کیدار ناتھ سنگھ :اردو کا رسیا



سر، میں ہندی میں کویتا لکھنا چاہتی ہوں
۔ آپ نے میر و غالب کا مطالعہ کیا ہے؟
لیکن سر، میں ہندی میں لکھنا چاہتی ہوں
۔ ۔ ۔ میر و غالب کے مطالعہ کے بغیر آپ کویتا نہیں لکھ سکتیں۔

حضرت شمس تبریز کے تعلق سے ایک واقعہ ہے کہ انہیں بھوک لگی اور وہ گوشت کا ایک ٹکڑا بھوننا چاہتے تھے تو انہوں نے ایک اشارے پر سورج کو نیچے بلا لیا تھا۔ یہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ سفید کاغذ پر ایک لکیر کھینچی اور کہا گیا۔ دیکھو یہ کیا ہے؟ پھر مسکراتے ہوئے کہا گیا۔ یہ عام سی لکیر ہے۔ مگر شاعر اس لکیر میں کچھ بھی دیکھنے کے لئے آزاد ہے۔ اس وقت اس لکیر میں، میں ندی دیکھ رہا ہوں، ایک لالٹین بھی ہے۔ ایک باگھ ( شیر ) ہے، ایک کسان بھی ہے۔ ایک ماں ہے جس نے اپنے بچے کو سینے سے لپٹا رکھا ہے۔

۔ یہ کیدار ناتھ سنگھ تھے۔ جو ملنے والوں کو اردو شاعری پڑھنے پر زور دیتے تھے۔ اکثر سفید لباس میں ہوتے۔ رنگ گورا چٹا۔ نفاست پسند۔ میری کیی ملاقاتیں ہیں۔ جب بھی ملاقات ہوتی، فیض، ناصر کاظمی، فراق، منیر نیازی کا تذکرہ بھی ہوتا۔ میں اس وقت ان کے چہرے کا جائزہ لیتا۔ وہ دھیمے دبے لفظوں میں دریا کی روانی کے ساتھ بولتے چلے جاتے۔ ایک دفعہ ہندی کی ایک مشہور شاعرہ نے مجھ سے شکایت کی، کہ اتنی عمدہ شاعری کے باوجود بھی میری شناخت نہیں۔

مجھے کویی انعام نہیں دیتا۔ ہر کمیٹی میں اشوک باجپایی اور کیدار ناتھ سنگھ ہوتے ہیں۔ کیا کروں؟ اس وقت ایک نوجوان کو اس کی نظم غالب اور کلکتہ کے لئے انعام سے نوازا گیا تھا۔ میں نے شاعرہ سے کہا، تم رومی، شمس تبریز، غالب، میر، ناصر کاظمی اور فراق کو اپنی کویتا کو محور بناؤ۔ پھر دیکھو۔ شاعرہ نے ایسا ہی کیا اور وہ اشوک باجپایی اور کیدار ناتھ سنگھ کی نظروں میں آ گیی۔ یہ ہندی اردو سے محبت کرنے والوں کا وہ ٹولہ ہے، جو اب بھی موجود ہے۔ نامور سنگھ، کرشنا سوبتی، کملیشور، راجندر یادو کے چلے جانے کے باوجود ہندی زبان میں، اردو سے محبت کرنے والوں میں کویی کمی نہیں آیی ہے۔ کیدار ناتھ سنگھ کا نام ان میں سر فہرست ہے۔ وہ جنوں کی حد تک اردو سے عشق کرتے تھے۔

ٹالسٹائی اور سائیکل ’، کیدارناتھ سنگھ کی نظموں کا ایک ایسا خوبصورت انتخاب ہے جو انسان، انسانی مزاج، عالمی تاریخ کے مابین ایک پل کی تشکیل کرتا ہے۔ کیدر ناتھ سنگھ کا شعری افق ایک جگہ ٹھہرا نہیں ہے وہ مختلف کہکشاؤں کی سیر کو نکلتا ہے اور ثقافتی کثرتیت کو معنی بخشتا ہے۔ ان کے یہاں ایک یقین کا سلسلہ ہے، جسے کیدار کبھی غروب ہونے نہیں دیتے۔ یہ نظم دیکھئے۔

مجھے یقین ہے
یہ زمین رہے گی
اگر میری ہڈیوں میں کہیں نہیں
تو یہ رہے گی جیسے درخت کے تنے میں رہتے ہیں
دیمک
جیسے دانے میں رہتا ہے گھن
یہ قیامت کے بعد بھی رہے گا میرے اندر
اگر اور کہیں نہیں تو میری زبان
اور میرے فنا ہونے کے احساس میں
موجود رہے گا یہ
اور ایک صبح میں اٹھوں گا
اٹھوں گا زمین کو ساتھ لئے
پانی کو ساتھ لئے اٹھونگا میں
میں اٹھ کر اس سے ملنے جاؤں گا
جس سے وعدہ کیا ہے کہ ملاقات ہوگی

نظم کا تیور دیکھئے۔ زمین محفوظ رہے گی۔ اور مجھے اس سے ملنا بھی ہے، جس سے میں نے ملنے کا وعدہ کیا ہے۔ زمین اور پانی کو ساتھ لے کر اٹھوں گا میں۔ فنا ہو جانے والے راستوں تک انسانی پیاس ایک خوبصورت اشارہ ہے۔ پانی کو ساتھ لئے اٹھوں گا میں۔ یہ کیدار ناتھ سنگھ کا طلسم کدہ ہے جہاں معنویت اور اسرار کے ایسے خزانے پوشیدہ ہیں کہ ہر قرات کے بعد زندگی، موت، یقین، روح کے معانی تبدیل ہو جاتے ہیں۔

وہ کم سخن تھے مگر کبھی کبھی کچھ ایسا بول جاتے تھے، کہ ہم حیران ہو جاتے تھے۔ انتقال سے دو تین برس پہلے کی بات ہے۔ عالمی کتب میلے میں ان سے ملاقات ہوئی۔ اس وقت انہوں نے جو بات کہی، وہ مجھے یاد رہ گیی۔ کیدار جی نے کہا، لکھنے کا سب سے اچھا وقت جوانی ہے۔ پھر ہم فلسفوں کا چولا اوڑھ لیتے ہیں۔ ہماری جوخاصیت ہے، ہم اس سے باہر نکل آتے ہیں۔ ان کی ایک مشہور نظم ہے۔ باگھ۔ باگھ شیر کو کہتے ہیں۔ یہاں باگھ ایک استعارہ ہے، یہاں بھوک اور درد کے درمیاں کشمکش کی آواز صاف سنایی دیتی ہے۔ اس شاہکار نظم میں زندگی کی خاموشی اور آبشار کے گرنے کی آوازیں بھی ہیں۔ ایک صوتی آہنگ بھی ہے، جو انسانی کیفیت کو دو آتشہ کر دیتی ہے۔ ۔ ۔

باگھ
دونوں کے درمیان
عجیب و غریب رشتہ تھا
ایک طرف بھوک تھی
دوسری طرف درد ہی درد
دونوں کے درمیان
کوئی پل نہیں تھا
لیکن کبھی کبھی راتوں میں
جب ہمالیہ کی چوٹیوں پر
گرتی برف
اور تیز ہوائیں شہر میں حرکت کرتی تھیں
تو شہر کے باشندے سوچتے تھے
ہوا کے جھونکوں میں بدھ کہیں کانپ رہے ہوں گے
اور کتنا حیرت انگیز ہے
کہ اسی ہوا کے جھونکے سے
کہیں شیر بھی کانپ رہا ہوگا

وہ اشتراکی نظریہ سے تعلق رکھتے تھے۔ نظموں میں جدیدیت کا بہاؤ بھی شامل رہتا تھا۔ ندی ہو، باگھ یا ٹالسٹائی اور سائکل، ان کی نظمیں آسان ہوتے بھی آسان نہیں ہوتی تھیں. بلیا اترپردیش کے رہنے والے کیدار ناتھ سنگھ نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ بنارس اور دہلی میں گزارا۔ ان کی نظموں میں، گاؤں اور شہر کے مابین ایک مکالمہ موجود ہے جس کے درمیان ہماری زندگی کا اصل وجود پایا جاتا ہے۔ وہ اپنی تخلیقات کے ذریعہ زندگی۔ موت، ارواح، زمینی حقیقتیں، حالات، مذہب اور سیاست کے وسیع میدان میں مداخلت کرتے ہیں اور خاص طور پروہ انقلاب کی باتیں کرتے ہیں۔ جہاں انھیں امید و یقین کا روشن ستارہ صاف نظر آتا ہے۔ اس لئے ہندی شاعری میں کیدار جی کو امید کا شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ کیدار جی کی نظمیں ہمارے ملک کی سرزمین کی نظمیں ہیں جہاں روایت جدیدیت، خوشی و غم، گاؤں کا شہر، کھیت اور بازار ایک دوسرے سے بات کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے، وہ مکالمہ کرتے ہیں، کبھی انسانوں سے، کبھی مزدور اور کسانوں سے اور کبھی خدا سے۔ اور ہر دفعہ وہ مایوسی اور ناکامی کو امید کا پیرہن دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

کیدار ناتھ سنگھ 7 جولائی 1934 کو پیدا ہوئے۔ 19 مارچ 2014 کو، انہوں نے دنیا کو الوداع کہا وہ مشہورشاعر اور نقاد اگئے کے انتخاب تیسرا سپتک کے کوی تھے۔ انہیں بھارتیہ گیان پیتھ سے 2013 میں نوازا گیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’زمین پک رہی ہے‘ ، ’یہاں سے دیکھو‘ ، ’اتر کبیر‘ ، ’ٹالسٹائی اور سائیکل‘ اور ’باگھ شامل ہیں۔

ان کی ایک مشھو ر نظم ہے ندی۔
سچ یہ ہے
کہ آپ کہیں بھی رہتے ہوں
یہاں تک کہ سال کے سخت ترین دنوں میں
ندی جو اس وقت نہیں ہے آپ کے گھر میں
لیکن کہیں نہ کہیں ضرورہو گی
کسی چٹائی میں
یا کسی گلدان کے نیچے
خاموشی سے بہتی ہوئی
کبھی سنو
جب پورا شہر سو جائے
تو دروازے بند کردیئے گئے تھے
کواڑوں پر کان لگا کر
آھستہ آھستہ سننا
کہیں آس پاس
ایک مادہ مگرمچھ کی کراہ کی طرح
سنایی دے گی ندی

مجھے یقین ہے، نظم لکھنے سے قبل وہ سفید کاغذ پر ایک لکیر کھینچتے ہوں گے۔ اور باریک سی لکیر میں انھیں نظموں کی کائنات نظر آ جاتی ہو گی۔ پھر آسانی سے وہ اپنے حصے کی نظم برآمد کر لیتے ہوں گے۔ ۔ آخری دم تک اردو ان کے مطالعہ کا حصہ رہی۔ اب ایسے لوگوں کا قافلہ ہم سے کتنی دور جا چکا ہے۔

یاروں نے کتنی دور بساٰئی ہیں بستیاں۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments