کورونا وائرس اور کیلاش: معدومیت کے خطرات کا شکار قبائل سیاحوں سے نالاں کیوں ہیں؟


کیلاش

صوبہ خیبر پختونخوا میں ضلع چترال کی تین وادیوں بمبوریت، رمبور اور بریر پر مشتمل وہ علاقہ جہاں معدومیت کے خطرات سے دوچار کیلاش قبائل آباد ہیں قدرتی حسن اور فطری مناظر سے مالا مال ہے۔

عام حالات میں یہ علاقہ مقامی اور غیرملکی سیاحوں کی منزل مقصود ہوتا ہے تاہم اب کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سیاحتی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد ہیں اور بڑی تعداد میں سیاح ان وادیوں میں جانے سے قاصر ہیں۔

مگر اسے اس علاقے کا قدرتی حسن کہیے کہ جو پابندیوں کے باوجود مقامی سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے اور سرکاری پابندیوں کے باوجود لوگ ان علاقوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

اور یہی وہ وجہ ہے جس نے کیلاش قبیلے کے سرکردہ رہنماؤں کو مجبور کیا ہے کہ وہ مقامی پولیس کو باقاعدہ درخواست دے کر مطالبہ کریں کہ اِن علاقوں میں سیاحوں اور غیرمقامی افراد کی آمد و رفت پر کورونا کے باعث پہلے سے عائد پابندی کو مزید سخت کیا جائے۔

کیلاش قبائل کے خدشات کیا ہیں؟

کیلاش قبیلے کے سماجی رہنما لُک رحمت کہتے ہیں کہ کیلاش قبیلے کے لوگوں کی تعداد اب انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’کورونا کے اس وبائی دور میں اگر غیرمقامی افراد سے وائرس یہاں بسنے والے کیلاش قبائل تک پہنچ گیا تو شاید اس کا ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’ہر کوئی آ کر ہمارا خدا بننے کی کوشش کرتا ہے‘

بشالی: جس کی عمارت اور مکینوں کو ’چھونا‘ منع ہے

سُوری جاگیک: سورج دیکھنے کی انوکھی کالاشا روایت

لُک رحمت کا کہنا تھا کہ انھوں نے اور قبیلے کے بہت سے دیگر افراد نے سیاحوں اور ان کی گاڑیوں کو ان علاقوں میں مٹرگشت کرتے دیکھا ہے اور یہ سیاح پابندیوں اور حکومتی سختیوں کے باوجود پہلے چترال اور پھر کیلاش پہنچ رہے ہیں۔

سنہ 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق کیلاش قبیلے کے افراد کی مجموعی تعداد صرف 3872 ہے جبکہ لُک رحمت کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ دو، تین برسوں کے دوران اس تعداد میں مزید کمی ہوئی ہے۔

رحمت کے اس دعوے کی تصدیق مقامی انتظامیہ بھی کرتی ہے۔ ایک سرکاری افسر کے مطابق گذشتہ دو سے تین سال کے دوران لگ بھگ دس کیلاشی خاندانوں نے اپنے آبائی مذہب کو خیرآباد کہنے کے بعد اپنا علاقہ بھی تبدیل کیا ہے۔

رحمت کے مطابق ’ہماری آبادی بہت ہی کم ہے۔ شاید کیلاش قبیلے کا شمار ان قبائل میں ہوتا ہے جس کے افراد کی تعداد خطرے کے نشان سے بھی نیچے چلی گئی ہے۔‘

لُک رحمت کا ماننا ہے کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ کیلاش قبیلہ خود اس بات میں دلچسپی رکھتا ہے کہ علاقے میں سیاحت کو فروغ ملے، کیونکہ سیاحت کیلاش قبیلے کے افراد کی گزر اوقات کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔

’مگر دوسری جانب اِس وقت ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ ر ہے ہیں۔ اس جنگ میں اولین ضرورت اس بات کی ہے کہ کیلاش قبائل کی وادیوں کو وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے جائیں۔‘

کورونا کی صورتحال

محکمہ صحت خیبرپختونخوا کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق چترال کے دونوں اضلاع میں بدھ کی رات تک کورونا کے مصدقہ متاثرین کی تعداد 310 تھی۔ جس میں سے 153 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ دونوں اضلاع میں وبا کے باعث تین ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔

اگرچہ چترال کے اضلاع کی یہ مجموعی صورتحال ہے تاہم وہ تینوں وادیاں جہاں کیلاش قبائل رہائش پذیر ہیں وہاں ابھی تک کورونا کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔

لُک رحمت کہتے ہیں کہ ’ہمیں خطرہ ہے کہ اگر ایک دفعہ کورونا وائرس ان وادیوں میں پہنچا تو اس کے پھیلنے کے لیے وادیوں میں حالات بہت زیادہ موافق ہوسکتے ہیں۔‘

’ہمارے ہاں اب بھی جوائنٹ فیملی سسٹم ہے۔ چھوٹے چھوٹے گھروں میں کئی کئی خاندان اور افراد رہائش پذیر ہیں۔ غریب لوگ ہیں اور تعلیم کم ہونے کی وجہ سے احتیاط بھی زیادہ نہیں ہوتی۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہمیں خوف ہے کہ ہمارے قبیلے کے بچے کھچے افراد کورونا کا آسان ہدف بن سکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ کالاش کی تینوں وادیاں قدرتی طور پر الگ تھلگ ہیں، آپ کہیے کہ قرنطینہ میں ہیں۔ اگر کالاش کی وادیوں میں باہر سے وائرس نہ پہنچے تو پھر اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ یہ علاقہ وائرس سے محفوظ رہے گا۔

لک رحمت نے بتایا کہ اس وقت چترال میں کورونا ٹیسٹنگ کی سہولت بھی موجود نہیں ہے اور نمونے تصدیق کے لیے پشاور بھیجے جا رہے ہیں، اسی طرح وادیوں میں بھی صحت کی زیادہ سہولتیں میسر نہیں ہیں جس کے باعث ہم زیادہ پریشان ہیں۔

’جان بچ جائے، باقی سب ٹھیک ہو جائے گا‘

کیلاش

اس علاقے سے تعلق رکھنے والے ٹورگائیڈ عمران کبیر کہتے ہیں کہ اس علاقے کے لوگوں کے روزگار کا زیادہ دارومدار سیاحت پر ہے۔ ’جب سیاحت نہیں ہو گئی تو ظاہر ہے ہم لوگ ہی متاثر ہوں گے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ وبا کی صورتحال میں اگر جان بچ جائے گئی تو سیاحت سمیت سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ اسی لیے کیلاشی قبیلے سے تعلق رکھنے والے وہ افراد جو سیاحت کے پیشے سے منسلک ہیں وہ بھی اس علاقے میں سخت سیاحتی پابندیوں کے قائل ہیں۔

’ہو سکتا ہے سیاح چوری چھپے وادیوں میں پہنچ جاتے ہوں‘

صحافی زبیر خان سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر چترال نوید احمد کا کہنا ہے انتظامیہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود ہوسکتا ہے کہ کچھ سیاح چوری چھپے اوپر وادیوں میں پہنچ جاتے ہوں۔

انھوں نے بتایا کہ غیر مقامی افراد کو انتہائی محدود پیمانے پر ان وادیوں میں اجازت دی ہے اور یہ ان لوگوں کو دی جاتی ہے جن کی قبائل کے ساتھ رشتہ داریاں ہیں۔

نوید احمد کا کہنا تھا کہ اس وقت صوبائی حکومت کی جانب سے سیاحت پر مکمل پابندی ہے اور یہ پابندی چترال میں بھی لاگو ہے۔ ’چترال میں تو کچھ عرصہ پہلے تک اگر چترال کا ہی کوئی مقامی کوئی فرد بھی آتا تھا تو اس کو چودہ روز تک قرنطینہ میں رہنا پڑتا تھا۔‘

بشالی

ان کا کہنا تھا کہ کیلاش قبیلے کی درخواست سے قبل ہی انتظامیہ اپنے طور پر ہر ممکن اقدامات کیے اور ان وادیوں کی طرف جانے والے راستوں پر پولیس کے ناکے لگے ہوئے ہیں، جہاں سے غیر مقامی افراد کو آگے جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ کیلاش میں ابھی تک کورونا وائرس کا ایک بھی مریض سامنے نہیں آیا مگر اس کے باوجود کیلاش کی تینوں وادیوں میں محکمہ صحت کے عملے اور سہولتوں کی تعدادا بڑھا دی گئی ہے، تینوں وادیوں کے مرکزی مقامات پر جراثیم کش سپرے بھی کیے گئے ہیں جبکہ کئی انتظامی افسران کئی دونوں سے تینوں وادیوں میں تعنیات ہیں۔

’حکومت اور انتظامیہ چاہتی ہے کہ کالاش کی تینوں وادیوں میں قدرتی ماحول کو محفوظ رکھا جائے۔ اگر وہاں پر جدید عمارتیں تعمیر ہوں گی تو پھر وہ کیلاش نہیں بلکہ کوئی شہر بن جائے گا۔ جس سے کیلاش قبائل کے تاریخ میں گم ہو جانے کا خطرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیلاش قبائل کے علاوہ دیگر لوگوں کو ان مخصوص وادیوں میں رہائش کی اجازت نہ دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔‘

ڈپٹی کمشنر کے مطابق کیلاش قبائل کی کئی جگہیں، جو ان کی مذہبی اور آخری رسومات میں استعمال ہوتی تھیں، پر قبضوں کی شکایات تھیں۔ ’ان میں سے کئی جگہوں کا قبضہ واگزار کروا لیا گیا ہے اور یہ تمام زمینیں قبائل کے حوالے کر دی جائیں گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp