چین ایران ڈیل براستہ پاکستان


ہارنے والے کمزور اور بے بس اچانک سے جیتنا شروع کردیں تو ہوا کا رخ تبدیل ہونے کا یقین کرنا پڑتا ہے۔ جنوری 2016ء میں چینی صدر زی جن پنگ نے ایران کا دورہ کیا۔ وہی زی جن پنگ جنہوں نے ون بیلٹ ون روڈ کا تصور دیا۔ جنہوں نے بتایا کہ ریاستوں کے مابین تنازعات کو پرامن طریقے سے طے کرنے کا ایک ذریعہ عوام کے معاشی و تجارتی مفادات بھی ہو سکتے ہیں۔

چار برسوں کے دوران چین نے ایران کی ضروریات کا جائزہ لیا۔ ایران کو امریکہ اور اس کے اتحادی بعض عرب ممالک سے خطرہ تھا۔ ایران امریکی پابندیوں کی وجہ سے معاشی بدحالی سے نکلنا چاہتا تھا‘ خطے میں ایک ایسے طاقتور بلاک کا حصہ بننے کو آمادہ تھا جو بوقت ضرورت اس کی پشت پر کھڑا ہو۔ گزشتہ ہفتے ایران اور چین کے درمیان چار سال کے رابطوں اور درپردہ مذاکرات کا نتیجہ یوں نکلا کہ چین نے اس کے ساتھ سٹریٹجک شراکت داری کا معاہدہ کر کے 200 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔

بعد میں اس سرمایہ کاری کا حجم 400 ارب ڈالر اور چند رپورٹس میں 600 ارب ڈالر بتایا گیا۔ اس معاہدے کی لیک ہوئی معلومات کے مطابق چین کو ایرانی معیشت کے کئی شعبوں تک ترجیحاتی رسائی حاصل ہوگی۔ معاہدہ نافذ ہونے کے بعد چین ٹرانسپورٹ اور لاجسٹکس سہولیات مختلف جزائر اور ایران کی جنوبی بندرگاہوں تک مہیا کرے گا۔ معاہدے میں دفاع اور سکیورٹی کے شعبوں میں بھی کئی منصوبوں کا ذکر موجود ہے۔ ایرانی صحافی نیما خورمی کا کہنا ہے کہ معاہدے کی افشا ہوئی تفصیلات کی صحت کے بارے میں درست طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ایرانی حکام پچھلے کچھ عرصے سے مسلسل میٹنگز کر رہے ہیں تاکہ چین کے ساتھ ڈیل کو بہتر انداز میں استعمال کیا جا سکے۔

یہ صورت حال چین ایران تعلقات کے محدود دائرے میں دیکھنے کی بجائے بھارت‘ افغانستان اور امریکہ کے خطے میں مفادات کے تناظر میں دیکھیں تو پاکستان کے لیے حالات حوصلہ افزا نظر آتے ہیں۔ ایران سے بھارتی اثرورسوخ ختم ہونے کی صورت میں بلوچستان کے حالات میں بہتری آ سکتی ہے۔ سی پیک زیادہ محفوظ ہو سکتا ہے۔ ایران 1990ء کی دھائی سے ایشیا کی طرف دیکھنے لگا تھا۔ عراق کے ساتھ جنگ کے بعد اس کے عالمی تعلقات بدل گئے۔

ایران کے خارجہ تعلقات اس شکل میں ڈھل چکے ہیں کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امریکی غلبے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ ایران سمجھتا ہے کہ چین کے ساتھ تزویراتی معاہدہ کر کے عالمی برادری میں اس کی تنہائی کم ہو گی اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے سامنے کھڑا ہونے کی طاقت ملے گی۔ ہمیشہ سے سفارتی سطح پر سخت جان ثابت ہونے والے ایرانیوں کے لیے یہ معاہدہ ایک چیلنج بھی ہوگا کہ وہ مختلف بین الاقوامی معاملات پر اپنے مفادات کو کس حد تک چینی اثر سے بچا پاتے ہیں۔

خصوصاً اس صورت میں جب ایران میں نعرہ لگتا رہا ہے کہ ’’نہ مشرق نہ مغرب‘‘۔ چین کے سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ ٹیکنالوجی پارٹنر کے تعلقات ہیں۔ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ایران پر ان ریاستوں کے مفادات کس طرح اثرات ڈالیں۔ رائٹر کی رپورٹ کے مطابق زاہدان سے چابہار بندرگاہ تک 628 کلومیٹر ریلوے ٹریک پر کام کا افتتاح چند دن قبل ہو چکا ہے‘ یہ منصوبہ مکران کے ساحل کو ریل سے ملانے کے علاوہ وسط ایشیا اور افغانستان کو کھلے سمندر تک رسائی دینے کا ذریعہ بنے گا۔

اس سے معاشی نموتیز ہوگی‘ ایندھن کی بچت ہوگی‘ سڑک حادثات کم ہوں گے اور پائیدار ترقی و سکیورٹی کا ماحول بہتر ہوگا۔ 2018ء میں ایرانی صدر حسن روحانی نے بھارت کا دورہ کیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے انہیں متعدد منصوبوں میں سرمایہ کاری کا یقین دلایا۔ چابہار میں یہ دوطرفہ تعاون پہلے ہی دکھائی دے رہا تھا۔ امریکہ نے بھارت کو ایران سے تجارتی تعلقات کی خصوصی اجازت دے رکھی ہے جبکہ باقی دنیا کے لیے پابندیاں ہیں لیکن نئی صورت حال میں بھارت اس رعایت سے محروم ہو چکا ہے۔

ایرانی منصوبوں سے ایک ایک کرکے الگ کیا جارہا ہے۔ بھارت کے لیے مایوسی بڑھ رہی ہے۔ اسے شکایت ہے کہ لداخ میں چین کے ساتھ جھگڑے کے دوران امریکہ نے دوستی نہیں نبھائی۔ایران سے افغان بارڈر تک ریل منصوبے سے نکالے جانے کے بعد بھارت کو دوسرا دھچکا فرزادبی گیس فیلڈ منصوبے سے الگ کئے جانے کا مل سکتا ہے۔ ایران نے تین روز پہلے بھارت کو کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے وسائل سے اس منصوبے کو مکمل کرے گا اور آخری مرحلے پر بھارت کو شامل کیا جاسکتا ہے۔

21.7 کھرب کیوبک فٹ قدری گیس اور 212 ملین بیرل سی این جی گیس کا فرزادبی ذخیرہ 2008ء میں دریافت ہوا تھا۔ بھارت نے ایران کو پاکستان سے دور کرنے کے لیے تجارتی تعلقات میں الجھانے کا سوچا لیکن بار بار امریکی پابندیاں اور پھر اجازت کا ایسا چکر چلا کہ بھارت منصوبے سے باہر ہوگیا۔ ایران نے امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرنے والا نیا شراکت دار ڈھونڈ لیا ہے۔ تین ہفتے ہوئے چین نے خطے کے ممالک کا ایک اجلاس بلایا۔

پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ نیپال‘ بھوٹان‘ مالدیپ وغیرہ اس میں مدعو تھے۔ بھارت کی عدم موجودگی پر کسی نے دلچسپی نہ لی۔ ایک سال پہلے پاکستان سارک کے اجلاسوں میں اکیلا ہوا کرتا تھا۔ ایران چین تعلقات میں پاکستان پل بنا ہے۔ اس سے پورے خطے میں طاقت کا توازن بھارت اور امریکہ کی تزویراتی شراکت داری کے خلاف ہوگیا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments