بدلتے رنگ


محسوس کرنے والے ہی محسوس کر سکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں کہ سکوت کا اپنا ہی ایک شور ہوتا ہے جیسے کوئی سرگوشیاں کر رہا ہو، ان سرگوشیوں کو کوئی نام نہیں دیا جا سکتا یہ سرگوشیاں گمنام ہوتی ہیں بس انہیں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایسے ہی تاریکی کا اپنا ایک حسن ہوتا ہے تاریکی کی اپنی ہی ایک جوت ہوتی ہے جو دکھائی نہیں دیتی مگر آنکھوں کو بڑی بھلی لگتی ہے۔ شاید اسی لیے وہ اکثر تاریکی میں بیٹھی خلاء کو گھورتی رہتی تھی مگر آج اسے یوں لگ رہا تھا کہ کمرے میں کوئی اور بھی ہے جو صرف اس پر ہی نہیں بلکہ اس کی سوچوں اس کی سانسوں پر بھی قبضہ جمائے بیٹھی ہے پہلے تو اس نے اس کی طرف توجہ نہ دی لیکن جب اسے لگا کہ اس ہم صورت سے پیچھا چھڑانا مشکل ہے تو اس نے اس کی جانب رخ کر لیا اوردونوں آمنے سامنے آبیٹھیں۔ پہل دوسری طرف سے ہوئی کیا بات ہے آج بڑی الجھی الجھی سی ہو۔ اس کا خیال درست ہی تھا یہ اس کی سوچوں میں بھی اتری ہوئی ہے۔

قصہ ہے بھی اور نہیں بھی
دوسری ہنس دی واہ واہ کیا منطق ہے قصہ ہے بھی اور نہیں بھی
بھئی قصہ ہوتا ہے یا نہیں ہوتابتاؤ معاملہ کیا ہے

اسے الجھنا بیکار لگا کچھ نہیں بس ایک شخص مسلسل میرے حواس پر سوار ہے اپنی کہانی کئی مرتبہ بیان کر چکا ہے اور التجا کرتاہے کہ میری کہانی لکھو

تو لکھ دولکھتی کیوں نہیں
ارے ایسی کوئی خاص کہانی نہیں ہے کیا لکھوں
میں سمجھی نہیں
یار بدلتے رنگوں کی کہانی ہے جدید دور ایسا آیا ہے کہ دنیا ہی بدل گئی

مجھے پہلے ہی معلوم تھایہ جو تمہارے چہرے پر عجب سی بے رونکی ہے اس کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہے لیکن کہانی لکھنی ہے تو لکھو یوں الجھ کیوں رہی ہو

اب اس کویہ سوچنا بیکا ر ہی لگ رہا تھا کہ دوسری کو کہانی سنائے یا پہلے کی طرح اپنے وجود میں اتر کر محسوس کرے اور بس اس کی سنتی رہے

چند دنوں سے وہ شخص مجھے بے چین کیے جا رہا ہے وہ جیسے دوسری کے اطمینان کے لیے ساری کتھا سنا نے جا رہی تھی

اس شخص کی عمر کوئی پچاس برس ہو گی کہتا ہے میرا بھا ئی مجھ سے گھر خالی کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے
تواس میں کیا مسئلہ ہے خالی کردے
اؤ ہو تم سمجھی نہیں

وہ گھر اس کے لیے صرف اس کی رہائش گاہ نہیں ہے اس کی زندگی کے گزرے خوب صورت پل ان خوب صورت پلوں کی یادیں، اس کے بچوں کا بچپن ہے۔

اس میں ایسی کیا خاص بات ہے یہ تو ہر کسی کا ہوتا ہے۔

کہتا ہے اس کا اور اس کے بھائی کا گھر ساتھ ساتھ ہے گھر کی ایک دیوار ہے اور باکل ایک جیسا ہے کوئی چیز بھی ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہے نقشہ کیا ماربل کیا کمرے کیا کچھ بھی اس میں پریشانی کی کیا بات ہے اگر ایک جیسا ہے کئی گھر ایک جیسے ہوتے ہیں

پہلے اس کا بھا ئی کراچی رہتا تھا وہ ٹھیکیداری کرتا تھا پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی بے تحاشا پیسہ تھا پھر رفتہ رفتہ یہ سلسلہ ختم ہونا شروع ہو گیا اور وہ اہل وعیال سمیت کراچی چھوڑگاؤں آ گیا اورگاؤں آکر کوئی کاروبار شروع کر دیا وہ مستقل مزاج نہیں ہے، اس لیے کاروبار چلتا نہیں ہے اور بھائی سے ہر وقت جھگڑتا رہتا ہے کبھی گھر خالی کرنے کا مطالبہ کبھی زمین کا حساب کبھی پیسوں کا تقاضا کرتا ہے۔ دراصل جو گھر ہے وہ جگہ اس کی اپنی ہے مگر گھر کی تعمیر پر خرچ دوسرے بھائی کا تھا۔

کہتا ہے میرے بھائی کا خون سفید ہوگیا ہے وہ مجھے اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ اس نے کئی مرتبہ منت سماجت کی ہے جتنے پیسے بنتے ہیں میں دینے کے لیے تیار ہوں وہ لے لو مگر وہ ایک نہیں سنتا اور گھر خالی کروانے پہ بضد ہے۔ اور تو اور اب تو اس نے بیٹی کا رشتہ بھی ختم کر دیا بچپن سے بچوں کا رشتہ طے تھا۔ اس نے ختم کرنے سے پہلے بالکل نہیں سوچا کہ بچوں کے دل پر کیا گزرے گی وہ تو بچپن سے منسوب تھے۔ کہتا ہے میں نے بڑی منت کی کہ یہ تعلق ختم نہ کرولیکن اس نے میری ایک نہ سنی۔

وہ اسی سوچ میں ڈوبا رہتا ہے کہ میرا بھا ئی ایسا تو کبھی نہیں تھا۔ لو گ میرے خلاف اس کے کان بھرتے ہیں اور وہ باآسانی ان کی باتوں میں آ جاتا ہے۔ ایک مرتبہ اس کا زمین کے سلسلے میں کسی سے تنازعہ ہو گیا مخالف لوگ بندوق تک لے آئے مگر میں اپنے بھائی کی ڈھال بن گیا اور اس کو ایک کھروچ نہ آنے دی۔ جب جب اسے میری ضرورت پڑی میں تب تب اس کے لیے موجود تھا۔ گاؤں والے ہماری مثالیں دیا کرتے تھے کہ کیا عمدہ جوڑی ہے بھائیوں کی، کتنا اکٹھ ہے ان میں۔ ہمارے گھر کی ایک دیواہونے کے سبب گھر کے درمیان ایک دروازہ تھا اس نے وہ دروازہ بند کر دیا ہے اور ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی مکمل ختم کر دیا۔

اس میں کون سی نئی بات ہے آج کل تو یہ عام سی بات ہے

ہاں یہی بات میں اس سے کئی مرتبہ کہہ چکی لیکن کہتا ہے درد صرف درد والے محسوس کر سکتے ہیں یا جس پر بیت رہی ہو اور کسی کو اس درد کی شدت کیسے محسوس ہو سکتی ہے۔

کہتا ہے میں مجبور ہوں یادیں میرا پیچھا نہیں چھوڑتی یادوں کا سیلاب ہے کہ ہر وقت بہتا چلا آتا ہے مجھے چین نہیں لینے دیتا میں گزرے لمحوں کو بھلاہی نہیں پاتا میں کیسے اپنے بھا ئی کا یہ رویہ برداشت کروں اب تو وہ دھمکیوں پر اتر آیا ہے میں گاؤں کے معتبر لوگوں کو بھی اس کے پاس لے کر گیا ہوں مگر وہ کسی کی بھی سننے پر امادہ نہیں ہے۔ اب میری ہمت جواب دے چکی ہے میں مزید بھائی سے جھگڑا مول نہیں لے سکتا میں گھر خالی کر رہا ہوں۔ اس کے بعد اس نے چپ سادھ لی۔ وہ کسی سے بات نہ کرتا بس ہاں نہ میں جواب دیتا۔ اسی طرح دن گزر تے جا رہے تھے۔ اب ساتھ چھوٹتا جا رہا تھا۔

دوسری کی ہمت جیسے اب جواب دینے والی تھی یار بس نہیں کرتی ایسے معاملات تو ہم روز ہی سنتے ہیں بلکہ اب تو یہ اتنے عام ہو گئے ہیں کہ کوئی ان کی طرف دیکھتا ہی نہیں۔

بس یار ہم بھی یہی کیے جا رہے ہیں
اسے دوسری کو ٹوکنا ہی پڑا تم میری با ت تو سنو
یار کہہ تو رہی ہوں ایسی کہانیاں میں روز ہی سنتی ہوں کوئی نئی بات ہو تو سناؤ

اس نے بات شروع کی تو لگا اس کا دل ہی نہیں لہجہ بھی زخمی ہے آواز تو بھرائی ہوئی تھی ہی لیکن چہرے کی کیفیت اندھیرے میں دکھائی نہیں دیتی تھی لگتا تھا پل بھر کی بات ہے وہ رو دے گی

اب آگے سنوایک ہی گھر میں رہنے والے ایک ساتھ پل بڑھ کر جوان ہونے والے بھائی کیسے بدل جاتے ہیں وہ اب ہر وقت فکرمند رہنے لگا تھا سوچیں اس کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھتی تھی بھائی کا رویہ اس کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھاجیسے دیمک لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ کل اسے اس گھر سے جانا تھا، تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ رات دو بجے کا وقت تھا اچانک اسے سینے میں تیز جلن محسوس ہوئی وہ سینے پر ہاتھ پھیر تا ہوا اٹھنے کی کوشش کر رہا تھامگر اس کی یہ کوشش بے سدھ تھی۔ اس کا پورا جسم پسینے میں بھیگ گیا اس کی سانسیں رک رہی تھی اسے ہر ساتھ چھوٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے پوری زندگی ایک فلم کی طرح رواں تھی دھیرے دھیرے آوازیں مدھم ہو رہی تھی ہر منظر دھندلا رہا تھا اور منظر دھندلاتے لاتے اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں۔

دوسری مسکرائی بس تمہاری کہانی ختم ہو گئی
ہاں تم کہہ سکتی ہوں کہ کہانی ختم ہوئی لیکن میرے نزدیک تو کہانی اب شروع ہوئی ہے
تمہاری کہانی شروع ہوئی ہے یا ختم تم جانو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments