اب عمران خان ایمانداری چھوڑ کر دیکھیں


کالم نگار عمر عزیز کے73 ویں برس یہ سوچ رہا ہے۔ جس دن جگمگائے گا شبستاں ہم نہیں ہوں گے۔ پھر ’کہیں ہم کو دکھا دو اک کرن ہی ٹمٹماتی سی‘ والی خواہش بھی اس کے دل میں موجود ہے۔ عمر خیام نے اس دکھ کا رونا اپنی ایک فارسی رباعی میں رویا۔

ایک مچھلی نے ایک بط سے مخاطب ہو کر کہا۔

کیا خشک ہو جانے کے بعد پانی کی روانی پھر پلٹ کر آئے گی؟

اس نے کہا، جب ہم کباب ہو گئے

تو پھر کیا آب اور کیا سراب

امریکی آئین کی عبارت آئندہ نسلوں کی مسرت اور خوشحالی سے شروع ہوتی ہے۔ کالم نگار عمر خیام کی طرح ’تو پھر کیا آب اور کیا سراب‘ والی لا تعلقی نہیں رکھتا۔ وہ آرزو مند ہے کہ پاکستان آباد ہو۔ خوشحال ہو۔ پاکستانیوں کے دل میں روز قیامت کا خوف چاہئے لیکن وہ یہیں دوزخ کا عذاب نہ بھگتتے پھریں۔ ایک گیلپ سروے کے مطابق گذشتہ ہفتے پاکستان کے اکیس لاکھ گھرانوں نے گھر کی اشیاء بیچ کر اپنی ضروریات پوری کیں۔ اور کربلا کیا ہوتی ہے میرے بھائی؟ ان لاکھوں گھرانوں کا بھی تصور کریں جن کے ہاں عزت اور عصمت کے سوا کچھ فروختی نہیں۔ قحط اور وبا کے دنوں اس کاروبار میں مندے کا بھی قیاس کریں۔ نظیر اکبر آبادی نے اک قحط کے یوں احوال بیان کئے ہیں:

یہ حال ہو گیا ہے کہ کسبی کا ان دنوں

کھلتا نہیں مہینوں مہینوں ازار بند

پاکستان میں جمہوریت اور آزادی کا ذائقہ سمجھانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی پیدائشی نابینا کو رنگ سمجھانا۔ اسے کیا سمجھایا جائے کہ سرخ کیا ہے، سبز کیا ہے اور نیلا پیلا کیا ہوتا ہے؟ اب پاکستانی بھلا کیا جانیں کہ آزادی کیا ہے جمہوریت کیا ہے اور سیاسی جماعت کیا ہوتی ہے؟ کسی سیاسی جماعت نے اسٹڈی سرکل قائم نہیں کیا۔ اسٹڈی سرکل لوگوں میں حقوق کا شعور پیدا کرتے ہیں۔ حقوق کی بحث کے ساتھ پنڈورا باکس کھل جاتا ہے۔ اب صورت حال یوں ہے کہ کوئی سیاسی کارکن اپنے قائد سے نہیں پوچھ سکتا۔ آپ موٹر سوار کیوں ہیں؟ ہم پیدل کیوں ہیں؟ منشور کا لفظ ہماری سیاسی جماعتوں کے نصاب سے خارج ہو چکا۔ سیاسی کارکنوں کا اپنے قائد سے صرف محبت اور عقیدت کا رشتہ ہے۔ سیاسی قائدین اپنے کارکنوں میں شعور نہیں صرف وفاداری چاہتے ہیں، صرف وفاداری۔

اک واقعہ، یہ من گھڑت نہیں۔ کتے کو چاہے جتنا مارو۔ جتنی بے رحمی سے چاہو پیٹو۔ جب تھک کر بیٹھ جائو گے تو وہ آکر تمہارے قدموں میں سردھر دے گا۔ ’در مالک دا مول نہ چھڈدے پانہویں وجن سو سو جتے‘۔ ایک کتا تھا جسے اس لئے گولی سے مارا جا رہا تھا کہ وہ بوڑھا ہو کر کسی کام کا نہ رہا تھا۔ اناڑی ہاتھوں کے باعث تین بار فائر کا وار خالی گیا۔ ایک فائر بس اسے چھوکر گزر گیا۔ وہ معمولی سا زخمی ہوا۔ درد سے چیخنے چلانے لگا۔ اسی دوران کتے کی زنجیرکھل گئی۔ وہ تیزی سے اپنے آقا کی طرف بھاگا جس کے ہاتھ میں بندوق تھی۔ سب نے یہی سمجھا کہ اب وہ اسے کاٹ کھائے گا۔ لیکن اس کے قریب پہنچ کر کتا زمین پر لیٹ گیا اور اپنے آقا کے قدم سونگھنے لگا۔ بے زبان اور معصوم کتوں کو چھوڑیں۔ انتہائی شاطر اور کائیاں سیاسی کارکن جب اپنے سیاسی قائد کو عدالتی بپتا میں مبتلا دیکھتے ہیں تو ان کا رونا پیٹنا دیکھا نہیں جاتا۔ اب خدا جانے شعیب بن عزیز نے یہی کہانی لکھی ہے یا ان کا مدعا کچھ اور تھا۔

ایسے گرا کہ مجھ کو بھی رنجور کر گیا

دوڑا تھا میری سمت جو خنجر نکال کے

اب آتی ہے بھٹو کے ایک جیالے کی کہانی۔ ’اسیں بال کھڈائیے بی بی دے۔ اسیں صدقے جائیے بی بی تے‘۔ ایک جیالا محترمہ بینظیر بھٹو کو پارٹی کیلئے اپنی خدمات گنوا رہا تھا۔ ابھی وہ اپنے بچے کیلئے سرکاری نوکری کی غرض مدعا تک نہ پہنچا تھا کہ بی بی نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔ پھر تو تمہیں پارٹی کا مشکور ہونا چاہئے۔ تمہیں موقع فراہم کیا گیا کہ تم پارٹی کیلئے کوئی کام کرسکو۔ پارٹی قائدین سے وفاداری کے باب میں ایم کیو ایم کے کارکن سب سے آگے ہیں۔ ’ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئے’۔ یہاں معاہدہ عمرانی والا تعلق عشق مجازی حقیقی سے کہیں آگے بڑھ گیا۔ منزل کی دھن میں دیوانے منزل سے آگے نکل گئے۔ عمران خان بھی اللہ تعالیٰ سے کیا قسمت لے کر آئے ہیں کہ عمر بھر محبوب خلائق رہے ہیں۔ کالم میں صر ف سیاست کے کوچے کا ذکر ہوگا۔ معراج محمد خاں سے لے کر جسٹس وجیہہ الدین تک، کتنے ہی نابغہ ء روزگار عمران خان کی جماعت میں شامل رہے۔ ان میں سے اختلافات کے باعث جو الگ ہو ئے، عمران خان کی دیانتداری کے وہ پھر بھی قائل رہے۔

جسٹس وجیہہ الدین نے پچھلے دنوں ایک کہانی ٹویٹ کی۔ کسی ملک میں ایک بہت ایماندار ڈاکو رہتا تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ڈاکہ ڈالنے جایا کرتا تھا۔ کامیاب واردات کے بعد وہ سارا لوٹا ہوا مال ایمانداری کے ساتھ اپنے ساتھی ڈاکوئوں میں تقسیم کر دیا کرتا۔ اپنے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ رکھتا۔ اس کے سنگی ساتھی اسکی اسی ایمانداری کے باعث اس کی بہت عزت کرتے اور اس کے تمام خرچ اخراجات کا بوجھ بھی اٹھائے رکھتے۔ جسٹس وجیہہ الدین عرصہ ہوا تحریک انصاف چھوڑ کر ’عام لوگ اتحاد’ کے نام سے اپنی ایک الگ سیاسی جماعت بنائے بیٹھے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ ان کی ٹویٹ سے عیاں ہے کہ عمران خان کی دیانت کے وہ اب بھی گھائل ہیں۔ سو ان دنوں ہر طرف عمران خان کی دیانت کا طوطی بول رہا ہے۔ عمران خان کی دیانت کا ہر طرف شور چرچا ہے۔

کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے ملک بھر کے سارے سیاستدانوں میں وہی اکیلے ایماندار ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی اپنی جماعت میں بھی ان کے سوا کوئی اورایماندار نہیں۔ اب کالم نگار بھی تھک چکے ہیں ملک بھر سے صرف ایک ہی بندے کو ایماندار لکھ لکھ کر۔ اک ستم ظریف نے کہا ہے۔ ’اَت خدا دا ویر’۔ یعنی کوئی چیز اپنی انتہا کو پہنچے بغیر فنا نہیں ہوتی۔ ملک بھر میں اکیلے عمران خان نے اپنی ایمانداری کے باعث کرپشن کو نقطہ عروج تک پہنچنے سے روک رکھا ہے۔ اب عمران خان کو بھی چاہئے کہ وہ In Good Faith کرپشن کریں تاکہ کرپشن نقطہ عروج پر پہنچ کرفنا ہو جائے۔ ہنسیے نہیں۔ اب یہی ایک علاج رہ گیا ہے ملک بھر سے کرپشن ختم کرنے کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments