بزدار صاحب، پلیز درجن 13 کا کر دیں


بیوی سے عشقیہ گفتگو کرنا ایسا ہی ہے جیسے انسان خارش وہاں کرے جہاں نہ ہو رہی ہو۔ ایسے ہی کسی صاحب یا صاحبہ کے دماغ شریف میں اگر یہ شریفانہ خیال آ جائے کہ بزدار شیر نہیں بلکہ بز ہیں تو اس کے لئے بہتر ہو گا پہلے اپنی خیر منائے اور پھر بلال گنج یا باؤ محلہ جا کر ایک عدد کابلی دماغ خرید لائے بس خیال یہ رکھے کہ دماغ انسان کا ہو کسی بکرے شکرے یا گائے شائے کا نہ ہو۔

اللہ نظر بد سے بچائے ہمارے بزدار بہادر اصلی اور نسلی شیر ہیں لیکن ویسے شیر بھی نہیں جو آدم خور ہوتے ہیں بلکہ ایسے شیر ہیں جسے آدم اپنے گھر کی چھت پر شوقیہ رکھتے ہیں اور مخالفوں کو ثبوت بھرا یہ پیغام دیتے ہیں کہ بچ کے رہنا اے بابا ہمارے پاس شیر ہے۔ ثبوت سے یاد آیا ہمارے کپتان بھی ایک عدد ثبوت دینے گزشتہ روز لاہور تشریف لائے تھے بلکہ اسے ثبوت کم اور سند زیادہ سمجھا جائے اور مورخ بھی یہ نوٹ کر لے کہ کپتان نے ہمارے وسیم اکرم پلس کو ڈائنامک چیف منسٹر کہا ہے گویا اب ہم بزدار جی کو وسیم اکرم ڈائنامک پلس چیف منسٹر لکھا، پڑھا اور بولا کریں جو خاں صاحب کی تبدیلی کی فکر کے عین مطابق ہوگا۔

بزدار صاحب اتنے شریف ہیں کہ وہ سیاست میں ہوں یا سائیکل پر وہ جس سمت بھی جائیں ہوا انہیں مخالف ملتی ہے لیکن جس کی پشت پر خان صاحب ہوں وہ تندی باد مخالف سے بھلا کیوں گھبرائے۔ بزدار صاحب تو ایسے کرم یافتہ شخص ہیں کہ واصف علی واصفؒ سے معذرت کے ساتھ اور ان کے الفاظ میں ہی ”میں نے جب بھی کوئی ایسا شخص دیکھا جس پر رب کا کرم تھا اسے عاجز پایا پوری عقل کے باوجود بس سیدھا سادہ بندہ۔ بہت تیزی نہیں دکھائے گا، الجھائے گا نہیں رستہ دے دے گا بہت زیادہ غصہ نہیں کرے گا سادہ بات کرے گا میں نے ہر کرم ہوئے شخص کو مخلص دیکھا، اخلاص سے بھرا ہوا دیکھا غلطی کو مان جاتا ہے معذرت کر لیتا ہے سرنڈر کر لیتا ہے“ ۔

جناب کی یہی وہ شخصی خصوصیات ہیں جوان کا خاصہ اور خلاصہ ہے اور یہی خان صاحب کی کمزوری ہے۔ (اس کمزوری کو صرف کمزوری ہی سمجھا جائے دماغ کی دہی کو ہلانے کی چندا ضرورت نہیں )

بندہ کا دماغ بعض اوقات سوچ سوچ کر پھوڑا ہو جاتا ہے کہ اس بھلے مانس شخص، ہومیو پیتھک وزیراعلیٰ اور تونسہ کے سردار سے لوگ اتنا آخر جلتے کیوں ہیں۔ بزدار اپنے جثہ میں بڑے میاں صاحب کے ہم پلہ ہیں لیکن ان کی طرح نہاری پائے وغیرہ نہیں کھاتے، کرکٹ شرکٹ بھی نہیں کھیلتے۔ گلی ڈنڈا، کبڈی یا پہلوانی کا شوق ہو تو وہ اپنے رسک پر سوچا جا سکتا ہے۔ چھوٹے میاں صاحب کی طرح زیادہ گھر آباد کرنے کے شوقین بھی نہیں ہیں، فرنگی ہیٹ بھی نہیں پہنتے، لمبے بوٹ پہن کر پانی میں اترنے اور تصویر بنانے کا بھی شوق نہیں اور ان کی انگشت شہادت اپنے پیش رو وزیراعلیٰ کی طرح جذباتی بھی نہیں ہے کہ گھما گھما کر برطرفی اور معطلی کرتے پھریں نہ صبح صبح دفتر جاتے ہیں اور نہ ہی افسروں اور ان کی بیگمات کی نیند خراب کرتے ہیں۔

وہ تو بس ایسے ہی سیدھے ہیں جیسے بڑے میاں صاحب کے غلام حیدر وائیں سیدھے تھے یا پھر ہمارے مفاہمت کے بادشاہ کے قائم علی شاہ، جو خود تو ماشا اللہ قائم ہیں لیکن بادشاہ سلامت کو بوڑھا کر دیا ہے۔ اب اگر انہیں کل حکومت کرنے کو کہہ دیا جائے تو صبح ہونے سے پہلے ہی یہ سب بھلے چنگے ہو جائیں گے۔ ہماری تو یہی دعا ہے کہ یہ جلد سے جلد صحت یاب ہو جائیں اور گلشن سیاست کا کاروبار چلے لیکن ہمارے نیم دیسی اور نیم بدیسی دانشور کہتے کہ دعا بھی میرٹ پر مانگنی چاہیے۔ میرٹ سے ہٹ کر اگر دعا مانگی جائے تو دوا کا بندو بست کرنا پڑ جاتا ہے اور نئے پاکستان میں دواؤں کی قیمت کا تو آپ کو پتہ ہی ہے۔

بزدار صاحب کو بس ایک کام کرنا چاہیے جو واصف علی واصف کے کرم یافتہ افراد بھی کرتے ہیں کہ ان کا درجن بارہ کا نہیں تیرہ کا ہوتا ہے، بزدار صاحب اگر 2023 سے 2028 تک بھی وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی خواہش رکھتے ہیں تو اس خواہش کو ایک طرف رکھیں اور ڈیلیور کرنے کا فن سیکھیں۔ بارہ روپے سرکار کا لگاتے ہیں تو ایک اپنا بھی ڈال کر درجن تیرہ کا کر لیا کریں اللہ تعالی برکت ڈالے گا وگرنہ نیب والوں کو بیرنگ لفافے کے اندر نوٹس ڈال کر بھیجنے میں کون سی دیر لگتی ہے۔ باقی یہ بات تو طے ہے کہ بزدار ساڈا شیر اے۔

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments