نوشابہ کی ڈائری: اب راج کرے گا مہاجر


ہاں بھئی ڈائری، کیسی ہو۔ معاف کرنا اتنے دن بعد تم سے ملاقات ہو رہی ہے۔ کراچی سے چھوٹی خالہ آ گئی تھیں اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ۔ بس پھر پورے دس دن ہلاگلا کرنے اور باتوں میں گزر گئے۔ شائستہ اور شگفتہ کی یہ بات مجھے بہت بری لگتی ہے کہ اتنی خاطرداری کرو، گھماؤ پھراؤ، پھر بھی کہتی ہیں ”تمھارے میرپورخاص میں کچھ ہے ہی نہیں، بوریت ہو رہی ہے۔“ پھر ہمارے شہر کا مذاق اڑائیں گی، ہماری بول چال، لوگوں کا مذاق اڑائیں گی۔

یہ کوئی بات ہوئی۔ ان کراچی والوں کا یہی ہے۔ ہم میرپورخاص، حیدرآباد، سکھر والوں کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔ اور یہاں کے لوگ کتنے فخر اور اپنائیت سے کراچی کا ذکر کرتے ہیں، جیسے کوئی مقدس مقام ہو۔ پچھلی بار شاید کوئی تین سال پہلے آئی تھیں۔ ہم لوگ انھیں فروٹ فارم لے کر گئے تھے۔ تصویرمحل سنیما میں فلم بھی دکھائی تھی، ”خوب صورت“ ، ندیم اور شبنم کی۔ پہلے کتنا فلمیں دیکھنے جاتے تھے، ہر پانچ چھے مہینے بعد۔

”بندش“ ، ”منزل“ ، ”حیدرعلی“ ، ”سسرال“ ․․․کتنی ساری فلمیں دیکھیں، کوئی تصویرمحل میں دیکھی، کوئی ”فردوس“ میں کوئی ”پاشا“ میں۔ کتنا مزا آتا تھا۔ ویٹنگ روم میں شو شروع ہونے کا انتظار، پھر ہال کے اندھیرے میں اپنے نمبر کی کرسی تلاش کرکے بیٹھنا، اتنی بڑی اسکرین، ”ٹھنڈی بوتل، ٹھنڈی بوتل“ کی آوازیں، ہمارے سب گھر والے کوکاکولا پیتے تھے، مجھے ”آر سی“ پسند تھی۔ اب تو ان سنیما گھروں کو بس باہر سے دیکھتے ہیں۔

کوئی اچھی فلم آہی نہیں رہی۔ کبھی کبھی بھائی جان وی سی آر کرائے پر لے آتے ہیں تو ایک ہی رات میں کئی فلمیں دیکھ لیتے ہیں، آخری فلم تو سوتے جاگتے ہوئے ہی دیکھتے ہیں۔ جب بھی ایسا ہوتا ہے بھائی جان بے چارے ساری رات وی سی آر کے پاس بیٹھے رہتے ہیں، جہاں کوئی بے ہودہ سین آیا اور انھوں نے فاسٹ فارورڈ کا بٹن دبایا۔ اس چکر میں کبھی کبھی کئی ضروری سین اور پورے پورے گانے نکل جاتے ہیں، پھر میرے اور باجی کے کہنے پر انھیں فلم ریوائنڈ کرنا پڑتی ہے۔

مجھے امیتابھ بچن اور متھن چکرورتی بہت پسند ہیں۔ کیا اسٹائل ہے دونوں کا۔ سعید کا ہیئراسٹائل بھی متھن چکرورتی جیسا ہے۔ پتا نہیں آج کل سعید کو کیا ہوا ہے، کئی دنوں سے اس نے مجھے کوئی خط نہیں بھیجا۔ ورنہ ہر دوسرے دن اسکول کے راستے میں کھڑا ملتا اور کسی بہانے قریب آکر خط تھما جاتا اور پچھلے خط کا جواب لے جاتا۔ اس کی ڈرائنگ کتنی اچھی ہے، کتنا پیارا دل اور تیر بناتا ہے۔ شعر تو ایسے ایسے لکھتا ہے کہ بس۔ میں تو پاکیزہ ڈائجسٹ میں آنے والے شعروں میں سے کوئی لکھ دیتی ہوں، وہ بھی یہی کرتا ہوگا، اور کیا۔

گانے تو میں پہلے بھی سنتی تھی، مگر یوں ہی، بھائی جان جو کیسٹ لے آتے انھی میں سے کوئی ٹیپ ریکارڈر میں لگادیا۔ مگر اب تو ہر گانا سنتے ہوئے عجیب حال ہوتا ہے، لگتا ہے ․․․․۔ کچھ گانے تو میں بہت زیادہ سنتی ہوں جیسے، ”ہمیں اور جینے کی چاہت نہ ہوتی، اگر تم نہ ہوتے“ ، ”دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے، دور تک نگاہوں میں ہیں گل کھلے ہوئے۔“ سعید نے کہا تھا کیفے شیراز میں ملتے ہیں، مگر میں نے منع کر دیا۔ ڈر لگتا ہے بابا، کوئی دیکھ لے تو۔

اس نے لکھا تھا ”نوشابہ! تم سری دیوی جیسی لگتی ہو“ ، تب سے میں سری دیوی کی فلمیں بہت شوق سے دیکھنے لگی ہوں۔ بس میری سہیلی نسرین کو پتا ہے میرا اور سعید کا، وہ تو کہتی ہے کہ نہیں تم سری دیوی میں نہیں ملتیں، یہ سب لڑکے ایسے ہی جھوٹ بولتے ہیں، مگر آئینہ دیکھ کر مجھے بھی اپنا آپ سری دیوی جیسا لگتا ہے۔

کوئی چار پانچ دن پہلے سعید کو دیکھا تھا۔ ہم لوگ، یعنی میں امی ابو اور باجی، تانگے پر آرہے تھے بڑی خالہ کے گھر سے، رات گیارہ بجے کا وقت ہوگا۔ خالہ کے ہاں جب جاؤ اتنی ہی دیر ہوجاتی ہے، اسی لیے جمعرات کو جاتے ہیں کہ اگلے دن چھٹی ہوتی ہے۔ جب ہمارا تانگا ڈاک خانہ چوک کے پاس پہنچا تو دیکھا کچھ لڑکے کھڑے ہیں جن میں سے ایک کے ہاتھ میں چھوٹی سے بالٹی ہے اور دوسرا اس میں برش ڈبوڈبو کر دیوار پر کچھ لکھ رہا ہے۔

باقی ان کے پاس کھڑے تھے۔ اچانک دیوار پر لکھنے والا لڑکا مڑا تو میں نے پہچان لیا، وہ میرا سعید تھا۔ اگلے دن اسکول جاتے ہوئے میں نے خاص طور اس جگہ دیوار پر لکھی تحریر دیکھی، ہر کچھ فاصلے کے بعد سیاہ رنگ سے نعرے لکھے ہوئے تھے، ”مہاجروں ایک ہوجاؤ، مہاجروں کے دل کا چین الطاف حسین الطاف حسین، مہاجروں کا سپرمین الطاف حسین الطاف حسین، شیعہ سنی بھائی بھائی، سندھی مہاجر بھائی بھائی، الطاف کرے گا قیادت پھر راج کرے گا مہاجر۔“ اور ایک جگہ لکھا تھا، ”پانچویں قومیت کے فکر وفلسفے پر مبنی تحریک مہاجرقومی موومنٹ․․․ بانی وقائد الطاف حسین۔“

شاید ابو نے بھی یہ نعرے پڑھ لیے تھے۔ اسی لیے شام کو سو کر اٹھی تو ابو اور بھائی میں بحث ہو رہی تھی۔ ابو کہہ رہے تھے، ”کا ہے کا مہاجر، ہم اب سندھی ہیں، بے کار کی باتیں۔“ ، ”مگر ابو وہ ہمیں مکڑ اور پناہ گیر کہتے ہیں، ہماری کوئی شناخت تو ہو۔ میں پانچویں میں تھا تو اپنے دوست کے گھر گیا، اس کے بھائی نے مجھ سے سندھی میں کچھ پوچھا، میری سمجھ میں نہیں آیا، تو پتا ہے میرے دوست نے کیا کہا، وہ اپنے بھائی سے بولا ادا! یہ مکڑ ہے، اس سے اردو میں بات کرو۔“ بھائی جان دھیمی آواز میں بولے مگر ان کے لہجے میں غصہ تھا۔ ”دیر تک یہ بحث چلتی رہی، پھر ابو“ زمین چھوڑی ہے میاں، سب کچھ سہنا ہوگا ”کہہ کر اٹھ گئے۔ بھائی جان بڑبڑائے“ ہم نے تھوڑی چھوڑی ہے، ہم کیوں سہیں۔ ”

ابو اور بھائی جان میں ایک بار پہلے بھی کئی دن تک بحث ہوتی رہی تھی، پچھلے سال جب الیکشن ہوئے تھے۔ ابو کہتے تھے سید قربان علی شاہ کو ووٹ دینا چاہیے، مگر بھائی جان بشیراحمدخان قائم خانی کے حامی تھے۔ قربان علی شاہ کو تو پورا شہر جانتا ہے، بشیراحمد قائم خانی کا نام پہلی بار الیکشن ہی میں سنا تھا۔ وہ پہلے فوج میں تھے، دیواروں پر ان کے نام کے ساتھ جنرل ریٹائرڈ بھی لکھا جاتا تھا۔ ابو کہتے تھے قربان علی شاہ سب کے کام آنے والا آدمی ہے، متعصب سندھی بھی نہیں، اسے ووٹ دینا چاہیے، لیکن بھائی جان اڑے ہوئے تھے کہ اس بار اپنے بندے ہی کو ووٹ دینا ہے۔

امی بھائی جان کے ساتھ تھیں، اور باجی کبھی ابو کی طرف تو کبھی بھائی جان کی طرف، اور میرا تو خیر ووٹ ہی نہیں۔ آخر بشیر احمد قائم خانی کی جیت ہوئی۔ ہم سب رات بھر ٹی وی کے سامنے بیٹھے سوتے جاتے انتخابی نتائج سنتے رہے تھے۔ کہیں صبح جاکر ہمارے حلقے کے نتیجے کا اعلان ہوا تھا۔ بھائی جان نے خوش ہوکر خوب تالیاں بجائی تھیں، ابو انھیں دیکھ کر مسکراتے رہے تھے، انھوں نے بس اتنا کہا تھا ”پیپلزپارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اس لیے سندھیوں کی بہت کم تعداد ووٹ دینے نکلی، ورنہ جنرل صاحب جیت نہ پاتے۔“

میرے خیال میں ابو خود کو اس لیے سندھی کہتے ہیں کیوں کہ انھیں سندھی بولنا آتی ہے۔ اپنے سندھی دوستوں سے وہ سندھی ہی میں بات کرتے ہیں۔ سمجھ تو اچھی خاصی میں بھی لیتی ہوں، لیکن بول نہیں پاتی، کئی مرتبہ بولنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ایک دو دفعہ کلاس میں شہنازلغاری، فرزانہ پنہور، شمع آریسر اور گیتا کرپلانی سے سندھی میں بات کرنے لگی مگر ان کی ہنسی سن کر مجھے واپس اردو پر آنا پڑا۔ فرزانہ پنہور نے کہہ دیا تھا تم مت بولو تم نہیں بول سکتیں۔

جو نعرے سعید کو لکھتے دیکھا تھا اب تو وہ نعرے ہمارے اسکول کی دیوار پر بھی لکھے ہیں، باہر کی طرف، اور میری گلی کے نکڑ والے گھر کی دیوار پر بھی۔ یہ لفظ مہاجر اب اپنا اپنا سا لگنے لگا ہے، پتا نہیں کیوں، شاید اس لیے کہ سعید نے لکھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے مجھے پہلی بار تب احساس ہوا تھا کہ ہم مہاجر ہیں جب پچھلے سال کراچی میں ایک لڑکی بشریٰ زیدی ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگئی تھی۔ ابو نے بتایا تھا کراچی میں مہاجر پٹھان فسادات ہورہے ہیں کیوں کہ پٹھان بس ڈرائیور نے مہاجر لڑکی کو بس کے نیچے کچل دیا۔

پچھلی بار چھوٹی خالہ کے گھر کراچی گئے تو وہاں اس واقعے کا ذکر چھڑ گیا۔ خالو نے بتایا کہ وہ ڈرائیور پٹھان نہیں تھا اور ان فسادات میں بہت سے پٹھانوں کو مار دیا گیا تھا۔ پہلے نہ پتا تھا نہ سوچتے تھے کہ کون کیا ہے، اب محلے میں سب کے بارے میں پتا چلنے لگا ہے کون مہاجر ہے کون پنجابی۔ محلے میں ایک ہی سندھی خاندان ہے، سندھن آپا کا۔ سندھن آپا ہمارے گھر آکر گھنٹوں بیٹھی اور امی کے پاندان سے پان کھاتی رہتی ہیں۔ مجھ سے کہتی ہیں تیری شادی ہوگی تو رلی سی کر دوں گی۔ مجھے رلی بہت پسند ہے، رنگ برنگے چوکور خانے۔ شادی ہو نہ ہو سندھن آپا جلدی سے رلی سی کر دے دیں۔

16 فروری 1986

اس سیریز کے دیگر حصے”بھٹو نے قتل کا منصوبہ بنایا تھا“ہماری منیا کو دیکھے ہو؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments