کچھ باتیں ونیکے تارڑ کی


معلمی یا ماسٹری ایک ایسا پیشہ ہے جسے کسی زمانے میں بڑی موج والا پیشہ کہا جاتا تھا کہ کرنا کچھ نہیں، سال میں تین مہینے گرمیوں کی چھٹیوں کے علاوہ بھی ڈھیر ساری چھٹیاں اور طلباء و والدین پر رعب داب اس سے علیحدہ۔ آج کل تو محکمہ تعلیم کے ملازمین بالخصوص اساتذہ پر بہت سختیاں ہیں اور ان سے کچھ جائز ناجائز کام بھی لئے جاتے ہیں مگر کسی زمانے میں پٹواری کی نوکری اور استاد کی نوکری بڑی شاہانہ نوکری ہوا کرتی تھی۔

اصل مزے تو گاؤں دیہاتوں میں تعینات ان اساتذہ کے تھے جو سکول کی در و دیوار کو اپنا دیدار کم وبیش ہی کروایا کرتے۔ بلکہ اکثر اوقات تو سکول بھی چار دیواری سے عاری ہی ہوا کرتے تھے۔ اور اگر کبھی یہ اساتذہ بھولے بھٹکے سے سکول چلے بھی جایا کرتے تو ان کا واحد کام طلباء کو پیٹنا اور ان سے لسی منگوا کر پینا ہوا کرتا تھا۔

ذکر کرتے ہیں گورنمنٹ ہائی سکول ونیکے تارڑ کا کہ جہاں میری زندگی کے تین یادگار سال گزرے۔ اس عرصے کے دوران بہت سے قابل اور قیمتی اساتذہ سے واسطہ بھی پڑا کہ جن کے تجربات اور ان کی پندونصائح سے ہم ابھی تک فائدہ اٹھاتے ہیں اور ایسے اساتذہ بھی نظر ائے کہ جن کی غلطیوں اور ان کی ذاتی کوتاہیوں سے بھی ہمیں زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنا آسان ہوا۔ خدا لمبی زندگی عطا فرمائے ان تمام اساتذہ کو بھی کہ جنہوں نے ہماری تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا فرمایا اور بخشے ان تمام کو کہ جن سے ہم کسی زمانے میں پڑھے اور اب وہ اگلے جہان سدھار چکے ہیں۔

بات چل نکلی سکول اور اساتذہ کی تو بزکرکرتے ہیں اپنے اساتذہ کا۔ ہمیں بہت سے اساتذہ ملے جن سے کچھ انتہائی قابل، کچھ نالائق بھی تھے۔ کچھ اپنے فرئاض بھرپور طریقے سے انجام دیتے اور اس پیشہ کو پیشۂ معلمی سمجھتے مگر کچھ ایسے بھی تھے کہ جن کا مقصد سکول میں آ کر محض وقت گزاری یا طلباء کو مار پیٹ کر اپنی فرسٹریشن نکالنا ہوا کرتا تھا۔ اساتذہ کو نالائق کہنا شاید میری غلطی ہو کہ ان اساتذہ کی نالائقی کی وجہ سے ہم نے زندگی کے وہ سبق سیکھے جو آج تک ہمارے کام آ رہے ہیں۔

بات شروع ہوئی تھی سکول سے تو ہمارے سکول کے زمانے میں عربی کے ایک استاد ہوا کرتے تھے جو پڑھانا تو درکنار مگر بچوں کو خوب مارتے تھے اور مارتے وقت کبھی نہ دیکھا کہ کہاں لگ رہی ہے اور کہاں نہیں۔ خدا بخشے استاد محترم کو اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ اسی طرح ایک اور استاد ہوا کرتے تھے جو پیسے دھیلے کے معاملے میں بڑے کنجوس تھے۔ ان کی مار سے صرف وہ ہی بچ پاتا جو ان کے پاس ٹیوشن پڑھنے جاتا تھا۔ اور جو فیس نا دے سکنے یا کسی اور وجہ سے ان کے پاس ٹیوشن نہ پڑھ سکتا اس کے ریاضی کے سوالوں کے درست جواب بھی غلط قرار پاتے اور یوں ان کی خوب پٹائی ہوتی۔

خدا حیاتی دے ایسے استاد بھی تھے کہ جن کا اوڑھنا بچھونا ہی یہ تھا کہ میرا بچہ پڑھ جائے۔ اور خدا خوشیاں دے ایسے استاد صاحبان بھی تھے جو کہا کرتے کہ میرے پاس ٹیوشن پڑھنے کے لئے ہر بچے نے آنا ہے چاہے وہ فیس دے سکتا ہے یا نہیں اور کمال یہ کہ ہم کو کبھی یہ نہ پتا چل سکا کہ کون فیس دے کے پڑھ رہا اور کون بغیر فیس کے۔

اسکول زمانے کے ایک اور ماسٹر صاحب، طبیعت کے کچھ زیادہ ہی نفیس کہ ہر وقت ان کو بیکٹیریا وائرس کا ڈر خطرہ رہتا اور ہم طلباء بھی ان کی اسی خوبی یا خامی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے اور جس دن ٹیسٹ ہوتا، ہم استاد جی سے وائرس کی باتیں چھیڑ دیتے اور پھر یونہی سارا پیریڈ گزر جاتا۔

اساتذہ کی کچھ ذاتی چپقلشیں بھی ہوا کرتی تھی کہ ایک استاد جی جو کہ کلاس میں ہر وقت اونگھتے رہتے ان کے بارے میں دوسرے استاد جی کو پتا چلا تو ہمیں کہنے لگے کہ ہاں ان کا اونگھنا بنتا ہے کہ نئی نئی شادی جو ہوئی ہے۔ اب یاد نہیں کہ ہم میں سے کتنے لوگ اس بات کا مطلب سمجھ سکے اور کتنے نہیں۔

ایک اور استاد ایسے بھی ہوا کرتے تھے کہ جن کے بارے پورے سکول میں مشہور تھا کہ ان کو برفی کھلا کر ان سے کوئی بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک اور استاد صاحب اپنی مذاق کرنے کی عادت کی وجہ سے طلباء میں بڑے مقبول تھے اب پتا نہیں اساتذہ کو مذاق کرتے اور لطیفے سناتے وقت حدود و قیود کا خیال کیوں نہیں ہوتا تھا کہ بعض اوقات نہیں بلکہ اکثر اوقات وہ گندے گندے لطیفے بھی سناتے کہ جس وجہ سے سب لوگ ہنستے اور کچھ میرے جیسے شرمیلے ظاہری طور پر تو شرمسار ہوتے مگر اندر ہی اندر حظ بھی اٹھاتے۔

میرا ہر قاری کو مشورہ ہے کہ اپنے بچوں کو کبھی کسی ایسے سکول میں داخل نہ کروائیں جہاں لائبریری نہ ہو۔ مجھے یاد پڑتا ہے ہمارے گورنمنٹ سکول میں برائے نام لائبریری تو موجود تھی اور اس کے انچارج آٹھویں جماعت کے ایک استادصاحب ہوا کرتے تھے۔ جب بھی کوئی بچہ کتاب لینے جاتا تو لائبریری کے انچارج صاحب بچے کی تشریف پہ دو ڈنڈے برساتے اور چار گالیاں سنا کر بھگا دیتے کہ پہلے کورس کی کتابیں پڑھو پھر ادھر کو آنا۔ حالانکہ یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ بچے کورس کی کتابوں سے زیادہ غیر نصابی کتابوں، قصے کہانیوں اور رسالوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔

ان دنوں جاسوسی کہانیاں بڑوں میں اور ٹارزن و عمروعیار کی کہانیاں بچوں میں بڑے شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ ہم اپنے شوق کی تکمیل کی خاطر ایک روپے کی صورت میں کبھی کبھی ملنے والا جیب خرچ سنبھال کر رکھتے اور کہانیاں خرید لاتے۔ ہاں ایک چیز ہمارے حق میں یہ بہتر تھی کہ نوائے وقت اخبار آتا تھا جس میں ہفتہ کی روز بچوں کے لئے پھول کلیاں کے نام سے ایک آدھ صفحہ شائع ہوتا تھا، ہم وہ بڑے شوق سے پڑھتے اور پھر پورا ہفتہ اگلے آنے والے پھول کلیاں کا انتظار کرتے ریتے۔ ہاں مگر اس میں لکھنا حسرت ہی رہی کہ ہمیں لکھنا آتا تھا اور نہ ہی خط پوسٹ کرنا۔ ایک آدھ دفعہ ڈاکخانے سے لفافہ لا کر خط لکھا بھی مگر وہ کبھی پوسٹ نہ ہو سکا۔

میرا ماننا ہے کہ گورنمنٹ کو اس شعبے میں بھرپور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں اساتذہ کلاس مین ہروقت اونگھتے رہیں یا اساتذہ نے خود کبھی کوئی کتاب نہ پڑھی ہو وہ طلباء میں کتب بینی کا شوق کیسے پیدا کر سکتے ہیں۔ بہت سے اساتذہ کو ذاتی تربیت کی بھی سخت ضرورت ہے کہ جو لوگ طلباء کو گندے لطیفے سنا سنا کر خوش کرتے ہوں اور پڑھائی کی طرف دھیان کم ہو وہ کسی کا مستقبل کیا سنواریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments