سیاست دان ضرور بولیں مگر احتیاط سے



بولیں مگر دھیان سے سخت افسوسناک بات ہے کہ اتنے بڑے عہدوں پر ہوتے ہوئے ہمارے یہاں سیاستدانوں کے اذہان ایک سطحی انسان جیسے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر نند بھاوج کی طرح لڑ تے ہیں۔ پچھلے دنوں مبینہ طور پہ ایک مقتدر سیاسی شخصیت نے اپنے انٹرویو میں اپنی ہی پارٹی کے ممبرز کی کمزوریاں بیان کردیں۔ جس پر ان سے نالاں اسی پارٹی کے مقتدر اراکین خود بھی ا نٹر ویوز میں اسی سطح پہ اتر آئے۔ لیکن پھر بھی ان کا غصہ کم نہیں ہورہا تھا۔ جب وہ کام آپ نے خود بھی کر لیا ہے پھر صرف وہی قصور وار کیسے رہا؟

دوسری طرف خبروں میں ایک صوبے کی پارلیمنٹ کا منظر دکھایا جا تا رہا جس میں پارلیمنٹ کم اور مچھلی مارکیٹ زیادہ نظر آ رہی تھی۔ انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اگر پارلیمنٹ میں نظم و ضبط کے کا یہ عالم ہے تو عوام نظم و ضبط کہاں سے سیکھیں گے؟ متحارب حکمران ملک میں اتحاد اور تنظیم کیسے قائم کریں گے۔ ان کو عامتہ الناس کے لیے رول ماڈل ہونا چاہیے تھا۔ افسوس کہ پارلیمنٹ میں آنے والوں کا مقصود و منتہا ذاتی مفادات ہی رہا۔ الا ماشاءا للہ

یہ ایک نہایت غیر ذمہ دار اور ان پروفیشنل طرز ہے۔ فی زمانہ زندگی کے ہر شعبے میں ماہرین کا ہی انتخاب کیا جاتا ہے۔ حکومت جیسے حساس اور اہم شعبے میں اس کا اور بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ حکومت کا کارکنان کے انتخاب کے لیے کچھ تو معیار ہو۔ حکومتکی مشینری چلانے والے لوگ سڑک پر گاڑی چلانے و الوں سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ سڑک پر اناڑی ڈرائیور سے چند لوگوں کو خطرہ ہوتا ہے جبکہ حکومت کی گاڑ ی چلانے والے تو پوری قوم کے لیے خطرہ ہیں۔ پھر بھلا ملک چلانے کے لیے اندھا دھند نا اہلوں کو کیوں بھرتی کر لیا جاتا ہے؟

جوشخص بھی الیکشن جیتنے کے لیے پیسہ خرچ کر سکتا ہے حکومت میں آ جاتا ہے۔ یعنی جس کی لاٹھی ا س کی بھینس۔ کوئی تعلیمی معیار کیوں نہیں رکھا جاتا؟ کم ازکم نیک نامی اور ایمانداری ہی معیار رکھ لیں تو کچھ بہتری آ جائے۔ لیکن شاید پھراس معیار پر پورا اترنے و الا امیدا وار ہی نہ مل سکے کیونکہ سخت قحط الرجال ہے۔ اگرسیاستدانوں کی حب الوطنی اور ایمانداری کا ہی امتحان لے لیا کریں تو بھی معاملات سدھر سکتے ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ایک سے ایک چھٹا ہوا، اناڑی اور خود غرض انسان اسمبلیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ جس کسی کو بھی قارون کے خزانے کی تلاش ہو تی ہے اسمبلیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ اسی لیے وہاں ان کو اپنی غرض کے علاوہ کوئی دوسری بات ذہن میں ہی نہیں رہتی۔ یہی ایک اکلوتا منشور یاد رہ جاتا ہے ۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جس اسمبلی کے لوگ دوسروں کے ایمانوں کے فیصلے کرنے کے اتنے مجاز ہیں کہ عوام الناس کو جنت دوزخ کے سرٹیفیکیٹس جاری کر سکتے ہیں ان کو خود سورۃ اخلاص تک نہیں آتی۔ لیکن عوام کالانعام نے ان کو سروں پر بٹھا کر اپنے سیاہ و سفید کے فیصلوں کا مجاز بنا دیا ہے۔ یہ ایک دردناک سچ ہے۔

ہمارے سیاستدان مرد ہوں یا خواتین کوئی کسی سے کم نہیں۔ ۔ ”بن داس“ بولتے ہیں بے موقع اوربے محل بولتے ہیں۔ ایک بہت پہنچے ہوئے سیاسی بزرگ (بزرگ بمعنی بزعم خود عقلی بزرگ) نے جعلی ڈگریوں پر ایک سنہرا مقولہ متعارف کروایا ہے، ”اصلی ہو یا نقلی۔ ۔ ۔ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے نا“۔ ان سے بھی عقل کے اونچے درجے پر فائز ایک سیاستدان نے کچھ سال پہلے ببانگ دہل احتجاج ریکارڈ فرمایا تھا، ”کرپشن میں بھی مساوات ہونی چاہیے۔“

اسی طرح ایک بزرگ سیاستدان کے بیان نے پی آئی اے کی پہلے ہی سے کھوکھلی جڑوں میں اور پانی دے دیا ہے۔ جس کے بعد کئی پاکستانی پائلٹس کی اندرون ملک اور بیرون ملک چھٹی ہو گئی۔ پوری دنیا میں شرمندگی منافع میں کمائی۔ کیا یہ معاملات اندرونی طور پر حل نہیں کیے جا سکتے تھے، عزت کی ہنڈیا چوراہے میں پھوڑنی ضروری تھی؟ آج کل اس پر روشی ڈالتے ہوئے ایک تحریرانٹرنیٹ پرگردش کر رہی ہے جس میں ایک واقعہ درج ہے۔ کہ ایک بار برطانیہ کا جعلی پاسپورٹ امریکہ میں پکڑا گیا تو برطانیہ نے پاسپورٹ کو جعلی ماننے سے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ اس طرح ان کے اصلی پاسپورٹس بھی مشکوک ہو جائیں گے۔ مگر ہمارے بڑبولوں کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستانیوں کی ہر طرح کی ڈگریاں مشکوک کر دی ہیں۔ دیگر ماہرین بھی فارغ کیے جا رہے ہیں۔ یہ ہوتا ہے بنا سوچے سمجھے غیر ذمہ دارانہ بیانات کا نتیجہ۔ اسمبلی میں نا اہلوں کو شامل کرنے کا خمیازہ۔

اب کچھ ہماری سیاسی خواتین کا تذکرہ، کووڈ 19 کے انیس نکات بتانے و الی ہماری جینیئس سیاستدان۔ نام نہیں لیا کہ نظر نہ لگ جائے۔ چشم بددور۔ کیا کیا ہیرے بھرے پڑے ہیں حکومتی جھنڈ میں۔ ۔ ۔ بھئی اس خاتون سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والے آخر کیو ں تعصب برت رہے ہیں؟ احتجاج ریکارڈ کیا جائے۔

بر سبیل تذکرہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ یاد آ گئیں۔ ہائے ہائے ۔۔۔ اتنی ایماندار لگنے لگی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا باوضو ہیں اور ابھی نماز پڑھ کر آئی ہیں یا پھر پڑھنے جا رہی ہیں۔ ہم ان کے مداح بنتے جا رہے تھے۔۔۔ پھر عقدہ کشائی ہوئی کہ اندر ہی اندر کیا کیا کارگزاریاں سرگرم عمل رہی ہیں۔ الامان!

پھر عظمیٰ کاردارصاحبہ ہیں۔ جن کی عقل وفہم دانائی ا ور بردباری کا احاطہ کرنا کار دشوار ہے۔ خدا جانے ایک روزکس موڈ پر سیٹ تھا ان کاموڈ۔ آسمان کے کون سے درجے پر تھا ان کا ذہن رسا۔ ۔ ۔ بھول ہی گیا کہ یہ کون سی صدی چل رہی ہے۔ ۔ ۔ آج دیواروں کے کان ہی نہیں، آنکھیں بھی لگ چکی ہیں، کسی نے سچ کہا ہے کہ زبان کہتی ہے تو مجھے منہ سے نکال میں تجھے گاؤں سے نکلواتی ہوں۔ بہنو اور بھائیو، یہ ہے ہماری مقدس اسمبلیوں کا حال۔ اگر یہ سوچ سمجھ کر بولیں تو کیا حرج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments