آن لائن تعلیم: زمینی حقائق کیا ہیں؟


کسی بھی حکمراں یا سربراہ کی ناکامی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک نمایاں وجہ اس کو گراؤنڈ ریلٹی کے علم کا نہ ہونا ہے۔ ایک لیڈر کے لئے پسماندہ علاقوں کے باسیوں کی ضروریات زندگی اور لیڈ کلاس لوگوں کی آسائشوں کا جاننا بے حد ضروری ہوتا ہے تب ہی وہ اپنی بات ان تک اور ان کے مسائل اپنے تک لا سکتا ہے۔ اس ساری تمہید کا مقصد آنلائن پیپرز کے حوالے سے کچھ گزارشات کا کرنا ہے۔ اب چونکہ پنجاب یونیورسٹی و سمیت دیگر کئی جامعات کی ڈیٹ شیٹس آ چکی ہیں اور ادارہ و ایچ ای سی اس بات پر بضد ہے کہ آن لائن پیپرز کا انعقاد کروایا جائے اس بات سے قطع نظر کے بچے کن مسائل سے دوچار ہیں۔

پرسوں پنجاب یونیورسٹی کے ایک معزز معلم و معمار کا وائس نوٹ، جو کہ اس سوال پر کہ آنلائن پیپرز کیسے ہوں گے، سماعت سے ٹکرایا۔ وہ فرما رہے تھے کہ ہر بچے کے پاس یا گھر ایک عدد یوپی ایس (UPS) ، ایک موبائل فون، ایک لیپ ٹاپ، نیٹ پیکج، وائی فائی وائس پلس پیکج اور نو سگنل پرابلم کو مینج کرنا ضروری ہو گا اور یہ طالب علم اپنی صوابدید پر کرے گا۔ اگر طالب علم اس کا انتظام نہ کر سکا تو ادارہ بری ذمہ اور طالب علم ہی کو خمیازہ بھگتنا ہو گا۔

یہ وائس نوٹ سن کر دماغ سن اور جسم چھلنی ہو گیا کہ اگر کسی قوم کے اساتذہ ہی اپنے طالب علموں کے مسائل و حالات سے واقفیت نہیں رکھتے اور ان کی ترجمانی نہیں کر سکتے تو ہمارا مستقبل کیا ہو گا۔ ایک چھوٹی سی عرض کہ یونیورسٹی میں پڑھنے والے بچے ایک ہی کیٹگری کے نہیں ہوا کرتے۔ غرباء سے لے کر امراء تک تعلیم سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں لیکن ہماری پالیسی صرف امراء اور لیڈ کلاس کو دیکھ کر ہی کیوں مرتب کی جاتی ہے؟

وہ بلوچستان کی سنگلاخ پہاڑیوں میں رہنے والے، وہ کے پی اور جی بی کے سٹوڈنٹس، وہ بارڈر ایریا اور انتہائی پسماندہ علاقوں میں مکین طالب علم اس سب کو کیسے مینج کریں گے؟ ایسے طالب علم بھی موجود ہیں جو موبائل جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں وہ ان سب کا اچانک انتظام کس طرح کر سکتے ہیں؟ خدارا! پالیسی کو بناتے وقت ایک سروے کیا جانا چاہیے تاکہ پالیسی میکر بھی گراؤنڈ ریلٹی سے روشناس ہو سکیں۔

یہ بات ذہن نشین کرنا ہو گی ہم تعلیم کا حصول جتنا مشکل اور کٹھن بناتے جائیں گے، ہماری قوم اتنی ہی پستی کی طرف دھکیلی جائے گی۔ ابھی وہ منظر آنکھوں کے سامنے ناچ رہا ہے جب چیئرمین ایچ ای سی کی پریس کانفرنس میں تمام سٹوڈنٹس نے کمنٹ صرف پرموٹ کے کیے (ابھی بھی سروے کیا جا سکتا ہے ) پھر بھی یہ ایگزام یا آنلائن ایگزام لینے پر بضد کیوں ہیں؟ کیا پالیسی اے سی والے بند کمروں میں بیٹھ کر ترتیب دی جائے گی؟ کیا آنلائن کلاسز کا انعقاد اچھے سے ہو سکا؟ یہ سوالات کالم نگار کے ذہن میں باربار گونج رہے ہیں لیکن جواب ندارد۔ ۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments