جناب وزیر اعظم! الہٰ دین کا چراغ ہے تو سامنے لائیں


یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ لفظوں کے طوطا مینا بنانے سے کام نہیں چلنے والا۔ تقریروں اور خوش نما وعدوں سے دفتر سیاہ کئے جا چکے۔ جانے والوں نے کیا کیا اور ہم آنے والے وقت میں کیا کارنامے انجام دینے والے ہیں۔ باتیں سننے میں بہت خوبصورت لگتی ہیں لیکن اب سماعت اس سے ماورا کچھ چاہتی ہے۔ اب لفظوں سے پیٹ نہیں بھرتا ۔ اب گھر کا چولہا جلانے کے لئے روزگار اور امور حکومت چلانے کے لئے مقرر نہیں کام کرنے ولا ’محنت کش‘ چاہئے۔ جناب عمران خان !الہٰ دین کا چراغ ہے تو رگڑئیے اور کوئی کرشمہ دکھائیے ورنہ باتوں کی پھونکوں سے پیٹ میں بھڑک اٹھنے والی آگ بجھائی نہیں جاسکتی۔

عمران خان کو شاید پتہ نہ ہو کہ بھوک کس بلا کا نام ہے لیکن جس ملک پر وہ حکمرانی کرتے ہیں وہاں کی ایک تہائی آبادی دن میں پیٹ بھر کھانا نہیں کھا سکتی۔ باقی دو تہائی آتش شکم بجھانےکے لئے کتنی ہی دوسری ضرورتوں کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ کسی کے بچے اسکول نہیں جاسکتے اور کسی کے عزیز ترین شخص کو علاج میسر نہیں ہوتا۔ ان ضرورتوں کو تج کر جو نوالہ فراہم کیا جاتا ہے وہ غم و غصہ کے ایک ایسے طوفان کو جنم دے رہا ہے جو کسی بھی وقت جوالامکھی بن سکتا ہے۔ یہ سب حالات وزیر اعظم عمران خان کے پیدا کئے ہوئے نہیں ہیں لیکن اس ملک کے لوگوں نے انہی مسائل سے نمٹنے کے لئے انہیں اپنا لیڈر مانا تھا ۔

عمران خان شکم کی آگ اور عام شہری کی نظر انداز کی جانے والی ضرورتوں کو نعرہ بنا کر سابقہ حکمرانوں اور اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف نفرت پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت کی دو وجوہات تھیں۔ ایک عوام کی محرومیاں دور کرنے کا وعدہ اور دوسرے ماضی کے حکمرانوں سے مایوس ہونے والی طاقتوں کا آلہ کار بن کر ’ایک پیج‘ کی حکمت عملی پر اتفاق۔ اب ان دونوں وجوہ کو آزمائش درپیش ہے۔ وزیر اعظم اس کے باوجود چلاس میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نفرت انگیخت کرنے اور مستقبل کا خواب دکھانے کے پرانے طریقے کو استعمال کررہے ہیں۔ انہیں جان لینا چاہئے کہ حکومت کی تقریباً نصف مدت پوری ہونے کے بعد اب نفرت ان کی ڈوبتی کشتی کا بادبان نہیں بن سکتی۔ اب عوام ان سے وعدوں کی تکمیل چاہتے ہیں ، نعروں کی تکرار نہیں۔ اب تو ان کی مقبولیت کو اپنے ماضی سے گلو خلاصی کا ذریعہ بنانے والے ہاتھ بھی مستقبل کا نقشہ کھینچنے میں مصروف ہیں۔ اس خاکے میں عمران خان کو مائنس کرنے کی باتیں اب اتنی مدھم بھی نہیں ہیں کہ بنی گالہ یا وزیر اعظم ہاؤس کی اونچی دیواروں کے پار سنی نہ جاسکیں۔

عوام کے دلوں میں امید کی جوت جگانے کے بعد ملنے والی حکمرانی میں لوگ باتوں سے پیٹ بھرنے کی بجائے اپنی محبوب حکومت کو کام کرتے دیکھا چاہتے ہیں۔ حکومت کا سربراہ البتہ کابینہ کو ’ڈیلور کرنے‘ کا پیغام دے کر مزید چھ ماہ کا وقت مانگ رہا رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس بہلاوے پر یقین کرلیاجائے لیکن ا س کے لئے وزیر اعظم کو اپنی تقریر کا متن تبدیل کرنا ہوگا۔ جن غلط فیصلوں کا حوالہ دے کر انہوں نے آج کی محفل کو گرم کرنے کی کوشش کی ہے وہ دراصل اب امیدوں پر اوس کا کام کرنے لگی ہے۔ ان باتوں سے اب حوصلہ بلند نہیں ہوتا ، آنکھوں میں چمک پیدا نہیں ہوتی بلکہ مایوسی کی ایک نئی کیفیت جنم لیتی ہے۔ اب لوگوں کو یہ جاننے کے لئے وزیر اعظم کی نیم پختہ باتیں سننے کی ضرورت نہیں ہے کہ عظیم قومیں کیسے اپنا مستقبل روشن کرتی ہیں۔ نہ پاکستانی عوام کی مجبوریوں، ضرورتوں اور احتیاج کو چین میں حاصل کی گئی کامیابیوں سے دور کیا جاسکتا ہے۔ ماحولیات اور دنیا کا بڑھتا ہؤا درجہ حرارت یقیناً اہم مسئلہ ہے لیکن پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں پانی کی دستیابی اور بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی اہم ترین مسئلہ بن چکی ہو، وہاں عوام کو ماحولیاتی آلودگی پر لیکچر دے کر کیسے مطمئن کیا جاسکتا ہے؟

موجودہ حکومت سمیت کسی بھی پاکستانی حکومت نے عوام کو اہم عالمی مسائل سے آگاہ کرنے اور ان کی ذہنی اور عملی تربیت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جو اس وقت کرہ ارض پر بنی نوع انسان کے مستقبل کے لئے اہم ترین چیلنج کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ آج پاکستانیوں کو اسلام آباد میں مندر کی تعمیر، کسی ترک ڈرامے کے پیغام اور استنبول کے ایک عجائب گھر کو مسجد میں تبدیل کرنے کے موضوعات پر تو سرگرمی سے مباحث میں حصہ دار بنا لیا گیا ہے لیکن آبادی میں کمی، پانی کے ضیاع سے آگہی، نئے وسائل کی دریافت اور پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ کے لئے کوئی سنجیدہ گفتگو کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ وزیر اعظم اور ان کے ساتھی یا تو میڈیا کی آزادی کا گلا گھونٹنے کے ہتھکنڈے سوچتے ہیں یا اسے استعمال کرتے ہوئے ملک میں سیاسی ہیجان پیدا کیا جاتا ہے۔

 معاملہ شوگر اسکینڈل کا ہو یا کسی جے آئی ٹی رپورٹ کے فاش کرنے کا ، وفاقی وزیروں کے پاس کثرت سے وقت موجود ہوتاہے لیکن ان کی اپنی وزارتوں کی کارکردگی کا حال پوچھنے کی اجازت نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بیشتر وزیروں کو ایسے محکمے سونپ دیے گئے ہیں جن کے بارے میں انہیں خود بنیادی معلومات بھی حاصل نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کی نعرہ زدہ سیاست ملک کی بیورو کریسی کو خوف زدہ کرکے پہلے ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرنے پر مجبور کرچکی ہے۔ وزیر اعظم سیاسی حساب کتاب برابر کرنے پر وزیروں ، مشیروں کو شاباش دیتے ہیں، اپنے شعبہ میں کارکردگی دکھانے کا صلہ دینے کا کوئی طریقہ وضع نہیں کیا جاسکا۔ شہری ہوا بازی کے وزیر پی آئی اے کے ایک حادثے کا سارا ملبہ ایک مرحوم پائیلٹ کے سر ڈالنے کے جوش میں ملک بھر کے ہوا بازوں اور انہیں لائسنس جاری کرنے والی اتھارٹی کو پوری دنیا میں بدنام کرنے کا سبب بنے ہیں۔ ان کے پاس اپنی بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا اور کسی شعبہ میں کسی نقص کو دور کرنے کے لئے قومی اسمبلی میں غیر ذمہ دارانہ بیان بھی اس کا حل نہیں ہوتا ۔لیکن وزیر اعظم کو ایسے وزیر کی گرفت کرنے اور انہیں اپنی نااہلی قبول کرتے ہوئے عہدہ چھوڑنے کا حکم دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ناہموار سیاسی سہاروں پر قائم حکومت کے ساتھ ایسا وقوعہ ہوجانا انہونی نہیں ہے لیکن عمران خان نے تو اپنے ووٹر اور چاہنے والوں سے نیا پاکستان بنانے کا وعدہ کیا تھا؟

نیا پاکستان کیا ہے؟ عمران خان نئے علاقے ’فتح ‘ کرکے ملک میں شامل نہیں کرسکتے۔ نئے پاکستان سے عرف عام میں یہی مراد لی جاتی ہے کہ سیاسی مجبوریوں کی بنیاد پر غلط فیصلے کرنے کی روایت ترک کی جائے گی۔ وزیر اعظم صرف اقتدار قائم رکھنے کے لئے اپنے ساتھیوں اور سرپرستوں کی ہر ناجائز خواہش پوری کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ ملک میں ایسا نظام متعارف کروایاجائے گا جس میں عام شہری کو کسی جائز کام کے لئے در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ عمران خان کیا اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتا سکتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے کوئی معمولی سی تبدیلی بھی لانے میں کامیاب ہوئے ہیں؟

کوئی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے مسائل بے شمار اور وسائل انتہائی محدود ہیں۔ کیا عوام کو اس حقیقت حال سے روشناس کرنے کے کسی سرکاری منصوبہ پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ؟ عام شہریوں کو یہی بتایا گیا اور بتایا جارہا ہے کہ سابقہ حکمران ان کے حصے کے وسائل خود نگل گئے ، اسی لئے عوام کی غربت اور بھوک میں اضافہ ہورہا ہے۔ کیا عمران خان حکومت میں دو سال پورے کرنے کے بعد اس دعویٰ کو درست ثابت کرنے کے لئے کوئی ٹھوس معلومات سامنے لانے میں کامیاب ہوئے ہیں یا الزام کو جرم کہنے کے بعد وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ جناب وزیر اعظم کو جاننا چاہئے کہ اب کوئی بھی نعرے سننے پر آمادہ نہیں ہے کیوں کہ اب نعروں کا فریب طشت از بام ہوچکا ہے۔ اب الزام سے اعزاز حاصل کرنے کا وقت ہاتھ سے نکل چکا۔ اب ضروری ہے کہ اپنی ناکامیوں کا ادراک کرتے ہوئے عوام کے سامنے ان کا اعتراف کیا جائے۔ اب اپنی ذات کو عقل کل سمجھنے کے دھوکے سے باہر نکل کر اجتماعی دانش کے اصول کو اختیار کیا جائے۔ اب قومی اسمبلی میں مخالف آوازوں سے گھبرانے یا انہیں دبانے کے لئے دشنام طرازی کے ہتھکنڈے اختیار کرنے کی بجائے فہم و فراست سے اختلاف کو سمجھنے اور متوازن اور درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی جائے۔ یہ مقصد صرف خود اپنی ہی عزت کرتے رہنے کی بجائے دوسروں کو عزت دینے سے سے حاصل ہوسکے گا۔

وزیر اعظم شاید اب بھی اس ملک کی حالت بدلنے کا خواب پورا کرسکیں لیکن اس کے لئے انہیں اجتماعی کوششوں کے لئے ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اب ضد اور اناپرستی کا بت توڑ کر ہی ملک کی بہتری کا کوئی کام ہوسکتا ہے۔ کوئی جمہوریت پسند عمران خان کے جائز حق حکومت کو چھیننا نہیں چاہتا لیکن اس کے لئے انہیں خود بھی جمہوری روایت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ عمران خان کو اب سمجھنا اور سمجھانا ہوگا کہ نیا پاکستان نفرت عام کرنے اور مذہبی انتہاپسندی کے نعروں پر استوار ہونے والی کوئی حکومت نہیں ہے بلکہ ان کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت روایت شکن بنے گی اور نفرت کی بجائے محبت، مسترد کرنے کی بجائے قبولیت کا پیغام عام کرے گی۔

عوام کو آگاہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کے مسائل حل کرنے کے لئے نواز شریف یا آصف زرادری کو جیلوں میں بند کرنا کافی نہیں ہوگا بلکہ وسائل کی قلت کو اجتماعی کاوش سے دور کیا جائے گا۔ یہ اجتماعی کوشش طاقت کے ارتکاز کی بجائے اختیارات کی تقسیم سے مؤثر اور بار آور ہوگی۔ عمران خان اگر اس اصول کو نہیں مانتے پھر انہیں کسی الہٰ دین کا چراغ تلاش کرنا ہوگا تاکہ اسے رگڑ کر سارے مسئلے حل ہوجائیں اور وزیر اعظم سرخوشی کے عالم میں نعرے بلند کرتے رہیں۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments