لاک ڈاؤن کے دنوں میں کرپشن


سنتے تھے کہ کرپشن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، لیکن لاک ڈاؤن کے دنوں میں اس کا حقیقی ادراک ہوا۔ لوڈو کھیل کھیل کر جب بور ہو گئے تو کیرم بورڈ کی ڈھونڈ مچی۔ نوے کی دہائی کے آخر میں خاندانی کیرم کو کمبل میں لپیٹ کر زمانے کے گرم سرد سے مکمل محفوظ کر دیا تھا۔ عزت مآب جناب مشرف کے مارشل لاء، ایم کیو ایم کے بھتوں، کراچی کی چائنا کٹنگ، بارہ میئی، دہشت گردی کے خلاف جنگ، بن لادن صاحب کی ہلاکت و شہادت، زرداری صاحب کی مسکراہٹ و صدارت، شریف خاندان کی خدمت و حکومت، غرض وقت کی کون سی چیرہ دستی تھی جس سے اس بورڈ کی حفاظت نہیں ہوئی۔ بالآخر جب ملک میں دودھ اور شہد کے دریا بہنے لگے تو بورڈ بھی اپنا جوبن دکھانے باہر نکلا، لیکن معلوم ہوا کہ گوٹیاں ندارد۔ دودھ کے دریا میں یوں لگا کہ کسی کم ظرف نے مینگنیاں ملا دیں ہوں۔

گوٹوں کی تلاش میں نکلے۔ بصد تلاش گوٹیں ملیں تو پتہ چلا کہ کس طرح کیرم بورڈ مافیا نے عام شہری کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ سٹرائکر، جس کے بغیر گیم ناممکن ہے، گوٹوں کے ساتھ نہیں ملتا بلکہ الگ سے خریدنا پڑتا ہے۔ غضب خدا کا، ریاست مدینہ میں ایسی بد دیانتی! یہ تو ایسا ہی ہے جیسے بریانی کی قیمت میں صرف چاول ملیں اور بوٹیوں کی الگ پیمنٹ کرنی پڑے۔

وزیر اعظم اور کابینہ سے اپیل کرنے کا خیال آیا، پھر سوچا کے وہ تو بڑے چوروں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں، لیکن پھر بھی مشورہ دینے میں کیا حرج ہے۔ تو جناب، انگریزی محاورہ ہے don ’t bite off more than you can chew، اس کے مصداق آپ ابھی چینی، پیٹرول جیسے مافیاؤں سے ٹکر نہ لیں۔ بہتر ہے پہلے ٹرم میں چھوٹے لوگوں جیسا کہ کیرم بورڈ مافیا کے خاتمے پر توجہ دیں۔

پیٹرول کی قیمتیں کم ہوں نہ ہوں، لیکن قوم کا مطالبہ ہے کہ کیرم کی گوٹوں کے ساتھ سٹرائکر بھی اسی قیمت میں ملنا چاہیے۔

آپ کی ٹائیگر فورس اس کام کے لئے بہت موزوں رہے گی۔ ان کی ذمے یہ کام لگائیں کہ دکان دکان جا کر گوٹوں کے ہر ڈبے میں سٹرائکر رکھوائیں۔

اس مافیا سے نمٹنے کے بعد دوسرے ٹرم میں تھوڑے بڑے عفریتوں سے نبرد آزما ہوئیے گا۔ مثال کے طور پر پریشر ہارن استعمال کرنے والے بس اور ٹرک ڈرائیوروں کو سمجھائیے گا کہ جب وہ بائیک پر جاتی کسی فیملی کے پیچھے یہ پریشر ہارن استعمال کرتے ہیں تو اس کا خوفناک شور خاص طور پر اس فیملی کے چھوٹے بچوں پر نفسیاتی طور پر کتنا برا اثر چھوڑ سکتا ہے۔

لیکن رہنے دیں۔ یہ بس اور ٹرک مافیا درمیانے درجے سے اوپر کی چیز ہیں۔ آج کل تو رکشے والے بھی پریشر ہارنا لگوا کر گھومتے ہیں۔ تو دوسرے ٹرم میں صرف ان کا قلع قمع کر دیجیے گا، اور تیسرے ٹرم میں پھر بڑے فرعونوں کا سوچیے گا۔ ٹرمز کی کوئی کمی نہیں کیونکہ آپ کے علاوہ کوئی اور آپشن ہے نہیں۔

کیرم کی بات ہو رہی ہے تو آپ کی حکومت نے معاشرے کی اصلاح کے لئے جو اقدامات کیے ہیں ان کی تعریف نہ کرنا نا انصافی ہو گی۔ انسانی برابری، صنفی برابری، مذہبی رواداری، بنیادی حقوق کی پاسداری، دلیل کو تسلیم کرنا اور گالی کو رد کرنا، عام شہری کو جوتے کی تلے سے تھوڑے اوپر کی چیز سمجھنا، وغیرہ، آپ کے دور میں ہی نمو پا رہا ہے۔ اسی حوالے سے یہ کہنا ہے کہ جلد کی رنگت پر مبنی امتیاز ختم کرنے کے لئے بھی ٹائیگر فورس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور ایک تیر سے دو شکار والی بات ہو گی کیونکہ کیرم میں آج بھی گوٹ کی رنگت پر امتیاز ہوتا ہے۔ غضب خدا کا، سفید گوٹ کے بیس پوائنٹ اور کالی کے صرف دس!

اب سے جو بھی کیرم کی گوٹیاں خریدنے دکان پر جائے ٹائیگر فورس کے جوان اسے کھڑے کھڑے سمجھا دیں کہ سفید گوٹ کے بیس پوائنٹ اور کالی گوٹ کے دس پوائنٹ نہیں ہوں گے بلکہ دونوں کے برابر پوائنٹ ہوں گے۔ بالکل جس طرح مملکت میں تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں۔
جو ایسا کرنے سے انکار کرے اس کا ٹویٹر پر ایسے منہ کالا (یا سفید) کیجئے کہ کیرم کا سکور بتانے کے قابل نہ رہے۔ یا تھوڑی ہلکی سزا یہ کہ سٹرائکر کی قیمت الگ سے ادا کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments