جنرل عبدالرشید دوستم: افغانستان میں ایک مزدور سے وار لارڈ اور پھر مارشل تک کا سفر


دوستم

جنرل دوستم سنہ 2014 کے صدارتی انتخابات میں اشرف غنی کے اتحادی تھے اور انتخابات جیتنے کے بعد نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے

وہ 1970 کی دہائی میں افغانستان کے شمالی صوبے جوزجان میں محنت مزدوری کرتے تھے مگر گذشتہ چار دہائیوں سے افغانستان کی جنگ اور سیاست دونوں میں پیش پیش رہے ہیں۔

اُن پر سنہ 2001 میں ہزاروں طالبان قیدیوں کو ہلاک کرنے اور اپنے سیاسی حریفوں کو اغوا اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دیگر سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا سامنا رہا۔

وہ دشمنوں کے دوست اور دوستوں کے دشمن اور دوبارہ دوست بننے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔

بات ہو رہی ہے جنرل عبدالرشید دوستم کی جنھیں اب افغانستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز سے نوازا گیا ہے۔

افغانستان کے شمالی صوبہ جوزجان کے صدر مقام شبرغان میں بدھ کو ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں سابق وار لارڈ جنرل عبدالرشید دوستم کو ملک کے سب سے بڑے فوجی اعزاز سے نوازا گیا۔

جنرل دوستم کو یہ اعزاز اس لیے دیا گیا کیونکہ افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان اقتدار کے سمجھوتے میں عبداللہ عبداللہ کی ٹیم کی طرف سے ایک شرط یہ بھی رکھی گئی تھی کہ دوستم کو فوجی اعزاز سے نوازا جائے۔

جنرل دوستم گذشتہ برس ستمبر کے صدارتی انتخابات میں ڈاکٹر عبدالله عبدالله کے حمایتی تھے۔

اگرچہ وہ 2014 کے صدارتی انتخابات میں اشرف غنی کے اتحادی تھے اور انتخابات جیتنے کے بعد نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے لیکن صدر غنی کے ساتھ اُن کے تعلقات سنہ 2016 میں اُس وقت خراب ہوئے جب جنرل دوستم پر اُن کے سیاسی حریف اور صوبہ جوزجان کے سابق گورنر احمد ایشچی نے اغوا اور ریپ کے الزامات عائد کیا۔

جنرل عبدالرشید دوستم

جنرل دوستم پر پہلے بھی تشدد کے الزامات لگتے رہے ہیں

بدھ کو اس تقریب میں افغانستان کے نئے مارشل جنرل عبدالرشید دوستم نے افغان حکومت اور امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر وہ ’مارشل‘ کا تجربہ دیکھنا چاہتے ہیں تو اُنھیں چھ مہینے کا وقت دیں اور اس دوران وہ طالبان کا صفایا کر سکتے ہیں۔

’میں اپنی فوج، افغان عوام کو کہتا ہوں کہ اگر طالبان جنگ کو طول دیتے ہیں تو وہ ختم ہو جائیں گے۔ نیٹو کو کہتا ہوں مجھے اجازت دیں کہ میں یہ ثابت کر دوں کہ میں مارشل کے عہدے کا اہل ہوں یا نہیں، اور یہ دیکھا دوں کہ طالبان کو اپنی سرزمین سے بھگا دوں۔‘

جنرل دوستم نے مزید کہا کہ اگر اُن پر صرف چھ ماہ اعتماد کیا جائے تو وہ نیٹو اور بین الاقوامی فضائی حملوں کے بغیر اپنی فوج، پولیس اور خدا کی طاقت سے طالبان کو ہرا سکتے ہیں۔

نئے مارشل نے افغان حکومت سے بھی درخواست کی کہ طالبان کے مزید رہ جانے والے قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے تاکہ ان کے پاس بین الافغان مذاکرات ملتوی کرنے کا بہانہ نہ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کے بعد بھی اگر طالبان جنگ کو طول دیتے ہیں تو پھر مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اگرچہ اس تقریب میں نہ ہی افغان صدر اشرف غنی اور نہ ہی ان کے نائبین نے شرکت کی تھی لیکن صدر اشرف غنی اور ان کی حکومت کو افغانستان میں سوشل میڈیا پر جنرل عبدالرشید دوستم کو مارشل کا اعزاز دینے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات

احمد

احمد ایشچی نے الزام عائد کیا کہ نومبر 2016 میں ایک بزکشی کھیل کے میدان میں جنرل دوستم نے اپنے محافظوں سمیت ان کو برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا اور پانچ روز تک اپنے گھر میں بھی قید رکھا

64 سالہ ازبک جنگجو کمانڈر جنرل عبدالرشید دوستم پر نہ صرف کئی دہائیوں کی جنگ کے دوران انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کا الزام لگا ہے بلکہ سیاست میں بھی ان پر سیاسی حریفوں کو تشدد اور اغوا کے علاوہ بھی مزید سنگین الزامات لگائے جا چکے ہیں۔

جنرل دوستم پر افغان سول جنگ کے دوران بے گناہ انسانوں کے قتل اور لوٹ مار کے الزام کے ساتھ ساتھ سنہ 2001 میں سینکڑوں طالبان قیدیوں کی ہلاکت کا بھی الزام ہے۔

افغان اور بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق سنہ 2001 میں جنرل دوستم نے طالبان کے قیدیوں کو کنٹینرز میں گھنٹوں تک بند رکھا اور دم گھٹنے کی وجہ سے سینکڑوں قیدی ہلاک ہوئے۔ بعض رپورٹس کے مطابق ان کنٹینرز میں زندہ بچ جانے والوں کو جنرل دوستم کے ساتھیوں نے زندہ دفن کیا تھا۔

سابق جنگجو کمانڈر نے سنہ 1992 میں نیشنل اسلامک موومنٹ آف افغانستان کے نام پر سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی اور تاحال وہ اسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے اپنی قوم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ازبک اگرچہ اقلیت میں ہیں لیکن ان کی اکثریت جنرل دوستم کو سپورٹ کرتے ہیں۔

سنہ 2016 کے آواخر میں صوبہ جوزجان کے سابق گورنر اور جنرل دوستم کے سیاسی حریف احمد ایشچی نے جنرل دوستم پر انھیں پانچ روز تک اغوا اور ان پر مار پیٹ کے علاوہ جنسی تشدد جیسے سنگین الزامات لگائے۔

احمد ایشچی نے الزام عائد کیا کہ نومبر 2016 میں ایک بزکشی کھیل کے میدان میں جنرل دوستم نے اپنے محافظوں سمیت ان کو برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ اغوا کرنے کے بعد انھیں پانچ روز تک اپنے گھر میں بھی محبوس رکھا۔ اگرچہ جنرل دوستم ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں لیکن جب افغان حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات شروع کی تو وہ مارچ 2017 میں ترکی چلے گئے تھے۔

جنرل دوستم پر سنہ 2008 میں بھی ایسے ہی ایک اور سیاسی حریف کی جانب سے الزامات عائد کیے گئے تھے اور اس وقت بھی وہ ان الزامات کے بعد ترکی چلے گئے تھے۔

پہلے دوست پھر دشمن، دوبارہ دوست پھر دشمن

گلبدین حکمت یار

گلبدین حکمت یار

افغانستان کے اس نئے مارشل پر جنگ اور سیاست دونوں کے دوران وفاداریاں بار بار تبدیل کرنے کا بھی الزام ہے اور وہ کئی مرتبہ دوستوں کے دشمن بنے ہیں اور پھر واپس انھی دشمنوں کے دوست بھی بنے ہیں۔

1980 کی دہائی میں جنرل عبدالرشید دوستم لگ بھگ پچاس ہزار جنگجوؤں کے ملیشیا کے ساتھ سوویت یونین کی مدد سے امریکہ اور پاکستانی حمایت یافتہ مجاہدین کے خلاف لڑ رہے تھے۔

افغانستان سے سوویت یونین کی انخلا کے بعد گلبدین حکمت یار کے خلاف جنرل دوستم اپنے پرانے دشمن احمد شاہ مسعود کے دوست بن گئے اور دونوں ایک ساتھ حکمت یار کے خلاف لڑتے رہے۔ بعض مورخین لکھتے ہیں کہ جنرل دوستم کی ملیشیا نے ہی حکمت یار سے کابل کے مکمل کنٹرول کی ناکامی میں اہم کردار ادا کیا۔

لیکن وقت گزرتا گیا اور دو برس بعد وہی دوستم اپنے دوست احمد شاہ مسعود کو چھوڑ کر اپنے دشمن گلبدین حکمت یار کے دوست بن گئے۔ کہا جاتا ہے کہ کابل سے دوستم کے جنگجوؤں کی اپنے علاقے منتقلی کے بعد جنرل دوستم نے سول وار اور طالبان کی حکومت کے دوران ملک کے اندر ایک اور اپنا ملک بنا لیا اور ان کے علاقے میں ان کی متعارف کروائی گئی کرنسی چلتی تھی، جسے ’دوستمی کرنسی‘ کہا جاتا تھا۔

سنہ 1996 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد وہ ایک بار پھر احمد شاہ مسعود کے اتحادی بنے اور انھوں نے شمالی اتحاد بنایا۔ جنگ کے بعد سیاست میں بھی وہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے اتحادی اور حریف رہے اور سنہ 2014 کے انتخابات میں صدر اشرف غنی کے اتحادی، سنہ 2019 کے انتخابات میں حریف اور اب ایک بار پھر ان کے اتحادی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp