پاکستان کو ایک نیا گیم چینجر مل گیا


فائبر آپٹک کے کیبل دیکھنے میں بجلی کے تار جیسے لگتے ہیں مگر اس کے اندر کئی طرح کے باریک ریشے جیسے تاروں کا نظام ہوتا ہے۔ یہ ریشے ماحولیاتی ضروریات اور درجہ حرارت کو مدنظر رکھ کر تیار کیے گئے پلاسٹک سے ڈھانپے جاتے ہیں۔ فائبر آپٹک کیبل ٹیلی فون لائن اور انٹر نیٹ ڈیٹا کی بہترین ٹریفک رواں رکھنے کے کام آتا ہے۔ معاشی مسابقت کے دور میں فائبر آپٹک کیبل پاکستان جیسے ملک کا ہتھیار ہے جس سے وہ ٹیکنالوجی بیسڈ صنعت کو زرمبادلہ کمانے کا موقع دے سکتا ہے۔

خصوصاً ان پہاڑی علاقوں میں جہاں زراعت ہے نہ صنعت۔ آپٹک کیبل کے ذریعے ڈیٹا کی منتقلی اتنی تیز رفتاری سے ہوتی ہے جتنی رفتار سے روشنی شیشے کے پار گزرتی ہے۔ اندازہً دو لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ۔ یعنی آپ نے فون ملایا تو دو لاکھ کلو میٹر بیٹھے شخص تک ایک سکینڈ میں آواز چلی جائے گی۔ ای میل فوراً موصول ہو جائے گی۔ ہوٹل کی بکنگ فوراً ہو جائے گی۔ گزشتہ دنوں پاکستان نے چین کے تعاون سے درہ خنجراب سے راولپنڈی تک 820 کلو میٹر طویل آپٹک فائبر کیبل نصب کرنے کا کام مکمل کیا۔

44 ملین ڈالر سے مکمل یہ منصوبہ سی پیک کا حصہ ہے۔ اس منصوبے کا افتتاح 19 مئی 2016 ء کو گلگت شہر میں کیا گیا۔ اس کام کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان 2013 ء میں معاہدہ ہوا۔ اس کیبل سے گلگت بلتستان کو تھری جی اور فور جی کی سہولت میسر آئے گی۔ اس فائبر آپٹک کیبل کے ذریعے پاکستان پوری دنیا میں انٹرنیٹ اور فون کے لئے استعمال ٹرانزٹ یورپ ایشیا ٹیرسٹریل کیبل نیٹ ورک سے جڑ جائے گا۔ کیبل کا 466.54 کلو میٹر حصہ گلگت بلتستان میں ہے۔

287.66 کلو میٹر کے پی کے، 47.56 کلو میٹر پنجاب اور 18.2 کلو میٹر کا حصہ اسلام آباد سے گزرا ہے۔ مزید اچھی خبر یہ ہے کہ 2017 ء سے فیز ٹو سٹارٹ کرنے کی منظوری رکی ہوئی تھی اب اس پر عملدرآمد کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ بینکنگ سیکٹر والے اپنی خدمات کو پراڈکٹ کا نام دیتے ہیں۔ مثلاً گھر کے لئے قرضے، کاروبار کے لئے قرض انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کی پراڈکٹس بہت زیادہ ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ آئی ٹی سیکٹر میں کم سرمایہ کاری اور محدود افرادی قوت کی مدد سے آپ زیادہ منافع کما سکتے ہیں۔

ہمارے دوست عامر ندیم کراچی میں آئی ٹی سے متعلق کاروبار کرتے ہیں۔ کسی شعبے کے لئے آئی ٹی کی ضروریات کا تخمینہ لگانا اور پھر ان ضروریات کو پورا کرنے لئے نظام تیار کرنا ان کا کام ہے۔ مختصر مدت میں بہت ترقی کی۔ عامر ندیم کا کہنا ہے کہ آئی ٹی سیکٹر کی ترقی کے لئے مخصوص انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ جس طرح منڈیوں کے لئے سڑکوں اور سپلائرز کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح آئی ٹی کی ترقی کے لئے خلل سے پاک تیز رفتار انٹرنیٹ، آئی ٹی کاروبار کو تحفظ دینے والے قوانین اور آئی ٹی انڈسٹری کے لئے تربیت یافتہ افرادی قوت بنیادی ضررت ہیں۔

اس وقت پاکستان بھر میں آئی ٹی کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے فارغ ہونے والوں کی تعداد سالانہ 50 ہزار کے قریب ہے لیکن ان میں سے اکثر بین الاقوامی مارکیٹ کے حساب سے معمولی اہلیت کے حامل ہیں۔ نجی شعبہ ابھی تک اپنی توجہ انٹرنیٹ کی فراہمی تک محدود رکھے ہوئے ہے۔ چند کمپنیاں آئی ٹی پراڈکٹس بنا رہی ہیں لیکن پرائیویٹ سطح پر بڑی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی نہیں آ رہی۔ عامر ندیم کا کہنا ہے کہ چین پاکستان میں سی پیک منصوبوں پر 50 ارب ڈالر سے زائد خرچ کر چکاہے۔

ایران میں 200 ارب ڈالر خرچ کرنے کی منصوبہ بندی ہو چکی۔ چینی کمپنیاں ان دونوں ملکوں میں بہترین آئی ٹی سہولیات کے بغیر عالمی معیار کا کام نہیں کر سکیں گی۔ فائبر آپٹک کیبل کی تنصیب سے چین کو آسانی ملے گی۔ دوسرے یا تیسرے مرحلے میں یہ کیبل ایران کو منسلک کر سکتا ہے۔ خطے میں ہمارا حریف بھارت ہر شہری کے لئے فائبر آپٹک منصوبہ شروع کرنے والا ہے۔ اس وقت امریکہ آئی ٹی ٹیکنیشن کو سالانہ ایک لاکھ بائیس ہزار ڈالر دے رہا ہے۔

بھارت کی سلی کون ویلی میں ایسے لوگ سالانہ ڈیڑھ لاکھ ڈالر تک کما سکتے ہیں۔ گوگل، فیس بک، سسکو، انٹیل، اوریکل، نیٹ فلکس جیسی بہت سی کمپنیاں بھارتی افرادی قوت پر انحصار کر رہی ہیں۔ آئی ٹی نے گمنام خاندانوں کے افلاس زدہ افراد کو بھارت کے امراء میں شامل کر دیا ہے۔ پاکستان کی دفاعی ضروریات کے لئے جدید ٹیکنالوجی بروئے کار لائی جا چکی ہے۔ فون کمپنیاں غیر معیاری خدمات کے عوض جیبوں پر ڈاکے ڈال رہی ہیں سائبر کرائمز بڑھتے جا رہے ہیں۔

پاکستان کی برآمدات اس وجہ سے کم نہیں کہ یہاں پیداوار نہیں ہو رہی۔ برآمدات نہ ہونے کے پیچھے بین الاقوامی منڈیوں اور کمپنیوں میں رائج جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ نظام کا نہ ہونا ہے۔ مواقع ہمیشہ پاکستان سے لپٹنے کو آمادہ رہے لیکن دور اندیشی سے عاری حکومتیں بروقت قومی ترجیحات کا تعین کر سکیں نہ قابل عمل منصوبہ شروع کر سکیں۔ 40 سال پہلے جس ڈیم کا منصوبہ بنا اس پر اب تعمیری کام شروع ہوا۔ 2009 ء میں فائبر آپٹک کیبل کا سوچا، 2016 ء میں بغیر کام شروع کیے افتتاح ہوا اور 2020 ء میں کام مکمل ہوا۔ روشنی کی رفتار سے ترقی کرنے والے زمانے میں یہ سست رفتاری ہمیں مار ڈالے گی۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments