کلبھوشن جادھو کی اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن کے ارکان سے ملاقات


کلبھوشن جادھو

پاکستان نے کلبھوشن جادھو کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی

پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق انڈین حکام نے جمعرات کو ملک میں زیر حراست مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو سے ملاقات کی ہے۔

یہ دوسرا موقع ہے کہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دی گئی ہے اور یہ ملاقات اسلام آباد میں ایک محفوظ مقام پر ہوئی جسے خفیہ رکھا گیا ہے۔

انڈین حکام نے اس سے قبل گذشتہ برس ستمبر میں بھی کلبھوشن جادھو سے ملاقات کی تھی جبکہ 2017 میں کلبھوشن کے اہلخانہ بھی ان سے مل چکے ہیں۔

اسی بارے میں

کلبھوشن جادھو کا سزا کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے سے انکار

کلبھوشن جادھو کیس: کون جیتا، کون ہارا

کلبھوشن سے پہلے کتنے جاسوس

پاکستان دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق انڈین ہائی کمیشن کے دو قونصلر افسران نے جمعرات کی سہ پہر تین بجے کلبھوشن جادھو سے بلاتعطل اور بلا روک ٹوک ملاقات کی۔

ملاقات کے بعد انڈین حکام کی جانب سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے کلبھوشن جادھو کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنا رکھی ہے۔

آٹھ جولائی کو پاکستان کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل احمد عرفان نے کہا تھا کہ پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے تیار ہے اور کلبھوشن جادھو نے اپنی سزا کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے بجائے وہ اپنی رحم کی اپیل کے پیروی جاری رکھیں گے۔

کمانڈر جادھو تین مارچ 2016 سے پاکستان کی حراست میں ہیں جب انھیں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔

پاکستانی دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق کمانڈر جادھو نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ بیان کے مطابق اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کے لیے را کے تعاون سے متعلق بھی انکشافات کیے۔

کلبھوشن جادھو کے پاس نظر ثانی کی اپیل کے لیے کتنا وقت ہے؟

پاکستان کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق پاکستان بارہا انڈین ہائی کمیشن کو اپیل دائر کرنے کا کہہ چکا ہے۔

انھوں نے واضح کیا تھا کہ اگرچہ پاکستان کا قانون نظرِ ثانی کا حق فراہم کرتا ہے لیکن عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر صحیح طور سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے 28 مئی کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن آرڈینسس 2020‘ نافذ کیا۔

اس آرٹیننس کے تحت 60 روز میں ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کی اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔

عالمی عدالت انصاف کے 20 مئی کے فیصلے کے بعد نظرثانی درخواست کے لیے 60 روز کا وقت ہے جس کے دوران درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جاسکتی ہے، یہ اپیل کمانڈر جادھو خود، ان کا قانونی نمائندہ یا انڈین ہائئ کمیشن دائر کر سکتے ہیں۔

پاکستانی حکام نے 17 جون کو کلبھوشن جادھو کو اپیل کے لیے بلایا تھا تاہم انھوں نے یہ اپیل دائر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

کلبھوشن یادیو

کلبھوشن پہلے بھارتی جاسوس تھے جو بلوچستان سے گرفتار ہوئے

عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد

عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں جو کیس پاکستان نے جیتا تھا اس کے فیصلے کے اہم نکات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ویانا کنونشن برائے قونصلر روابط کی دفعہ 36 کے تحت کلبھوشن یادیو کو ان کے حقوق کے بارے میں بتایا جائے۔

فیصلے میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ بھارتی قونصل کے افسران کو کلبھوشن جادھو سے بات چیت کرنے کی اجازت اور قونصلر رسائی دی جائے تا کہ وہ ان سے ملاقات کریں اور ان کے لیے قانونی نمائندگی کا بندوبست کریں۔

اس کے علاوہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن کیس پر مؤثر نظر ثانی کے لیے تمام تر اقدامات اٹھائے جائیں جس میں اگر ضرورت پڑے تو قانون سازی کا نفاذ بھی شامل ہے اور جب تک مؤثر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور مکمل نہ ہوجائے اس وقت تک پھانسی کی سزا کو روک دیا جائے۔

پاکستان کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق ’پاکستان نے را کے ایجنٹ کمانڈر جادھو کی سزائے موت کو سزا پر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور تک کے لیے روک دیا۔‘

ان کے مطابق نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کے لیے پاکستان اپنے موجودہ قوانین کا جائزہ لیا تا کہ ویانا کنوینشن کے آرٹیکل 36 کے تحت مناسب طریقے سے نظرِ ثانی اور غور کیا جاسکے۔

کلبھوشن جادھو کی سزا اور انڈیا کی اپیل

پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے اپریل 2017 میں کلبھوشن جادھو کو جاسوسی، تخریب کاری اور دہشت گردی کے الزامات میں موت کی سزا سنائی تھی۔

اس فیصلے کے خلاف انڈیا نے مئی 2017 میں عالمی عدالت انصاف کا دورازہ کھٹکھٹایا تھا اور استدعا کی تھی کہ کلبھوشن کی سزا معطل کرکے ان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔

عالمی عدالت نے انڈیا کی یہ اپیل مسترد کر دی تھی تاہم پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ ملزم کو قونصلر تک رسائی دے اور ان کی سزایے موت پر نظرِ ثانی کرے۔

کلبھوشن جادھو کے بارے میں پاکستان کا دعوی ہے کہ وہ انڈین بحریہ کے حاضر سروس آفسر ہیں جنھیں سنہ 2016 میں پاکستان کے صوبے بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔

پاکستان ایک عرصے سے بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند عناصر کی پشت پناہی کرنے کا الزام انڈیا پر عائد کرتا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp