کیا کچھ بدل سکتا ہے؟


یہ بات وبا کے دنوں سے پہلے کی ہے۔ میرے دوست میاں مٹھو بڑے کاروباری ہیں اور ان کی حیثیت تجارتی اداروں میں بہت اہم ہے۔ گزشتہ سال جب انجمن تاجران کے انتخاب ہونے کو تھے مجھے تاریخ کا اندازہ نہیں، وہ کہنے لگے سیاست میں بڑی تبدیلی متوقع ہے۔ اس زمانہ میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف عدالتی فیصلہ کے بعد جیل میں تھے اور ان کی سیاسی جانشین مریم صفدر بھی سزا کے بعد جیل میں تھیں۔ میاں مٹھو بتانے لگے کہ عنقریب میاں نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت مل جائے گی اورمیاں نواز شریف کے ساتھ ان کی بیٹی مریم اورخادم اعلیٰ بھی ملک سے باہر چلے جائیں گے۔ ایک بات اور بتائی کہ خادم اعلیٰ بھی ایک آنے والی مخلوط حکومت میں اہم حیثیت میں حکمرانوں کے ساتھ ہوسکتے ہیں۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ ایسا ہوگا مگر چند دن کے بعد ہی سابق وزیراعظم پنجاب ہائیکورٹ کے فیصلہ کے بعد علاج کے لیے اپنے بھائی خادم اعلی شہباز شریف کے ساتھ لندن روانہ ہوگئے اور ہمارے بیوپاری بھائی کی ایک اطلاع درست ثابت ہوگئی۔

دن پر دن گزرتے گئے اورمریم نواز کو بھی ضمانت مل گئی اور امید تھی کہ وہ بھی جلد ہی اپنے والد کے علاج کی نگرانی کے لیے لندن روانہ ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف میاں نواز شریف اور خادم اعلیٰ کا لندن میں قیام بڑھتا ہی جا رہا تھا اورسابق وزیراعظم کی صحت بھی حسب معمول نارمل لگ رہی تھی۔ ان آیام میں ہی معلوم ہوا کہ نواز شریف اورخادم اعلیٰ کی برطانیہ کے اہم لوگوں سے رازونیاز کا سلسلہ قائم ہے اور ایک بڑی رقم کی ترسیل کی بازگشت بھی سنائی دی۔ پھر وبا کی وجہ سے لندن میں اور دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کاسلسلہ شروع ہوا اورادھر پاکستان میں وبا کی وجہ سے دنیا بھر کے لیے فضائی سفر پر پابندی کا اعلان کیا گیا اورجیسے یہ اعلان ہوا تو فوراً اطلاع آ گئی کہ خادم اعلیٰ پاکستان کی اہم شخصیت کے مشورہ کے بعد، فوری طور پر پابندی لگنے سے پہلے آخری پرواز سے پاکستان آرہے ہیں تو مجھے میاں مٹھو کی دوسری بات کا خیال آیا۔

میں اب اس بات کے انتظار میں تھا کہ کب خادم اعلیٰ چپ کا روزہ توڑ کر عوام میں آ کر اپنی آئندہ کی سیاست کا اعلان کریں گے اور پھر معلوم ہوا کہ وہ بھی وبا کی زد میں آگئے ہیں۔ دوسری طرف ان کے آنے کے بعد نیب نے ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کردی اور لگتا تھا کہ ان کو عنقریب گرفتار جا سکتا ہے۔ مگرپنجاب کے اندر وہ روپوش ہوگئے اور بعد میں پنجاب بار کونسل کے وکیلوں اور عدالتی تحفظ کے بعد ان کی ضمانت منظور ہوگئی اور نیب کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک تو نیب کا تفتیش کا سلسلہ بہت سست روی سے کام کرتا ہے۔ دوسری طرف یہ خبر میڈیا میں ضرور آئی کہ خادم اعلیٰ کو ملک کی اہم شخصیت کی وجہ سے چھوٹ دی جارہی ہے۔ اس کے بارے میں خادم اعلیٰ خود کچھ بتانے کو تیار نہیں اوروہ عوامی حلقوں سے دور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ میں حیران تھا کہ وہ وقت کب اور کیسے آسکتاہے جس میں خادم اعلیٰ کا بھی کردار ہوگا۔

ایسے میں قومی اسمبلی کا اجلاس جاری رہا۔ حزب اختلاف مسلسل گرجتی اور برستی رہی اور بلاول زرداری بھٹو نے حکومت وقت کے کئی اقدامات پر سوال اٹھائے۔ مگر ان کی تقریر سیاسی کم اور سماجی زیادہ تھی وہ اپنے والد کی علالت کے بارے میں کھل کر بات نہیں کرتے۔ اس کے فوراً بعد میڈیا میں ایک تصویر آئی جس میں آصف علی زرداری مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کرتے نظر آتے ہیں اور بلاول بھی اس ملاقات میں نظر آرہے ہیں۔ مگر اس ملاقات کے نتائج کے بارے میں فریقین کچھ بتانے سے معذور نظر آتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن ایک دفعہ پھر اے پی سی
کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان کو دیگر جماعتوں کی طرف سے تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی ہے مگر مسلم لیگ ن اورخادم اعلیٰ اس معاملہ میں کوئی اہم کردارادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتے نظر آرہے ہیں۔
اب اس وقت تمام حزب اختلاف صرف ایک خواہش پر کام کررہی ہے، وہ خواہش بے مثال ہے کہ عمران خان کو جلدازجلد سبکدوش کیا جا سکے۔ دوسری طرف عمران خان بھی ڈٹ گئے ہیں اور وہ اس جمہوریت کے شہید بننے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ عمران خان کو اندازہ ہے کہ سرحدی صورتحال خاصی مخدوش نظر آرہی ہے۔ ایسے میں ہمارے وزیرخارجہ وبا کا شکار ہوکر قومی سیاست سے دور ہیں۔

تحریک انصاف کے اندر ہلکی پھلکی ہل چل نظر آ رہی ہے۔ سندھ کے اندر جو صورت حال ہے وہ بھی قابل فکر ہے۔ پھرکراچی میں بجلی کے معاملات کی وجہ سیاست اپنے پہلو بدلتی نظر آ رہی ہے۔ کراچی کی بجلی والی کمپنی صوبائی حکومت سے تعاون کرتی نظر نہیں آرہی۔ دوسری طرف مرکزی سرکار بجلی کی کمپنی کو خبردار کر رہی ہے کہ اگر اس نے بجلی کی ترسیل کا نظام درست نہ کیا تو حکومت دوبارہ اس کو اپنے زیرانتظام کر سکتی ہے۔
آنے والے دنوں میں سیاست اور جمہوریت میں بڑی تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ ہمارا سیاسی نظام ہماری اشرافیہ اور وڈیرہ شاہی کی وجہ سے مکمل ناکام ہوچکا ہے اور عوام شدید مایوسی کا شکار ہیں پھر میڈیا پر اس بات کا پرچار بھی ہورہا ہے کہ صدارتی نظام کے ذریعے ملک کو چلایا جا سکتا ہے۔ مگر یہ سب کیسے ہو گا بظاہر اس کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ مگرایک بات کی گنجائش ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ جو حکومتی نظام اورسیاست سے خوش نظر نہیں آتی وہ کوئی ایسی تجویز دے جو ملک کے نظام میں بدلاؤ لا سکے۔ ایک طریقہ تو ریفرنڈم کا ہو سکتا ہے اور عوام صدارتی نظام میں اپنی رائے دے دیں تو ممکن ہے کہ اس اسمبلی کے خصوصی لوگ اس نئے نظام کی بنیاد رکھ دیں۔

کچھ دن پہلے ہی پاکستان میں جاری نظام پر ایک تبصرہ ایک دل جلے نے لکھ بھیجا ہے، دیکھئے لوگ کس طرح سوچتے ہیں

پاکستان کے سیاسی نظام پر ایک نوٹ
پاکستانی کا سیاسی نظام 2 قسم کا ہوتا ہے
1۔ ملٹری ڈکٹیٹر شپ،
2۔ سول ڈکٹیٹر شپ
ملٹری ڈکٹیٹر شپ کو مارشل لاء بھی کہتے ہیں جبکہ سول ڈکٹیٹر شپ کو جمہوریت کے نام سے جانا جاتا ہے
پاکستان کے عدالتی نظام پر نوٹ
پاکستان میں دو طرح کی عدالتیں ہیں :
ا۔ فوجی عدالت
2۔ موجی عدالت
بندہ لٹکانا ہو تو فوجی عدالت اور کیس لٹکانا ہو تو موجی عدالت!
دو قومی نظریہ پر ایک نوٹ
دو قومی نظریہ
عوام اور حکمران دو علیحدہ قومیں ہیں، جن کا رہن سہن، تہذیب، مذہب اور تاریخ ایک دوسرے سے الگ ہیں ”
پاکستان کی کسی خاص شخصیت پر نوٹ
ملک ریاض وہ واحد پاکستانی ہے جس نے ھر پاکستانی کے مسئلے کو سمجھا اور اسے حل بھی کیا مثلاً۔
بھوکے صحافی کے لیے پلاٹ،
بے گھر سیاستدان کے لیے گھر،
بے کار سیاستدان کے لیے کاریں اور جہاز،
نیک اور پرہیزگار بیوروکریٹ کے لیے حج اور عمرہ،
بدکار کے لیے یورپی ٹرپ،
بے روز گار ریٹائرڈ جرنیلوں اور ججوں کے لیے نوکریاں اور نیکوکاروں کے لیے بڑی بڑی مسجدیں بنا دیں
اور اب بات کرتے ہیں کسی نئے نظام کی جو جہموریت کے زخم عوام کولگے ہیں، اس کی بھی تلافی ہو سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے قومی یک جہتی کے لیے معافی تلافی کے ذریعے سب کونئے نظام کے لیے قائل کیاجا سکتا ہے، اب قوم کو قربانی دینا ہو گی۔ قربانی کا جانور بے عیب ہونا چاہیے۔ قربانی کرنے والا جیسا بھی ہو، چلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments