساری

3۔ خون اور خواب کی کڑوی فصل سے آباد رات کے چار کونے۔

4۔ مجھ کو باہر جانے دو، دروازہ کھولو …رات اندھیری ہے لیکن رات ہی رستہ ہے

5 ۔ لفظوں میں جو سانس لے رہے تھے، شمع کے قریب آ گئے وہ!

قصوں کی سرائے میں اتر کر سب رنج وہ راستے کے بھولے

6 ۔ کٹے ہوے پپیتے کے رنگ کا چاند، بادلوں کی چٹانیں اور بہت چوڑا ہالہ

7۔ خزاں کی وہ رات، جس میں ہر سو روش روش پر

                ہمارے بکھرے ہوئے ارادے تھے

8۔ رات اہل دید کا رخت سفر، رزق خیال

9۔ نیند اور امید کے مضموں سے خالی، سرگراں،

سردیوں کی سب سے بھاری اور طویل رات میں تیور بدلتی ہے ہوا

رات کے عنوان سے کہی جانے والی ان نظموں کے گرد تو خیر ایک پورا تجربہ گردش کرتا ہے لیکن بہت سے نظمیں ایسی بھی ہیں جن میں رات کا کردار مرکزی نہ سہی، پھر بھی اس کے روپ بہت سے ہیں اور رات کے عقبی پردے کی مدد سے ہی بالواسطہ طور پر بیان کردہ تجربے کی صورت متعین ہوتی ہے:

یہ رات ہم سب کو چھو چکی ہے

سیاہ راتوں کے بے اماں راستوں پر جھٹکے ہوئے یہ چہرے

اندھیری راتوں میں جینے والوں کا دل چراغاں

رات کی بھاری خاموشی میں

رات کے دیوار و در میں

رات کو سن ذرا صدائے خیر

یہ تیری رات میں روشن ستارے

رات بھر چلتا رہا ہوں میں اکیلا

بے سہارا رات میں غم ناک ہونا

جہان آب و گل میں تھک کے چور ہوگئی ہے رات

یہ کیسی تلاش ہے؟ رات کے لوگ روشنیاں لینے دن والوں کو

ڈھونڈتے پھرتے ہیں …

جہان آب و گل میں تھک کے چور ہو جانے والی یہ رات اپنے شاعر کی ہمسفر بھی ہے۔ میں نے ان نظموں کو بحیثیت فرد کے اپنی سوچ اور انہیں خلق کرنے والے ایک دوسرے فرد کے مابین تاعمر جاری رہنے والے ایک مکالمے کی طرح دیکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ شاعری میرے لیے کسی رسمی قسم کی مضمون بندی یا بیان بازی یا نچلے درجے کی صناعی نہیں، انسانی تعلق کی ایک نئی کہانی، ایک پرائے تجربے میں شریک ہونے کا نیا تجربہ ہے، اس رمز تک رسائی ہے کہ بقول غالب ’’باطن ہمدیگر سے کوئی آگاہ نہیں اور ہم میں سے ہر شخص دوسرے کے لیے ایک ورق ناخواندہ ہے‘‘ تاوقتیکہ میل ملاقات کا کوئی راستہ نکل آئے۔ اس راستے کو راگ، رنگ، تخلیق اظہار اور الفاظ … کچھ بھی نام دیا جا سکتا ہے۔

نئی شاعری کی رسم اور روایت سے دوری ’’رات اور دن کے ہیر پھیر میں اپنی بے کلی‘‘ کے بیان میں ایسی فنکارانہ جسارت اور بے خوفی، ہمیں اس دور کے بس اکا دکا شاعروں کے یہاں دکھائی دیتی ہے۔ غزلوں میں نسبتاً بہت کم، نظم گویوں میں کچھ زیادہ کہ شاعری کے پراسرار زمانوں اور زمینوں کی طلب، دونوں صنفوں میں ایک جیسی نہیں ہے۔ نظمیں میں جو گنتی کی کچھ غزلیں شامل ہیں، ان پر غزل کی روایت اور مزاج کی گرفت بہت ہلکی ہے، ان کے اشعار میں ایک خاص طرح کی نثریت اور دبازت ہے۔ یہ بہت رواں دواں، بے ساختہ اور مترنم نہیں ہیں۔ ان میں تغزل کی جگہ تفکر اور نظمیت کا رنگ ملتا ہے۔

نئی رت کی ہوا میں باس ہے روشن زمینوں کی

عمر کی فصل پک گئی، زردی رخ سے ہے عیاں

جو بھی افتادہ تھا، سیدھا ہوا، الٹا ہو کر

میں تو بہت شریف تھا، شاعری کر گئی خراب

یہ کتاب، مجموعی طور پر نت نئے سوالوں میں گھری ہوئی شاعری اور زندگی دونوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے زمانے کے بہت کم شاعروں نے زبان، ذخیرہ الفاظ، بیان، تجربے کی تخلیقی اور اخلاقی معنویت، دنیا سے اور تاریخ سے اور انسانی تقدیر سے وابستہ مسائل کو اتنی کثیر اور متنوع جہتوں کے ساتھ دیکھنے دکھانے کی جستجو کی ہے۔ مگر رات سے رات تک پھیلے ہوئے اس عجیب و غریب، ترقی یافتہ عہد ظلمت میں شب رفت، سحر نہ شد، شب آمد، بیدلی، یہ جستجو ہمیں کہاں لے آئی اس پر سلیم کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔ ان کی یہ جستجو کسی نظریاتی جبر کی پابند نہیں۔ ادراک و اظہار کی تمام سطحوں پر یہ ایک آزادانہ سرگرمی ہے، اس اعتراف کے ساتھ کہ …

اس دنیا میں جن لوگوں کی

نیند ہے باقی

ان کی حیرت ختم نہ ہو گی

شاید کبھی نہیں! یوں بھی ان کے اختیارات محدود ہیں، اس لیے ضروری نہیں کہ عام پڑھنے والے اس پیغام کو سمجھ بھی لیں… خیر، بظاہر کھلی آنکھیں رکھنے والے اپنی منڈلی بازی میں یونہی مگن، دراصل سوئے رہیں گے۔ جاگتے رہنے کا دکھ سب کے لیے نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments