دیامر بھاشا ڈیم کے مقام پر ہزاروں سال قدیم پتھر کیا کہانی سناتے ہیں؟


پاکستان کا دیامر بھاشا ڈیم اپنی تعمیر مکمل ہونے پر ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ ہو گا جس سے 4800 میگاواٹ کے قریب بجلی حاصل کرنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا بلکہ تربیلا ڈیم کی زندگی میں بھی اضافہ ہو گا۔

تاہم سات ہزار سال قبل از مسیح سے لے کر 16 ویں صدی عیسوی تک کے مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے تقریباً پانچ ہزار اہم ترین تاریخی پہاڑی نقش و نگار اس ڈیم کے مکمل ہونے پر زیر آب آسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایک اور ڈیم سے دریائے سندھ کا گلا گُھٹ جائے گا؟

‘دیامر بھاشا ڈیم کے لیے بزرگوں کی ہڈیاں تک قربان کر دیں’

دیامیر بھاشا ڈیم: کیا متنازع منصوبہ اس مرتبہ پایۂ تکمیل کو پہنچے گا؟

کئی برسوں تک پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں پرانے ادوار کے حوالے سے تحقیقات کرنے والے محقق ڈاکر جیسن نیلِس کہتے ہیں کہ جب سے قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑوں کی طرف جانے کا راستہ شاہراہ قراقرم کھلا ہے۔ اس وقت سے اب تک پاکستانی اور یورپی ماہرین نے 30 ہزار سے لے کر 50 ہزار تک پہاڑی نقش و نگار اور پانچ ہزار کے قریب مختلف قسم کی لکھائیوں کے کتبے دریافت کیے ہیں۔

ڈاکٹر جیسن کینیڈا کی ولفریڈ لاریئر یونیورسٹی کے شعبہ مذہب اور ثقافت کے سربراہ ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ پہاڑی نقش و نگار اور لکھائیوں پر مشتمل آثار قدیمہ کے خزانے دریائے سندھ کے آس پاس گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں موجود ہیں۔

بیسویں صدی میں تعمیر ہونے والی شاہراہِ قراقرم پاکستان کو چین کے علاقے سنکیانگ سے ملاتی ہے جس کے ذریعے پاکستان کا زمینی رابطہ وسطی ایشیا تک سے ہو سکتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر جیسن نیلس کا کہنا تھا کہ یہ پہاڑی نقش و نگار اور لکھائیاں ہمیں بتاتے ہیں کہ (اس شاہراہ کی تعمیر سے قبل) قدیم دور میں سیاح کس طرح ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑوں میں مختلف راستوں پر سفر کیا کرتے تھے۔

ان پہاڑی نقش و نگار اور لکھائیوں سے ہمیں شمالی علاقہ جات میں بسنے والے قدیم لوگوں کے عقائد اور ثقافت دیکھنے اور سمجھنے کے علاوہ یہاں دنیا کے دوسرے خطوں سے آنے والے غیر ملکی سیاحوں کے بارے میں بھی پتا چلتا ہے۔

ڈاکٹر جیسن کے مطابق ان آثار کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ہزار سال سے لے کر 2500 سال تک پرانی تہذیب و تمدن کے بارے میں اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔

یہ پہاڑی نقش و نگار اور لکھائیاں کیا بتاتی ہیں؟

گلگت بلتستان کے ضلع چلاس میں موجود تھلپن کے گاؤں کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ ڈیم کا شکار ہوسکتا ہے۔ تھلپن میں اب تک ماہرین کئی قدیم پہاڑی نقش و نگار اور لکھائیاں دریافت کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر جیسن نے تھلپن میں موجود ایک ایسی ہی چٹان پر نقش و نگار کے حوالے سے بتایا کہ اس علاقے میں موجود پتھروں پر موجود جانوروں، انسانوں اور کچھ نشانیوں کے خاکے قبل از تاریخ اور بعد از تاریخ کی ہیں، جس میں زیادہ تر ماخور، پہاڑی بکروں اور دیگر جانوروں کی ہیں، جبکہ شکاریوں اور گھڑ سواروں کے علاوہ مختلف دیگر نشانات اور عمارات ہیں جن کا تعلق ہر عہد سے ہے۔

اسی طرح چلاس ہی میں موجود کچھ پہاڑوں پر موجود پرانی لکھائیوں کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ کچھ لکھائیاں سابق ادوار کی اہم شخصیات کے حوالے سے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چلاس میں پہاڑی نقوش و نگار، کچھ تصاویر اور نشانات کے علاوہ یہاں جنوبی ایشیا، ایران اور وسطی ایشیا کی پرانی زبانوں میں لکھائیاں بھی موجود ہیں۔ شروع کی لکھائیاں گندھارا زبان میں ہیں جو کہ خروستی رسم الخط میں ہیں، جو اس علاقے میں دو ہزار سے 17 سو سال پہلے کی ہیں۔

اس پر موجود خاکے بالادیوا، واسودیوا اور راہولہ کے نام کے ساتھ خروستی رسم الخط کے ساتھ کندہ ہیں۔

ایک اور پہاڑی نقش کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر جیسن نیلس کا کہنا تھا کہ بدھ مت کی اس ڈرائنگ میں گندھارا زبان میں لکھائی ہوئی ہے جو کہ بتاتی ہے کہ بخش یعنی راہب سٹوپا کی عمارت میں عبادت کر رہے ہیں۔

یہ پہاڑی نقش و نگار ٹیکسلا، سوات اور گندھارا میں موجود آثارقدیمہ سے ملتے جلتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر جیسن نیلس کے مطابق دریائے سندھ کے آر پار سٹوپا کے اور بھی خاکے موجود ہیں جن میں لکھائیاں برہمی رسم الخط میں ہیں جن کو سنسکرت زبان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ کوئی 1500 سال پرانی اور غالباً گندھارا زبان کے بعد کے دور کی ہیں۔ ان پر موجود خاکوں میں گوتم بدھ اور ان کے پہلے پانچ طالب علموں کی عکاسی کی گئی ہے۔

مانا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنا پہلا درس انڈیا کے شہر بنارس کے قریب واقع سرناتھ میں ہرنوں کے پارک میں دیا تھا، اسی لیے ان خاکوں میں ہرن بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر جیسن کے مطابق ایک اور پہاڑی نقش جن میں شکاریوں، مختلف آلات، نشانات اور پہاڑی بکرے کی تصاویر ہیں سے اندازہ ہے کہ یہ بدھ ازم کے دور کے بعد کی تصاویر ہیں، جن میں عقائد اور تہذیب و تمدن تبدیل ہو رہے ہیں۔

ثقافی ورثے کا مستقبل

اس بارے میں دو رائے نہیں پائی جاتی ہیں کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کی صورت میں یہ قدیم ورثہ بہرحال اپنی اصل حالت میں موجود نہیں رہے گا، جس کے بعد پوری دنیا کے ماہرین میں یہ بات زیر موضوع ہے کہ اس کو کس طرح محفوظ کیا جائے۔

ڈاکٹر جیسن کا کہنا تھا کہ اس ورثہ کا کچھ نہ کچھ حصہ تو مختلف صورتوں میں محفوظ ہے۔ پاکستانی دانشور مرحوم پروفیسر احمد حسن دانی کی کتابوں کے علاوہ جرمنی کی ہائیڈلبرگ یونیورسٹی کے تحقیق دانوں کی پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر کتب کے پانچ شمارے چھپ چکے ہیں۔ یہ کتب انتہائی قیمتی ہیں، مگر ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ جدید طریقے اختیار کر کے ان قیمتی نقوش و نگار اور لکھائیوں کو محفوظ کیا جائے تاکہ ثافتی ورثے کو نقصان سے بچایا جاسکے۔

واپڈا کا مؤقف

یہ ڈیم پاکستان میں آبی ذخائر اور توانائی کے ذرائع کے لیے ذمہ دار ادارے واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے زیرِ انتظام ہو گا۔

ادارے کے ایک ترجمان نے بتایا کہ دیامر بھاشا ڈیم منصوبے کے مرکزی ڈیم پر تعمیراتی کام کے آغاز کے ساتھ ساتھ منصوبے کی تعمیر کے حوالے سے اپنی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کے تحت واپڈا پراجیکٹ کے علاقے میں ثقافتی اور تاریخی ورثہ کے تحفظ کے لیے مینیجمنٹ پلان پر بھی کام شروع کر رہا ہے۔

مینجمنٹ پلان کا مقصد دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے باعث زیرِ آب آنے والی چٹانوں پر نقش کی گئی تصویروں اور تحریروں کو محفوظ بنانا ہوگا، جبکہ اس سلسلے میں چلاس قلعے کی بحالی اور تزئین و آرائش کی جائے گی۔

انھوں نے بتایا کہ یہاں ایک میوزیم قائم کیا جائے گا اور گلگت بلتستان خصوصاً چلاس اور اِس کے ارد گرد واقع علاقوں میں ثقافتی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے مختلف اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔

واپڈا کے مطابق ثقافتی اور تاریخی ورثے کے تحفظ کے لیے مینیجمنٹ پلان ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، یونیسکو سمیت عالمی سطح پر معروف ماہرین نے تیار کیا ہے۔

اِن بین الاقوامی ماہرین میں ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی میں منقش چٹانوں اور تحریروں کے ادارے سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر ہیرالڈ ہاپٹ مین بھی شامل ہیں۔

واپڈا کے مطابق تقریباً پانچ ہزار اہم ترین تاریخی پہاڑی نقش و نگار کی تھری ڈی سکیننگ کی جائے گی۔ ان کا باقاعدہ ریکارڈ مرتب کیا جائے گا۔ جن پتھروں کو منتقل کرنا ممکن ہوا انھیں محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے گا اور جن پہاڑی نقش و نگار کو منتقل کرنا ممکن نہیں ہوا اُن کی نقول تیار کی جائیں گی۔

واپڈا کے مطابق تعمیراتی کام کے دوران تاریخی پہاڑی نقوش و نگار کے تحفظ کے لیے سائٹ پر بینرز، سکرین اور علامات سمیت دیگر تمام احتیاطی تدابیر بھی اختیار کی جائیں گی۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp