ڈیجیٹل آمریت: اکیسویں صدی کے اکیس سبق (قسط نمبر 14)۔


جب تک روبوٹ شفیق آقاؤں کی خدمات میں لگے رہتے ہیں، یقیناً تب تک ان کی اندھی فرمانبرداری میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جنگ کے دوران قاتل روبوٹوں پر انحصار کرنا اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار میدان جنگ میں جنگی قوانین پر عمل کیا جائے گا۔ انسانی فوجی کبھی کبھار اپنے جذبات سے مغلوب ہو کر قتل، لوٹ کھسوٹ اور عصمت دری جیسے اعمال کی بدولت جنگی قوانین کی خلاف ورزی کر بیٹھتے ہیں۔ عمومی طور پر ہم جذبات کو ہمدردی، محبت اور رحم دلی سے جوڑتے ہیں، لیکن اکثر جنگ کے وقت خوف، نفرت اور ظلم جیسے جذبات ہمارے اوپر حاوی ہو جاتے ہیں۔ چونکہ روبوٹ میں جذبات نہیں ہوتے ہیں، اس لیے ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے کہ وہ ہمیشہ سخت نوعیت کے فوجی ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں گے اور کبھی ذاتی خوف اور نفرتوں کے زیر اثر بہہ نہیں جائیں گے۔

سولہ مارچ 1968 امریکی فوجیوں کا ایک جتھہ جنوبی ویت نامی گاؤں ’مائی لائی‘ میں داخل ہوا اور چار سو کے قریب شہریوں کا قتل عام کیا۔ اس جنگی جرم کا سبب ان مقامی لوگوں کے اقدامات بنے جو کئی مہینوں سے جنگل کی گوریلا جنگ میں شامل تھے۔ اس عمل کی کوئی حکمت عملی نہیں تھی اور یوں انہوں نے امریکی قانونی ضابطہ اخلاق اور فوجی پالیسی دونوں کی خلاف ورزی کی۔ یہ ساری غلطی انسانی جذبات کی تھی۔ اگر امریکہ ویتنام میں قاتل روبوٹ تعینات کرتا تو ’مائی لائی‘ میں یوں کبھی قتل عام نہ ہوتا۔

بہرحال، اس سے پہلے کہ ہم قاتل روبوٹ تیار کریں اور ان کو تعینات کریں، ہمیں خود کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہوگی کہ روبوٹ ہمیشہ اپنی کوڈنگ کے مطابق ہوں گے۔ اگر کوڈنگ مہربان اور محتاط ہوگی تو روبوٹ ممکنہ طور پر اوسط انسانی فوجی کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتری لائیں گے۔ لیکن اگر کوڈنگ بے رحم اور ظالمانہ ہوئی تو اس امر کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ اس لیے روبوٹ کے حوالے سے اصل مسئلہ اس کی مصنوعی ذہانت پر ہرگز نہیں ہے، بلکہ ان کے آقاؤں کی فطری حماقت اور ظلم ہے۔

جولائی 1995 میں بوسنیا کے سرب فوجیوں نے سریبرنیکا کے قصبے کے اطراف میں 8000 سے زیادہ مسلم بوسنیاک کا قتل عام کیا۔ ’مائی لائی‘ کے حادثہ کے برعکس سریبرنیکا کا قتل عام ایک طویل اور منظم آپریشن تھا۔ جس میں بوسنیا کو مسلمان بوسنیائی نسل سے پاک کرنے کی پالیسی پر عمل کیا گیا تھا۔ اگر 1995 میں بوسنیا سرب کے پاس قاتل روبوٹ ہوتے تو شاید ظلم و تشدد کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتا۔ کسی ایک روبوٹ کو بھی ملنے والے احکامات پر عمل درآمد کرنے میں لمحہ بھر کی بھی ہچکچاہٹ ہوتی اور نہ ہی وہ کسی بھی مسلمان بچے کی زندگی ہمدردی، نفرت یا محض سستی کی بنا پر بخش دیتے۔

اس طرح کے قاتل روبوٹوں سے لیس ایک بے رحم ڈکٹیٹر کو کبھی یہ خوف نہیں ہوگا کہ اس کے سپاہی (چاہے اس کے احکامات کتنے ہی بے رحم اور احمقانہ ہوں ) اس کے خلاف ہوجائیں گے۔ شاید ایک روبوٹ فوج نے 1789 کے فرانسیسی انقلاب کو ابتدا ہی میں دبا دیا ہوتا اور اگر 2011 میں حسنی مبارک کے پاس قاتل روبوٹ فوج ہوتی تو وہ بے یار و مددگار عوام کو ان کے حوالے کردیتا۔ بالکل اسی طرح ایک روبوٹ فوج پر انحصار کرنے والی ایک سامراجی حکومت بغیر کسی پریشانی کے غیر مقبول جنگیں لڑ سکتی ہے۔ اس کو اس بات کی بالکل کوئی پرواہ نہیں ہوگی کہ ایسا کرنے سے اس کے روبوٹ پست حوصلہ ہوجائیں گے یا پھر ان کے رشتہ دار احتجاج کر سکتے ہیں۔

اگر امریکہ کے پاس ویتنام کی جنگ میں قاتل روبوٹ ہوتے تو شاید ’مائی لائی‘ کا قتل عام روکا جاسکتا تھا۔ لیکن یہ جنگ خود کئی سالوں تک کھنچ سکتی تھی، کیونکہ امریکی حکومت کو مایوس سپاہیوں، جنگ کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں اور تجربہ کار روبوٹس کی جنگ کے خلاف تحریک کے بارے میں تشویش بہت کم ہوتی (کچھ امریکی شہریوں کو تب بھی جنگ پر اعتراض ہوتا، لیکن اس جنگ کا بوجھ زیادہ تر انسانوں کو نہیں اٹھانا پڑتا، ظلم و ستم کی بادشاہت سے براہ راست ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا اور انہیں کسی عزیز رشتہ دار کا دکھ بھرا نقصان نہیں اٹھانا پڑتا) مظاہرین کی تعداد کم ہوتی اور وہ زیادہ شدت کے ساتھ بھی سامنے نہیں آتے۔

اس طرز کے مسائل خود کار گاڑیوں کے حوالے سے بہت کم ہیں، کیونکہ کار بنانے والا کوئی بھی ادارہ اپنی گاڑی کے ساتھ لوگوں کو نشانہ بنانے اور مارنے کے لیے پروگرام نہیں کرے گا۔ تاہم خود کار ہتھیاروں کا نظام تباہ کن ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے بہت ساری حکومتیں مکمل طور پر بری نہ بھی ہوں مگر اخلاقی طور پر کرپٹ ضرور ہوتی ہیں۔ خطرہ صرف قتل کرنے والی مشینوں تک ہی محدود نہیں ہے، نگرانی کا نظام بھی اسی قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔ شفیق حکومت کے ہاتھوں میں طاقتور نگرانی کے قابل بگ ڈیٹا الگورتھم مستقبل کے بگ برادر کو بھی تقویت بخش سکتا ہے۔ پھر ہم شاید خاتمہ آرویل کی نگرانی کرنے والی حکومت پر جا کر ہوگا، یہ ایسا نظام حکومت ہوگا جہاں ہر شخص کی ہر پل نگرانی کی جاتی ہے۔

درحقیقت، ہم کچھ ایسے کام کر سکتے ہیں جو آرویل کے تصور سے بھی ماورا ہو یعنی ایک ایسی حکومت جو نہ صرف ہماری بیرونی سرگرمیوں اور گفتگو و شنید کی نگراں ہو بلکہ ہمارے اندرونی احساسات کو جاننے کے لیے ہماری جلد کے اندر بھی اتر سکتی ہو۔ مثال کے طور پر غور کریں کہ شمالی کوریا میں ’سپریم لیڈر کم‘ کی حکومت میں ہر شخص کو کڑا پہننے کی ضرورت ہو سکتی ہے، جو ان کے ہر کام کی نگرانی کرے گا۔ ہماری انسانی دماغ کے بارے میں بڑھتی ہوئی تفہیم اور مشین لرننگ کی بے پناہ طاقت کے استعمال کی مدد سے شمالی کوریا کی حکومت تاریخ میں پہلی بار اس بات کا اندازہ کرسکے گی کہ ہر شہری ہر لمحہ کیا سوچ رہا ہے۔ اگر آپ ’کم جونگ ان‘ کی تصویر دیکھیں اور بائیومیٹرک سینسر آپ کے اندر غصے کی علامات کا پتہ چلا لیں (یعنی ہائی بلڈ پریشر اور امیگدل میں بڑھتی ہوئی سرگرمی نظر آئے ) تو پھر آپ ’گولاگ‘ میں ہوں گے۔

شمالی کوریا کو اپنی تنہائی کی وجہ سے مطلوبہ ٹیکنالوجی خود تیار کرنے میں دشواری کا سامنا ہو سکتا ہے۔ تاہم ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی کی اہمیت کا ادراک رکھنے والے ممالک میں اپنے قدم جمائیں اور شمالی کوریا اور دیگر پس ماندہ اور آمریت زدہ ممالک اس کی نقل کریں یا اسے خریدیں۔ جیسا کہ امریکہ سے لے میرے آبائی ملک اسرائیل تک متعدد جمہوری ممالک کر رہے ہیں، بالکل اسی طرح چین اور روس دونوں اپنی نگرانی کے آلات کو بہتر کر رہے ہیں۔

”اسٹارٹ اپ نیشن“ کے نام سے موسوم اسرائیل کے پاس انتہائی متحرک ہائی ٹیک کا شعبہ اور سائبر سیکورٹی کی جدید صنعت موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ فلسطینیوں کے ساتھ ایک مہلک تنازعہ میں پھنس گیا ہے اور کم از کم اس کے کچھ رہنما، جرنیل اور شہری مغربی کنارے میں ٹیکنالوجی کی مدد سے مکمل طور پر نگرانی کرنے والی حکومت تشکیل دے کر خوش ہو سکتے ہیں۔

پہلے ہی آج جب کوئی فلسطینی فون کال کرتا ہے، فیس بک پر کچھ پوسٹ کرتا ہے یا پھر ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرتا ہے تو ممکنہ طور پر اس کی نگرانی اسرائیلی مائیکروفون، کیمروں یا جاسوس سافٹ وئیر کی مدد سے کی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان ذرائع سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا بگ ڈیٹا الگورتھم کی مدد سے تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح اسرائیلی سیکورٹی فورسز کو زمین پر فوج کا جال بچھائے بغیر ممکنہ خطرات کی نشاندہی کرنے اور انہیں غیر موثر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ فلسطینی محض کچھ قصبوں اور دیہاتوں کا نظام اختیار سنبھال سکتے ہیں، مگر اسرائیلی فضا، ائر ویو اور سائبر اسپیس پر قابض ہیں۔ صرف اسی لیے مغربی کنارے کے تقریباً ڈھائی لاکھ فلسطینیوں پر موثر انداز میں قابو پانے کے لیے حیرت انگیز طور پر صرف کچھ اسرائیلی فوجیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

اکتوبر 2017 میں ایک افسوسناک واقع رونما ہوا۔ ایک فلسطینی مزدور نے اپنے نجی فیس بک اکاؤنٹ میں اپنے کام کی جگہ پرایک بلڈوزر کے ساتھ تصویر پوسٹ کی۔ اس تصویر کے کیپشن میں اس نے ”گڈ مارننگ“ لکھا۔ مگر خود کار الگورتھم نے ایک چھوٹی سی غلطی کی اور عربی لفظ ”یصبحھم“ (جس کا مطلب تھا گڈ مارننگ! ) کی بجائے ”یوذیھم“ (جس کا مطلب ہے کہ انہیں مار ڈالو! ) سمجھا اور اس بنا پر اس شخص کو مشکوک سمجھتے ہوئے دہشت گرد قرار دیا گیا، کیونکہ وہ بلڈوزر کے ذریعے لوگوں کو مارنے کا ارادہ رکھتا تھا۔

اسرائیلی سیکورٹی فورسز نے تیزی سے اس شخص کو گرفتار کر لیا۔ جب انہیں احساس ہوا کہ الگورتھم نے غلطی کی تھی تو اس شخص کو رہا کر دیا گیا۔ تاہم اس کے باوجود فیس بک سے ”مشتعل کرنے والی پوسٹ“ کو ہٹا دیا گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

اس سیریز کے دیگر حصےخودکار فلسفی گاڑی اپنے مالک کو قربان کرے گی یا راہگیر کو؟مصنوعی ذہانت اور قدرتی حماقت

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments