وشوا موہن بھٹ۔ چھوٹا منہ بڑی بات!


\"muhammad

وشواموہن بھٹ کا کچھ ذکر ہم نے اس مضمون میں کیا ہے۔

ردِ عمل کچھ ایسا تھا۔ ایک بھارتی خاتون نے لکھا کہ ہم ان سے حسد کرتے ہیں۔ دوستوں نے لکھا کہ اگر موسیقار زیادہ جانتے ہیں موسیقی کو اور چپ رہتے ہیں۔ اگر لکھنے پر آ جائیں تو ایک جنگ چھڑجائے۔ موہن بھٹ اور فتح علی خان کو رگیدنے کے بجائے باگیشری کے بارے میں جانکاری دینا چاہیے تھا۔ تنقید ناشائستہ انداز میں کی اور ہم اپنے آپ کو موسیقی میں حرفِ آخر مانتے ہیں۔

عرض ہے کہ آپ ہمارے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ ہم کسی کو روک نہیں سکتے۔ باقی ہم نے ہمیشہ اپنے آپ کو موسیقی کا ایک ادنیٰ سا شاگرد ہی سمجھا ہے۔ ہمارا موسیقی سیکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم اس کا زیادہ سے زیادہ آنند لے سکیں۔ لیکن اگر کوئی انٹ شنٹ مارنے لگ جائے تو اسے اتنا تو بتانا چاہیے کہ صاحب ہمیں مکمل علم تو نہیں لیکن مطلق جاہل بھی نہیں۔ درست فرمایا کہ موسیقار نہیں لکھتے۔ مگر یہ آدھا سچ ہے۔ وہ بولتے ہیں اپنے چمچوں کے بیچ اور ہر سچے آرٹسٹ کی عزت اچھالتے ہیں اور ان کے چیلے چانٹے واہ واہ کرتے ہیں۔ یہ دو مضامین ملاحظہ کیجئے اس بات کی مزید تفصیل جاننے کے لئے: http://www.humsub.com.pk/27665/muhammad-shahzad-17/
http://www.humsub.com.pk/31974/muhammad-shahzad-22/

اور سچے آرٹسٹ اپنا دل جلاتے ہیں۔ وہ سچ بولنے سے یوں قاصر ہیں کہ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہیں رکھ سکتے۔ مثلاً ہندوستان کے ایک چوٹی کے پنڈت نے ہمیں فون کیا اور کہا کہ جو کچھ ہم نے بھٹ کے بارے میں لکھا وہ درست ہے۔ بھٹ کا یہ کہنا کہ اگر تان سین کا گانا ہوتا تو محمد امان (ایک بے سرا شخص) کے گانے (پانچ منٹ کا بے سرا بے ہنگم باگیشری) آس پاس ہی ہوتا جہالت کی معراج ہے۔ اور ہمارے بھٹ کی رائے کو گدھے کے علم سے تشبیہ دینے پر فرمایا کہ شاید گدھا بھی ایسا نہ کہے۔ ہم نے خواہ مخواہ گدھے کی توہین کر دی! ساتھ ہی ساتھ اس پنڈت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بھارت میں بھٹ سے بھی بڑے احمق موجود ہیں جن کے پرستاروں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ ہم اس پنڈت کا نام نہیں لکھ سکتے۔ وجہ آپ سب جانتے ہی ہیں!

ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے عمر گنوائی میراثیوں کے بیچ اور یہ ہی دیکھا کہ ہر میراثی اپنے علاوہ کسی اور کو نہیں مانتا۔ ان کا حال ان مولویوں کی طرح ہے جنہوں نے اپنے علاوہ ہر فرقے کو کافر قرار دے رکھا ہے۔ مولوی یہ کام کھلے عام کرتا ہے۔ میراثی گھر بیٹھ کر اپنے چمچوں کے بیچ۔ اور پھر محفل میں اسی فنکار کے چرن بھی چھوتا ہے جسے یہ گھر پر بے عزت کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن کچھ غیرت مند موسیقار بھی ہیں۔ ہم انہیں میراثی نہیں آرٹسٹ کہتے ہیں۔ مثلاً طافو خان جو کہ ساری دنیا کو پچھلے پچاس برس سے یہ چیلنج دیے ہوئے ہیں کہ آؤ بیٹھو میرے ساتھ اور طبلہ بجاؤ۔ جو بول تم بجاؤ گے وہ میں بجاؤں گا۔ اور جو میں بجاؤ گا وہ تمہیں بجانا پڑے گا۔ ہارنے والے کو طبلہ چھوڑنا پڑے گا یا اسے فاتح کا شاگرد ہونا پڑے گا۔ میراثیوں میں کوئی غیرت مند ہو گا تو اس چیلنج کو قبول کریگا۔ غیرت مند کیسے ہو سکتا ہے کوئی۔ یہ لوگ تو ساری عمر بادشاہوں، نوابوں، مہاراجاؤں اور رؤسا کی خوشامد کرتے رہے۔ بقول طافو صاحب (جن کا تفصیلی انٹرویو ’ہم سب‘ میں آنے کو ہے) ان کا چیلنج ان میراثیوں کے لئے ہے جو منافق ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو سیدھا کرنے کے لئے طافو کو باادب سے بے ادب بننا پڑا۔

ہم کسی کے دشمن نہیں۔ سچا آرٹسٹ ہم جیسے اتائیوں سے خوش ہوتا ہے بلکہ ہمارے علم میں بھی اضافہ بھی کرتا ہے۔ ہمارے استاد پروفیسر شہباز علی یہ مانتے ہیں کہ انہیں کھرج بھرنے کا طریقہ ماسٹر صادق پنڈی والے نے سکھایا۔ ایک خاص پلٹا مہدی حسن صاحب نے سکھایا۔ اور ہم بھی اسی طریقے سے کھرج بھرتے ہیں اور وہی پلٹا کرتے ہیں۔ ہم مانتے ہیں مہدی صاحب اور ماسٹر صاحب کو اپنا استاد۔ یہ میراثی ہے جو بے مراد ہو جاتا ہے۔ استاد سے سیکھ کر مکر جاتا ہے۔ یہ میراثی ہے جو اتائی کو برداشت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اگر علم اتائی کے پاس آ گیا تو اس کی جہالت کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔ اس مو ضوع پر یہ لنک ملاحظہ فرمائیے: http://www.humsub.com.pk/26083/muhammad-shahzad-12/

عبدالقادر پیا رنگ صاحب اور ہمارے دادا استاد محترم قاضی ظہور الحق دونوں اتائی تھے اور دنیا جانتی ہے کہ ملکہِ موسیقی روشن آرا بیگم نے ان سے استھائیاں سیکھیں۔ روشن آرا کو استھائیاں نہیں یاد تھیں۔ اسی لئے ان کا تمام گانا آکار میں تھا۔ جب پاکستان ٹیلی وژن شروع ہوا تھا تو تمام گویوں کے لئے سرکاری حکم یہ تھا کہ وہ راگ تب گائیں گے جب پیا رنگ اور قاضی صاحب اسے سن کر تصدیق کر دینگے کے صحت خانی کے حساب سے درست ہے۔ ابھی وہ لوگ زندہ ہیں جو یہ گواہی دینگے کہ پیا رنگ اور قاضی صاحب نے روشن آرا کا بسنت ٹھیک کروایا۔ اسی وجہ سے وہ دونوں کی بہت عزت کرتی تھیں۔ اور پورا برصغیر بشمولِ پاکستان ایک اتائی کا احسان مند ہے جس کا نام ہے پنڈت بھاتکھانڈے۔ دس ٹھاٹھوں کا نظام، اس میں موجود ہر راگ کا چلن، پکڑ تان، آروہ، اوروہ، وادی اور سم وادی وغیرہ بھاتکھانڈے کی ہی دین ہیں۔ اگر موسیقی صرف میراثیوں پر ہی چھوڑ دی جاتی تو کب کی غرق ہو چکی ہوتی۔ آج بڑے بڑے گھرانے دار بھاتکھانڈے کا احسان مانتے ہیں۔ تو بھائی میراثی میں تحقیق یا لکھنے کا ٹیلنٹ نہیں۔ میراثی تو اب آ کر سکول جانا شروع ہوئے۔ زیادہ تر تو اکیڈمک ایجوکیشن سے پیدل ہیں۔

اب آتے ہیں وشوا موہن بھٹ کی طرف۔ یہ بھارتی گٹار نواز ہیں۔ گٹار ویسے تو مغربی ساز ہے جو آج کل کے لڑکے ہاتھ میں پکڑ کر بندروں کی طرح اچھل کود کر بجاتے ہیں مگر موہن بھٹ اسے لٹا کر راگ واگ بجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنا تو کچھ ہے نہیں ان کے پاس۔ ہر گھرانے کی اچھی اچھی چیزیں رٹ لی ہیں طوطے کی طرح۔ زیادہ تر اتاوا گھرانے کی بندشیں اور گتیں ہیں۔ بس انہیں ہی الٹا سیدھا کرکے اپنا دھندہ چلاتے ہیں۔ پدما شری لے چکے ہیں جو کہ ہمارے پرائڈ آف پرفارمنس کی طرح بھارت میں بھی ہر شخص کو بلا تفریق ریوڑیوں کی مانند بانٹا جا رہا ہے۔ اس کی کمیٹی بھی زیڈ اے بخاری ٹائپ ’استادوں‘ پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ استاد ولایت خان صاحب نے پدما شری، پدما بھوشن اور پدما وی بھوشن لینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے نزدیک یہ ایوارڈ ان کے ستار اور موسیقی کی توہین تھے۔ ان کی انا اور خود داری کے آگے بھارت کی سرکار کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور صرف ان کے لئے ’آفتابِ ستار‘ کا ایوارڈ وجود میں لایا گیا۔ اس موضوع پر ہمارا گذشتہ مضمون پڑھنے کے لئے یہ لنک کلک کریں : http://www.humsub.com.pk/26215/muhammad-shahzad-13/

ہوا کچھ یوں کہ بھارت کے ایک کمرشل شو میں موہن بھٹ کے ’پنڈ‘ کا ہی ایک لڑکا محمد امان پانچ منٹ باگیشری گایا۔

ان پانچ منٹوں میں ایک سے زیادہ جگہ پر بے سرا بھی ہوا۔ بندش کا انترہ بھی غلط گایا۔ درست بندش اس لنک میں موجود ہے۔ https://bandishein.wordpress.com/2011/03/04/aye-ri-aye-main-kaise-ghar-jaaun/

اور دوسری بات کہ تمام اوپر کی تانیں رگی تھیں۔ کھلے گلے کی نہیں تھیں۔ بندشوں کا تلفظ بہت ہی غلط تھا۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ اس لڑکے سے کہیں بہتر گھرانے داروں کے چھوٹے چھوٹے بچے جنہوں نے نیا نیا سیکھنا شروع کیا ہے وہ گا لیتے ہیں۔ یہ لڑکا شام چوراسی والوں کی تانیں مار رہا تھا جو کہ اس گھرانے کا بچہ بچہ انتہائی سر میں کمال طریقے سے کہہ دیتا ہے۔ اس لڑکے کا گانا عامیانہ درجے سے بھی کئی گنا نیچا تھا مگر موہن بھٹ کا کہنا ہے کہ اگر تان سین کے گانے کا ثبوت موجود ہوتا تو اس کا گانا اس لڑکے کے گانے کے آس پاس ہی ہوتا!

ایسی بات سن کر اور وہ بھی ایک موسیقی کے پنڈت کے منہ سے (بھٹ اپنے آپ کو پنڈت کہلواتے ہیں) ہم نے تو صرف اتنا کہا کہ آپ نے تان سین کو نہ دیکھا نہ سنا۔ نہ ہی آپ اس کے خاندان سے ہیں اور نہ ہی آپ کے پاس اس کی کوئی ریکارڈنگ ہے۔ مگر آپ کی بُدھی کے مطابق تان سین کا گانا اس لڑکے کے گانے سے کمتر ہے۔ تو پھر استاد عاشق علی خان صاحب، استاد عبدالکریم خان صاحب، استاد فیاض خان صاحب، استاد بڑے غلام علی خان صاحب، استاد امیر خان صاحب، اور دیگر کئی پنڈتوں اور خان صاحبوں کا گانا کس لیول کا ہے؟ یہ تمام حضرات تان سین کے مزار پر حاضری دیتے ہیں اور ان کے مزار کی مٹی چاٹتے ہیں۔ یہ ایک پرم پرا ہے۔ کیا آپ نے اس پرم پرا کا پالن کیا؟

کہنے کو آپ پنڈت ہیں کلا اور ودیا کے، گیانی ہیں اور پروگرام میں منصف بھی بنے بیٹھے ہے۔ لڑکا بے سرا ہوئے جا رہا ہے، بندش غلط گا رہا ہے۔ تان رگی لگا رہا ہے۔ اور آپ کو محسوس تک نہیں ہو رہا! کیا تان سین ایسا گاتا تھا؟ کیا بڑے غلام علی خان جو اپنے آپ کو تان سین کے قدموں کی دھول برابر نہیں سمجھتے ایسا بے سرا اور رگی گانا گاتے تھے؟ آپ کو گانے کی الف بے تک کا پتہ نہیں۔ آپ معمولی سے گٹاریا ہیں اور شنکر مہادیون کے سامنے اس لڑکے کو تان سین سے اوپر کا درجہ دے رہے ہیں! وہ شنکر مہادیون جو گانا شروع کر دے تو بڑے بڑے گویوں کو سانپ سونگھ جائے!

ہم نے فن موسیقے سے نابلد افراد کو موسیقی سنائی ہے۔ اس تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایسا کوئی شخص ’سا رے گا ما‘ کا منصف بنے اور محمد امان کو سنے تو وہ بھی اسے تان سین سے اوپر کا گویا ہی کہے گا۔ اوربقول آپ کے، امان آپ کے گھر کا بچہ ہے۔ آپ کو اس سے ہمدردی کرنی چاہیے۔ آپ الٹا اسے تباہ کر رہے ہیں۔ آپ نے اسے تان سین سے بھی اوپر کا گویا بنا دیا۔ اب یہ مستقبل میں کیا سیکھے گا؟ اس تان سین کو سکھانے کے لئے آپ سوامی ہری داس کہاں سے لے کر آئیں گے؟ چلیں چھوڑیں۔ اب آپ پرم پرا کے مطابق محمد امان سے گنڈا بندھوا لیں۔ اسے سجدہ کر۔ اپنی ساری کمائی اسے نذر دیں۔ دوسروں کی چوری کی ہوئی بندشیں اور گتیں بجانا چھوڑ کر اور گٹار کو کباڑ بازار میں بیچ کر ایک تانپورہ خرید کر نئے ’تان سین‘ سے اصلی بندشیں سیکھ لیں۔ لیکن وہ تو خود دوسروں کی بندش صحیح نہیں گا سکتا۔ آپ کو کیا سکھائے گا؟

جب لتا جی اور رفیع صاحب میں رنجش ہو گئی تھی تو لتا جی نے رفیع صاحب کو جلانے کے لئے یہ کہہ دیا کہ مہدی حسن صاحب کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں۔ جبکہ بھارت کے بڑے بڑے کلاسیکل گویے بشمولِ بڑے غلام علی خان پلے بیک گائیکی میں بھگوان رفیع صاحب کو ہی مانتے تھے۔ لتا جی بلاشبہ پلے بیک گائیکی کی دیوی ہیں مگر اس دیوی کے کہنے کے باوجود بھی دنیا نے مہدی صاحب کو فلمی گائیکی کا بھگوان نہیں مانا۔ ’بھگوان‘ آج تک رفیع صاحب ہی ہیں اور غزل میں بھگوان مہدی صاحب ہی ہیں۔ اگر مقصد شنکر مہادیون کو نیچا دکھانے کا ہے تو آپ کے کہنے سے گیدڑ شیر نہیں بن سکتا۔ لتا تو ’لتا‘ ہے۔ کہہ سکتی ہے مہدی صاحب کو بھگوان۔ آپ خود کیا ہیں؟ پہلے اپنے آپ کو کسی مقام پر تو لے آئیں!

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments