آج کے اونچی ذات والے اور اچھوت


کچھ ٹھیک سے تو نہیں مگر اس قدر ضرور یاد ہے کہ مدرسے کی ابتدائی جماعتوں میں مطالعہ پاکستان میں کہیں پڑھا تھا کہ قدیم برصغیر کا معاشرہ ذات پات میں تقسیم تھا۔ اور اس تقسیم کی وجہ ان کی مذہبی تعلیمات تھیں۔ مذہب کے معاملات سب سے اونچی ذات والے چلایا کرتے تھے۔ اس کے بعد ریاستی معاملات چلانے والے بھی اونچی ذات والے تھے۔ اور سب سے نچلی ذات اچھوت تھے۔ اگر کوئی اچھوت مذہبی تعلیمات کو سن لیتا تو اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا جاتا تھا۔

ہمیں پڑھایا گیا تھا کہ پھر عرب یہاں آئے تو ان میں ذات پات نہیں تھی سب انسان برابر تھے۔ مذہبی طبقات کی کوئی تقسیم نہیں تھی وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ کس جماعت میں سب پڑھا تھا اتنا تو یاد نہیں ہاں البتہ اس قدر ضرور یاد ہے کہ اس وقت اتنی سمجھ بوجھ تھی کہ یہ سب کچھ پڑھ کر کچے ذہن میں بھی کچھ اس طرح کے سوال اٹھتے تھے کہ کیسا تھا یہاں کا قدیمی معاشرہ؟ بے چارے اچھوت لوگوں پر اتنے ظلم کیسے کرلیتے تھے؟ آخر کو تو وہ بھی ان کے ہم مذہب ہی تھے تو پھر بے چارے اگر اپنے مذہب کی ہی تعلیمات سن لیتے تھے تو ایسا ظلم کیوں؟

آخر ان تعلیمات میں ایسا کیا تھا کہ اگر اچھوتوں کے کانوں میں بھی پڑ جاتی تو بھرشٹ ہوجاتی تھیں؟ آخر کو تھیں تو مذہب کی تعلیم ہی نا۔ مذہب کیسے کسی انسان کے کان میں جاکر بھرشٹ ہو سکتا ہے۔ مذہب تو ہوتا ہی اس لئے ہے کہ سب انسان اس پر عمل کریں۔ کیسے بے چارے مظلوم تھے یہ اچھوت بھی کہ ان کو انسان تک نہیں سمجھا جاتا تھا؟ اپنے مذہب کی تعلیم بھی نہیں سن سکتے تھے۔ ظالم اونچی ذات والے اچھوتوں کو اپنے ہی مذہب سے کیسے دور رکھ سکتے تھے؟

حیرت اس وقت بھی ضرور ہوتی تھی کہ آخر ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہم تو خود چاہتے ہیں کہ ساری دنیا ہمارے مذہب کا پیغام اپنے کانوں سے سنے اور اس کو معلوم ہو کہ کیا اچھی اور سچی تعلیم ہے۔ ہمارا مذہب تو چاہتا ہی یہ ہے کہ اس کی تعلیم دوسروں کو سنا کر ان کو اس کی حقانیت اور سچائی سے آگاہ کیا جائے۔ مگر اس وقت اس سے آگے ذہن کام نہ کرتا تھا۔ پھر خیال آتا ایسے جاہلوں اور ظالموں کا یہی انجام ہونا چاہیے تھا کہ ان کو ہمارے جیسے روشن خیال لوگ آکر سبق سکھاتے۔

دوسرا خیال جو آتا وہ یہ تھا کہ دیکھو ہمارا مذہب کتنا سچا اور اچھا مذہب ہے۔ اس میں انسانوں کو برابر سمجھا جاتا ہے۔ ذات پات کے نام پر ایسا ظلم نہیں ڈھایا جاتا۔ اول تو ذات پات کا تصور ہے نہیں لیکن اگر پھر بھی کوئی غیر ہمارے مذہب کی تعلیمات سنے یا ان کو اپنائے تو ہمیں تو خوشی ہوتی ہے۔ بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے مذہب کی تعلیمات کو سنیں اور ان کو معلوم ہو کہ ہمارا مذہب ہی سچا ہے۔ اور اس کی تعلیم کس قدر ا چھی ہے۔

پھر کبھی یہ بھی بڑوں سے سننے کہ باہر کی ترقی یافتہ دنیا کے کسی بڑے آدمی نے جو غیر مذہب کا ہے، لیکن اس نے ہمارے مذہب کا مطالعہ کیا اور اس کے بارے میں ایسے تعریفی الفاظ کہے۔ یا یہ بتایا جاتا تھا کہ دنیا کے فلاں بڑے ادارے جس کا ہمارے مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور جس کے چلانے والے بھی ہمارے ہم مذہب نہیں ہیں اس کے باوجود انہوں نے ہماری مقدس کتاب کی فلاں آئیت چسپاں کررکھی ہے۔ یہ سناتے ہوئے ہمارے بڑے بزرگوں کے لہجے کی خوشی اور فخر سے بھرپور ہوا کرتے تھے۔ اس وقت بس اپنے مذہب کی سچائی اور اس سچے مذہب کے پیروکار ہونے پرہمارا دل خوشی سے جھوم جاتا۔

یہ وقت اسی کی دہائی کا تھا۔ اس وقت ہمارا ذہن ہی کچا نہیں تھا بلکہ معاشرہ بھی شاید کچا تھا۔ اب جب اس وقت اور اس وقت کے حالات کا جائزہ لوں تو وہ ماضی کے قصے لگتے ہیں۔ اب تو وہ صورت ہے کہ سب کچھ ہی بدلا بدلا ہے۔ خیر پہلا تصور جو زائل ہوا وہ یہی تھا کہ جو نصابی کتب میں پڑھایا گیا اس کا حقیقی زندگی اور ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں دنیا ہی کوئی اور معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی مذہب وہی ہے جسے ایک خاص طبقہ اجماعی طور پر مذہب قرار دے۔

وہ طبقہ جسے سب سے اونچی ذات والا بھی کہہ سکتے ہیں جن کا ایک خاص حلیہ اور ہیئت ہوگی۔ اور اگر کسی نے ان سے اختلاف کی جرات کی تو اسے ملک میں زندہ رہنے کا ہی حق نہیں۔ پھر یہ کہ ریاست کے بڑے عہدوں پر بھی ریاست کے سرٹیفائید مذہب والے ہی براجمان ہوسکتے ہیں۔ دیگر مذاہب والے نچلی ذات کے ہیں ان کو ایسے عہدوں پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ پھر یہاں قانون بن گیا ہے اونچی ذات والوں کا مذہب ایسا ہی ہے جیسے کوکا کولا والوں کی ملکیت ان کی بوتل کا برانڈ ہے۔ اور کسی اچھوت کو اس برانڈ کو اپنے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ اور اگر اچھوتوں نے ان کے برانڈ جسے اردو میں شعار کہتے ہیں، کا استعمال کیا تو وہ بھی ہمارے اس برانڈڈ مذہب پر ایک ڈاکہ ہے۔

اب جب یہاں بھی مذہب برانڈ بن کر اونچی ذات والوں سے مخصوص ہوگیا ہے تو پھر اب اونچی ذات والوں نے اس برانڈ کو محفوظ کرنے کے جدید طریقے بھی نکال لئے ہیں۔ سیسہ کانوں میں ڈالنے کے طریقے پرانے ہوئے۔ اب تو فرینچائز لئے بغیراس برانڈ کو استعمال کرنے کی سزا تعزیرات میں تین سال قید اور جرمانہ۔ اور اگر کوئی نچلی ذات والا کہیں اونچی ذات والوں کے علاقے میں رہائش اختیار کرلے تو اسے جینے کا حق نہیں ہے۔ مر کر قانون کی گرفت سے نکل جائے تو برانڈ کی حفاظت کے اور بھی طریقے ہیں۔ مثلاً اگر وہ مر کر بھی اونچی ذات والوں کے قبرستان میں دفن ہوجائیں تو ان کی نعشوں کو نکال باہر پھینکنا اپنے برانڈ کی حفاظت کے لئے ضروری ہے۔ حتیٰ کہ اپنے قبرستانوں میں بھی اگر انہوں نے برانڈ کو استعمال کر لیا تو ان اچھوتوں کی قبروں کی بے حرمتی کرنا بھی اپنے برانڈ کو محفوظ رکھنے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔

آپ شاید مبالغہ سمجھیں مگر پاکستان میں آئینی طور پر اعلیٰ عدلیہ نے اپنے فیصلے ریاست پاکستان بنام ظہیر الدین مقدمے میں، مذہب کو برانڈ قرار دیا گیا ہے۔ اور اس کے عین وہی حقوق قرار دیے گئے ہیں جیسے تجارتی کمپنیوں کے برانڈ ہیں جن سے ان کے کاروباری مالکان کے معاشی حقوق وابستہ ہیں۔ کوئی مالک کو قیمت ادا کیے بغیر سودا نہیں لے سکتا اور فرینچائز لئے بغیر نام استعمال نہیں کر سکتا۔

یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ قانون صرف انسانی ایجادات اور تخلیقات کے جملہ حقوق ہی محفوظ کرتا ہے۔ سورج چاند، روشنی ہوا اور خدا کی ملکیت کو محفوظ نہیں کر سکتا۔ گویا یہاں مذہب بھی برانڈ قرار دے کر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ یہاں کا مذہب ان اونچی ذات والوں کی ہی تخلیق اور ایجاد ہے بھلا خدا کا اس سے کیا لینا دینا؟ اب کم از کم اتنا تو سمجھ آ گیا کہ مسئلہ خدا کے مذہب کا نہیں ہے۔ مذہب بھلے کوئی بھی ہو مسئلہ صرف اونچی ذات والوں کی اجارہ داری کا ہے ان کے جملہ حقوق پر ڈاکہ نہیں پڑنا چاہیے۔ اور جن سے برانڈ کے جملہ حقوق کو خطرہ ہو دراصل وہی اچھوت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments