میری نادان دوست جسے چودہ برس کی عمر میں بیچ دیا گیا


سائرہ، میرا اس سے ایسا گہرا دوستانہ تو نہ تھا، بس ہم دونوں مناسب طریقہ سے ہم جماعت تھے۔ البتہ میں اس کی چچا زاد کی قریبی سہیلی تھی۔ دو سال تو وہ مجھ سے الگ جماعت میں رہی جبکہ ساتویں میں ہماری جماعت یکجا ہو گئی جب ہی اس کی چچا زاد سے میری وابستگی گہری ہوئی۔ سائرہ عام لڑکیوں کی طرح نسوانی انداز نہیں رکھتی تھی۔ آواز میں گھن گرج رکھ کے ایسے بولتی کہ سب پر اس کا طاقتور ہونا عیاں ہو جائے۔ اس نے آستین چڑھائی ہوئی ہوتی جس پر ہر بار ہی استانی سے سننے کو ملتا کہ سائرہ لڑکیاں آستین نہیں چڑھاتیں۔

سامنے والا ایک بٹن بھی بند رکھنے کی درخواست ہوا کرتی تھی کہ سائرہ سامنے والے تکمے بند کرو۔ سائرہ کی چال ڈھال بھی نسوانی نہیں تھی۔ چلتی ایسے کہ دنیا سے بے خبر ہو جیسے۔ پتلی سی نحیف سی سائرہ کے بال سنہرے اور چہرے پر باریک باریک دھبے جو مشرقی یورپ میں حسن و جمال کی علامت تصور کیے جاتے ہیں، انگریزی میں جس کو فریکل کہتے ہیں۔

سائرہ سے میری اتنی یادیں وابستہ نہیں۔ اکثر استاد کوئی سوال کرتی تو میں ہچکچاتے ہوئے مدھم آواز میں درست جواب دیتی تو اسی جواب کو با آواز بلند وہ دہرا دیتی۔ اس کی واہ واہ ہو جاتی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار مجھے اس نے مصنوعی چھپکلی سے خوفزدہ کیا اور بہت کیا، اس نے دوبارہ جب یہ حرکت کی تو مجھے بے حد طیش آیا، میں نے استاد کو شکایت کر ڈالی۔ اس کو اس بات پر ڈانٹ پڑی تھی۔ جمعہ کا روز تھا اور آخری دورانیہ، مجھے دکھ ہوا۔ پھر وہ مجھ سے نالاں سی ہی رہتی تھی مگر ایک جماعت میں کوئی کسی سے کتنا دور رہ سکتا ہے۔ ہم میں سرد جنگ ختم بھی ہو گئی۔

کراچی سے ہمیں لاہور آئے ایک دہائی سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ کچھ روز قبل ہی کچھ دوستوں کی وساطت سے چند پرانی ہم جماعتوں نے واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا۔ سب انہماک سے ایک دوسرے کی زندگیوں کے بارے جاننے اور گفتگو کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ تیرہ سالوں بعد بھی پہلی بار بات کرنے پر تعجب محسوس نہیں ہوتا۔ اسی دوران میں نے سائرہ اور اس کی چچا زاد اپنی قریبی سہیلی کا تذکرہ کر ڈالا۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ اگر کسی کا ان سے رابطہ ہو تو ان کو بھی دوستانے میں شامل کر لیا جائے۔

میری سہیلی تو بہت پہلے پنجاب آ چکی تھی مگر سائرہ کا جو سنا جذبات پر قابو نہ رکھا گیا۔ یقیں نہیں ہوتا کہ ایسا بھی ہو سکتا تھا؟ بد قسمت سائرہ عمر سے بڑے لڑکے کی نام نہاد محبت کے جھانسے میں آ گئی۔ دوستوں نے اس کو قدم قدم پر سمجھایا مگر وہ نہ سمجھی۔ گھر چھوڑ کر ایک اجنبی کے ساتھ چلی گئی۔ خدا کرے کبھی کوئی انسان کسی انساں کے ہاتھوں عقل اور جذبات کی جنگ نہ ہارے۔ سائرہ نے دسویں بھی نہ کی۔ چودہ سالہ بچی تھی وہ۔ سامنے والا عمر میں بہت بڑا۔

بختوں کی پھوٹی بہادر اور نڈر سائرہ کو پیار اور سمجھے جانے کا جھانسہ دینے والا اس کو بیچ کر کھا گیا۔ بازار حسن میں لا کر بٹھا دیا۔ میں یقیں نہیں کر سکتی، ایسے تو افسانوی دنیا میں ہوتا آیا ہے۔ وہ تو ہمارے ساتھ کی لڑکی تھی، ہمارے بیچ اٹھتی بیٹھتی جیتی جاگتی انسان۔ کیسے اس کی قسمت بازار حسن جا کر تھم سکتی تھی؟ یہ کوئی عام بات نہیں۔ جب ہم دسویں میں بائیو فزکس اردو کی کتابیں چاٹ رہے ہوں گے، ہمیں بورڈ کے امتحانوں کی فکر نے گھیرے رکھا ہوگا تب سائرہ کی کسی بازار میں عصمت دری ہوتی ہوگی۔

یہ کوئی معمولی بات ہے؟ دل پھٹ جاتا ہوگا، بدن تکلیف کے بوجھ سے لد جاتا ہوگا۔ کوئی اس کا لباس چاک کرتا ہوگا تو کوئی اس کے بدن کے دام لگاتا ہوگا۔ کتنے روپوں میں کس کی خلوت میں جائے گی تو کب کہاں کس کے لئے بے لباس ہوگی۔ کوئی ہاتھ لگا دے تو ہمارا دل تڑپ اٹھتا ہے اور وہ کھوٹی تقدیر والی کیسے سہتی ہوگی یہ ستم؟ روتی پیٹتی کوستی ہوگی اپنی ذات کو۔ پچھتاوے کے گھاؤ کوئی بھر ہی نہیں سکتا۔

نجانے وہاں کیسے لوگ ہوتے ہوں گے، اس کے جسم کے ایک ایک بال پر نظر رکھنے والے، اس کو چیرنے والے۔ سب سے پہلے تو اس کی عزت اسی نے لوٹی ہوگی جس کی محبت میں کھو کر اس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگایا تھا۔ اس لڑکے کے ساتھ اس کے یار دوست بھی تھے، ان سب نے بھی مل کر اس پر خوب ہاتھ صاف کیا ہوگا۔ سب نے الگ الگ اور پھر مل کر اس کو کھنگالا ہوگا۔ کسی نے اس کا آنچل کھنچ ڈالا ہوگا تو کسی نے اس کی قمیض چاک کی ہوگی۔ میں جانتی ہوں شاید اس سے بھی بدتر حالات سے دوچار رہی ہوگی۔

جہاں سائرہ قسمت اور کوتاہی کے زنداں کی صعوبتیں جھیل رہی تھی، وہیں اس کے گھر میں بھی کہرام مچ چکا تھا۔ کیسی صف ماتم اس کی ماں اور بہنوں کے دلوں میں بچھی ہوگی، بیاں سے باہر ہے۔ خاندان والوں نے جرگہ بٹھایا، خبر جنوب سے شمال تک پہنچ ہی گئی۔ سائرہ کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کی قرارداد منظور ہوئی۔ دیکھتے ہی گولی مارنے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ سائرہ جو کہ بچی تھی، بالغ نہ تھی۔ اپنی زندگی کا فیصلہ لینے کی عمر تھی نہ ہی عقل۔

کسی نے پولیس میں رپورٹ تک نہیں کی۔ کیسے بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج نہ کرایا گیا؟ بیٹی خود بھاگی تھی مگر کم عمر تھی، نابالغ تھی۔ پورے علاقے کو خبر ہو چکی تھی سوائے علاقے کے تھانے کو۔ سب کو علم ہو چکا تھا کہ لڑکے نے سائرہ کو دھندے میں بیچ دیا ہے، سب اپنی محافل میں کھلے عام گفتگو کرتے تھے کہ سائرہ سے غلط کام کروائے جاتے ہیں۔ یہ چہ مگوئیاں اس کے گھر بھی پہنچی تھیں، پھر بھی مقدمہ درج ہوا نہ کسی نے جھرجھری لی۔

سائرہ کے والد غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں میں نہیں تھے۔ ہاں انہوں نے غیرت کے نام پر خودکشی کی۔ شاید وہ پہلے مرد تھے جنہوں نے غیرت کے نام پر اپنی جاں خود لی۔ قیامت تو ٹوٹ پڑی تھی۔ سائرہ کو انہی لوگوں نے قتل کر دیا جہاں وہ بیچی گئی تھی، سائرہ نے وہاں سے بھی سرکشی کی۔ سائرہ منکر تھی ہر شب کسی کی بانہوں اور تعفن زدہ بدن کی قیدی بننے سے انکاری تھی جو اس کی موت نے ثابت کر دیا۔ ہاں اس کو ادراک ہو چلا تھا کہ کوتاہی کر بیٹھی ہے، بس وہاں سے بھاگنا چاہتی تھی مگر نہ بھاگ سکی۔ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جونہی یہ خبر اس کے ٹوٹے بکھرے دکھیارے گھر پہنچی تو اس کے ابا نے اپنی جان لے لی اور ماں جیتے جی مر گئی۔ ایک ہی گھر کے دو فرد مرے تھے پر جنازہ ایک ہی اٹھا۔

افسوس صد افسوس سائرہ کے قتل کا بھی کوئی مقدمہ درج ہوا نہ ہی اس کی نعش کو کفن نصیب ہوا۔ اس کا جنازہ ہوا نہ ہی کوئی قبر بنی۔ کہیں بہا دی گئی ہوگی یا بس دفنا دی گئی ہوگی۔

میری ہم جماعت کو غیرت کے نام پر قتل ہونا تھا، پھر رات گئے ہی چھپ کر دفنائے جانا تھا مگر بس اس کی قسمت میں تو قتل ہونا تھا سو وہ ہو گئی۔ اپنوں کے ہاتھوں ہوتی یا غیروں کے مرنا تو پھر بھی اس نے تھا ہی۔ کسی نے تب بھی ایف آئی آر کاٹنا تھی نہ ریاست کے وکیل نے اس کا مقدمہ لڑنا تھا۔ بس سائرہ کو تو قتل ہونا تھا سو ہو گئی۔

سب یہی کہیں گے کہ ایسی بیٹیوں کا یہی انجام ہونا چاہیے، کوئی یہ کیوں نہیں کہتا کہ ایسے بیٹوں کا بھی یہی انجام ہونا چاہیے۔ وہ لڑکے آج تک آزاد گھوم رہے ہیں اپنے ماں باپ کے ہمراہ رہتے ہیں۔ معاشرے میں سر اٹھا کر چلتے ہیں جنہوں نے اس کی عصمت دری کی، جنہوں نے نا بالغ کو جسم فروشی میں فروخت کیا۔ سائرہ کے باپ نے غیرت کے نام پر خودکشی کی، سائرہ کا قتل ہو گیا اور ریاست نے کروٹ تک نہ لی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments